• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سعد اختر

رات کی تاریکی نے واہگہ بارڈر سے ملحق سرحدی گائوں ’’لابان والا‘‘ کو اپنی آغوش میں لے رکھا تھا۔ 5؍ستمبر کی رات قریباً اپنا سفر طے کرچکی تھی۔ چار سو نفوس پر مشتمل چھوٹا سا سرحدی گاؤں مکمل طور پر سناٹے کی لپیٹ میں تھا، البتہ کبھی کبھار کسی آوارہ کتے کے بھونکنے کی آواز سنائی دے جاتی ،جس سے فضا میں ارتعاش پیدا ہوجاتا۔ 

گاؤں کے تمام لوگ محوخواب تھے۔ یہاں رینجرز والوں نے ایک چیک پوسٹ بھی قائم کررکھی تھی۔ اس پر مامور رینجرز کے شاہین سرحدی نگرانی کا کام انجام دیتے تھے۔ اسمگلروں اور دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا بھی انہی کی ذمے داری تھی۔ گائوں کے باہر ایک اونچا ٹاور نصب تھا جس پر رینجرز کے جوان بیٹھ کر سرحد کے پار ہونے والی سرگرمیوں کی دوربین کے ذریعے چوبیس گھنٹے کڑی نگرانی کرتے،ان کی ڈیوٹیاں ہر دو گھنٹے بعد بدل جاتی تھیں۔ یہ سلسلہ چوبیس گھنٹے اسی طرح جاری رہتا۔

لیکن اس رات لابان والا کے مکینوں کو قطعی معلوم نہیں تھا کہ اگلی صبح ان پر یہ قیامت گزرے گی کہ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت اچانک ان پر حملہ کردے گا۔ 17؍سالہ صابرہ بھی اپنے مکان کے صحن میں سوئی ہوئی تھی۔ اس کے دائیں جانب چھوٹے بھائی 10؍سالہ ارشد اور بائیں جانب والد نور دین اور والدہ سکینہ بی بی کی چارپائیاں تھیں۔ وہ سب گہری نیند سوئے ہوئے تھے۔فجر ہونے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا۔ 

تمام گھر والے نماز کے وقت باقاعدگی سے اٹھ جایا کرتے، یہ ان کا روزمرہ معمول تھا لیکن 3؍بجے کے قریب ایک زوردار دھماکے نے پورے گائوں کو لرزا دیا۔ صابرہ چارپائی پر اٹھ بیٹھی، نور دین اور والدہ سکینہ بی بی کی بھی آنکھ کھل گئی، بھائی ارشد بھی اپنی چارپائی پر ہلنے لگا۔ ’’یااللہ! کیسا دھماکا ہے یہ…؟‘‘ صابرہ نے اپنے آپ سے سوال کیا پھر اپنے والد اور والدہ کی طرف دیکھا، وہ بھی حیرت زدہ تھے کہ کیسی دل ہلا دینے والی آواز ہے۔

نور دین سابقہ فوجی تھا، سمجھ گیا کہ یہ گولے کا دھماکا ہے۔ اس وقت نور دین کے ذہن میں فوراً خیال آیا ’’کہیں دشمن نے تو حملہ نہیں کردیا؟‘‘ پھر خود ہی جواب اس کے ذہن میں منڈلانے لگا۔ ’’نہیں! ایسا نہیں ہوسکتا ،بھارت ایسی جرات کبھی نہیں کرسکتا۔‘‘ لیکن یہ ایک گولے کی آواز نہیں تھی، وقفے وقفے سے مزید کئی گولوں کی گرج دار آوازیں فضا میں گونجنے لگیں۔ پورا گائوں لرزنے لگا اور سبھی مکین بیدار ہوگئے۔ نور دین، صابرہ، سکینہ بی بی اور دوسرے گائوں والے گھروں سے باہر نکل آئے۔ انہیں یقین ہوگیا کہ بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا ہے۔

اس وقت رینجرز بطور سرحدی فورس سرحد پر موجود تھے۔ ان کے پاس صرف ہلکے ہتھیار تھے لیکن وہ انہی سے دشمن پر فائر کررہے تھے، جو طاقت میں پانچ گنا زیادہ تھا، بی آر بی نہر کی طرف پیش قدمی کرنے لگا۔ یہ پاکستان کی مضبوط دفاعی لائن تھی، گو تب وہاں کوئی فوجی موجود نہیں تھا۔ جی ایچ کیو کو بھارت کے اس بزدلانہ حملے کی اطلاع ہوچکی تھی۔

سیالکوٹ کے محاذ پر بھی دشمن کی پیش قدمی 600؍ٹینکوں کے ساتھ جاری تھی۔ اس نے مغربی سرحد پر تمام اہم محاذ کھول دیئے تھے۔ وہ واہگہ اور سیالکوٹ کے سرحدی علاقے سے بڑھ کر پاک فوج کی کمک و رسد کے تمام راستے بند کرنا چاہتا تھا۔ اس کے مذموم عزائم بہت خطرناک تھے۔ اس وقت رینجرز اہلکاروں نے سرحد کی حفاظت کا مشکل ترین کام سنبھالا۔ شہادتیں بھی ہورہی تھیں لیکن وہ ملک و قوم کی حفاظت کیلئے سینہ سپر تھے۔

واہگہ کے سرحدی دیہات لابان والا، اسی چوغل، رچ میاں وغیرہ میں اگرچہ خوف کا عالم تھا، کافی لوگ دو تین گھنٹوں ہی میں نقل مکانی کرکے محفوظ مقامات پر اپنے عزیز و اقارب کے ہاں جانا شروع ہوگئے لیکن نور دین اور اس کی بیٹی صابرہ نے فیصلہ کیا کہ وہ ہرگز گائوں نہیں چھوڑیں گے۔دشمن کی گولہ باری تیزہوچکی تھی۔ 

رات نے بھی اپنا سفر طے کرلیاتھا ،اب بارود کی بو میں رچی بسی 6؍ستمبر 1965ء کی چمکتی دمکتی صبح نمودار ہوئی۔ نور دین صبح کی ان روپیلی کرنوں میں اپنے فوجی دستوں کو کنٹرول لائن کی طرف جاتے دیکھنے لگا جہاں اس وقت گھمسان کا معرکہ ہورہا تھا۔ جہاز بھی فضا میں اڑنے لگے تھے۔ بڑا گمبھیر ماحول تھا۔ ان دنوں صرف اخبارات اور سرکاری ریڈیو ہی عوام تک کسی بھی خبر کی رسائی کا اہم ذریعے تھے۔

6؍ستمبر کی صبح اخبارات میں حملے سے متعلق کوئی خبر نہیں تھی، وجہ یہ تھی کہ جس وقت حملہ ہوا، اخبارات مارکیٹ میں آچکے تھے اسی لئے لوگ تازہ ترین حالات جاننے کیلئے ریڈیو کے گرد جمع تھے۔ معمول کی نشریات روک کر صرف بھارتی حملے کی خبر دی جارہی تھی۔ لوگ بی بی سی ریڈیو بھی سن رہے تھے جو بری خبریں دے رہا تھا۔ اس نے یہ جھوٹی اور بے بنیاد خبر دی کہ بھارتی فوج نے لاہور پر قضبہ کرلیا ہے اور اس کے افسر اور جوان لاہور جیم خانہ میں فتح کا جشن منا رہے ہیں۔ 

پاکستان اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں خاصی تشویش پھیل گئی لیکن وہ لوگ جو لاہور میں تھے، اس خبر کو کیسے سچ مان سکتے تھے تاہم بی بی سی اور انڈین ریڈیو ’’آکاش وانی‘‘ سے ایسی بے بنیاد خبریں نشر کی جارہی تھیں جو لوگوں میں خوف پھیلانے لگیں۔ پاکستانی میڈیا نہ ہونے کے برابر تھا اس لئے بی بی سی اور آکاش وانی کا منفی پروپیگنڈا پوری دنیا پر اثرانداز ہورہا تھا۔ اس کے اثرات پاکستان پر پڑ رہے تھے۔ غیر ممالک میں مقیم پاکستانی تو اس صورتحال پر بہت فکرمند تھے۔

اس دوران ریڈیو پاکستان سے اعلان کیا گیا کہ صدر پاکستان جنرل محمد ایوب خان ٹھیک گیارہ بجے قوم سے خطاب کریں گے۔ یہ اعلان سن کر لوگ جوق درجوق ایسی جگہوں پر جمع ہونے لگے جہاں ریڈیو موجود تھا۔ یہ یاد رہے کہ ان دنوں ریڈیو سیٹ بھی کہیں کہیں اور کسی کسی کے پاس ہی ہوتا تھا۔ وہ صرف سیلوں (بیٹری سیل) سے چلتا۔ گیارہ بجے ریڈیو پاکستان سے اناؤنسر کی آواز سنائی دی ’’اب صدر پاکستان جنرل محمد ایوب خان قوم سے خطاب کریں گے۔‘‘ اس اعلان کے بعد فضا میں قومی ترانہ گونجنے لگا۔ ’’پاک سرزمین شاد باد، کشور حسین شاد باد‘‘ ترانے کے فوری بعد ایک گرج دار آواز سنائی دی جو صدر جنرل محمد ایوب خان کی تھی۔ 

وہ دشمن کو للکارتے ہوئے گویا ہوئے۔ ’’تم نے کس قوم کو للکارا ہے۔ جب تک دشمن کی توپوں کے دہانے ہمیشہ کیلئے بند نہیں ہوجاتے، ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔‘‘ صدر کی ولولہ انگیز تقریر پر پوری قوم یک جان ہوگئی۔ کسی سندھی، پنجابی، پٹھان اور بلوچی کی تخصیص نہ رہی۔ فوج تو اپنے محاذوں پر دادشجاعت دے ہی رہی تھی، قوم بھی دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئی۔ لاہور، قصور، سیالکوٹ، چونڈہ، چھمب، جوڑیاں، شکر گڑھ اور ہید سلیمانکی سیکٹر میں بھی دشمن فوج جدید روسی اسلحے سے لیس حملہ آور تھی۔ ہماری فوج بھی بیرکوں سے نکل کر سرحدوں پر پہنچ گئی اور دشمن کا مقابلہ کرنے لگی۔ 

اس نے نہ صرف یلغار روکی بلکہ بعض بھارتی علاقوں کی طرف پیش قدمی بھی شروع کردی۔ اس دوران بھارتی جنگی جہازوں نے پاکستان کے مغربی حصے پر بمباری کا سلسلہ شروع کردیا۔ یہ فضائی حملے اکثر رات کو ہوتے جس کے باعث پورا ملک ’’بلیک آئوٹ‘‘ میں ڈوبا رہتا۔ پاک فوج نے صورتحال کے پیش نظر تمام اہم عمارتوں اور دریائی پلوں پر جو اہم شہروں کو ایک دوسرے سے ملاتے تھے، طیارہ شکن توپیں نصب کردیں۔ ہمارے جنگی جہاز بھی دشمن کے علاقوں میں جاکر کارروائیاں کرنے لگے۔ ایک فضائی حملے میں ہمارے ایک جانباز ہوا باز نے پٹھان کوٹ ایئربیس کو جنگی جہازوں سمیت مکمل طور پر تباہ کردیا۔

65ء کی جنگ میں لاہور، بھارتی جارحیت کا اہم مرکز تھا۔ بھارت نے وہاں اپنی تمام فوجی طاقت مرکوز کردی تھی۔ وہ سمجھتا کہ اگر لاہور پر قبضہ ہوگیا تو پورے پاکستان کا رابطہ کٹ جائے گا اور وہ آسانی سے اپنا ہدف حاصل کرلیں گے مگر میجر عزیز بھٹی نے جو اس وقت واہگہ کمان سنبھالے ہوئے تھے، نہایت جوانمردی سے دشمن کا مقابلہ کیا۔ ان کے پاس بہت کم نفری تھی اور ہتھیاروں کی تعداد بھی محدود تھی لیکن وہ قطعی خوف زدہ نہیں ہوئے۔ وہ خود اگلے مورچوں پر بہادری سے دشمن کو منہ توڑ جواب دینے گئے۔ دشمن کو محسوس ہورہا تھا جیسے بہت بڑی نفری مقابلے میں ہے۔ 

دونوں جانب سے گولہ باری اور جدید گنوں سے فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا۔ اس اثنا میں ایک گولہ میجر عزیز بھٹی کو آکر لگا اور وہ شہید ہوگئے۔ انہیں اس بہادری کے صلے میں حکومت پاکستان نے سب سے بڑے فوجی اعزاز ’’نشان حیدر‘‘ سے نوازا۔ لابان والا کے وہ لوگ جو نقل مکانی کرگئے تھے، اپنی بہادر افواج کی فتوحات کا سن کر واپس آگئے تاہم صابرہ، نور دین اور سکینہ بی بی نے ان حالات میں بھی گائوں نہیں چھوڑا۔ وہ جنگ کے 17؍دنوں میں گائوں ہی میں رہے۔ گائوں کے مکینوں نے جہاں اپنی بہادر افواج کا حوصلہ بڑھانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی، وہاں ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے جنگی ترانے ان کے جوش و جذبے میں اضافہ کرتے رہے۔ 

دشمن کو شکست دے کر پاک فوج اور پوری قوم نے جن میں فنکار، شاعر، گلوکار، موسیقار اور ہر مکتبہ فکر کے لوگ شامل تھے، یہ ثابت کردیا کہ ہم ایک بہادر فوج اور بہادر قوم ہیں۔ گائوں لابان والا آج بھی آباد ہے۔ نور دین اور اس کی بیوی سکینہ بی بی فوت ہوچکے، صابرہ زندہ ہے، اس کی شادی ایک فوجی سے ہوئی۔ صابرہ کا چھوٹا بھائی ارشد بھی فوج میں چلا گیا اور اب بھی فوج میں ہے۔ 6؍ستمبر کو وہ اپنے باپ اور ماں کی قبروں کے علاوہ ان شہداء کی قبروں پر بھی ضرور حاضری دیتی اور فاتحہ پڑھتی ہے جو اس وطن کی حفاظت کیلئے قربان ہوگئے۔ اللہ شہدائے ستمبر پر ہزار بار اپنی رحمت نازل کرے اور جنت میں اونچا و اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین!

(انتخاب: ندا سکینہ صدیقی)