لیفٹنٹ کرنل ریٹائرڈ
عادل اختر
مسلمان معاشروں میں علم اور شعور کی بہت کمی ہے جس کا انہیں نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔ مسلمان ممالک ترقی کی دوڑ میں سب سے پیچھے ہیں اور دہشت گردی کے لیے بھی بدنام ہیں حالانکہ مسلمانوں میں عالمی سطح کے علما، فقرا اور دانشور کثرت سے موجود ہیں۔ جن کی برکت سے دنیا کے باشعور غیر مسلم اسلام کی طرف مائل ہوجاتے ہیں عظیم مسلمان دانشوروں کی فہرست میں ایک بڑا نام مولانا رومی کا ہے علامہ اقبال تو ان کے دیوانے تھے اور ان کو اپنا مرشد مانتے تھے۔
جلال الدین رومی 604ہجری میں بلخ افغانستان میں پیدا ہوئے انہیں ابتدائی تعلیم تو ان کے والد نے دی، اس کے بعد ایک عالم سید برہان الدین سے تعلیم حاصل کی۔ جلال الدین ایسے لوگوں میں تھے، جن کا سینہ اللہ نے حصول علم کے لئے کھول دیا تھا 629ھ میں وہ تحصیل علم کی خاطر شام چلے گئے۔ وہاں بڑے بڑے مدرسے اور بڑے بڑے علما موجود تھے ان سے مولانا رومی نے بہت فیض حاصل کیا، جلد ان کا شمار بڑے علما میں ہونے لگا۔ اس کے بعد جلال الدین رومی کا رجحان تصوف کی طرف ہوگیا۔ کھانے، پینے اور آرام سے غافل ہوتے گئے جذب و انہماک میں اضافہ ہوگیا فقر و اسثغنی اور جذب و مستی ان پر غالب آنے لگے ، پھر ان کی زندگی میں ایک اہم موڑ آیا۔
ان کی ملاقات ایک بڑے مجذوب شمس الدین تبریز سے ہوگئی جس سے ان کی زندگی کا رخ بدل گیا۔ جلال الدین کے متعلق بے شمار روایات مشہور ہوگئیں۔ جن کے سچ ہونے کی تصدیق یا تردید کافی مشکل ہے 672ھ میں جلال الدین نے ترکی کے قصبے قونیہ میں انتقال فرمایا ،اب وہ جلال الدین رومی کے نام سے معروف ہیں۔ مولانا جلال الدین رومی دنیائے تصوف کے ایک بڑے امام سمجھے جاتے ہیں ان کا کلام قلب و روح کو سکون سے مالا مال کردیتا ہے ان کے چشمہ فیض سے بے شمار لوگوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔ جن میں ہمارے حضرت علامہ اقبال بہت نمایاں ہیں۔ وہ رومی کو اپنا استاد اور مرشد مانتے تھے۔ علامہ نے افلاک کی ایک تصوراتی سیر کی تھی اس میں وہ بڑے بڑے دانشوروں سے ملے تھے، اس افلاکی سیر میں مولانا روم بحیثیت استاد اور رہبر ان کے ساتھ تھے۔
مثنوی مولانا روم دراصل قرآن پاک اور احادیث نبوی کا عکس جمیل ہے، جس میں مولانا روم نے قرآن حکیم اور پیغمبر پاکﷺ کے ارشادات کی تشریح اور تفسیر موثر اور دلفریب انداز میں کی ہے۔ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی مولانا کے کلام کی تازگی اور شگفتگی برقرار ہے۔ مغربی دنیا میں آپ کی پذیرائی میں اضافہ ہورہا ہے۔ نئے نئے ترجمے اور تفسیریں شائع ہورہی ہیں۔ گو انسان کا ماحول بدلتا رہتا ہے۔ مگر انسان خود نہیں بدلتا، وہی لالچ، غصہ، حسد اس پر غالب رہتے ہیں۔ مولانا روم انسان کو ترغیب دیتے ہیں کہ اپنی اصل تلاش کرے۔ اس عمل میں مولانا انسان کی رہنمائی بھی کرتے ہیں۔
مولانا ایک عالم دین اور صوفی باصفا تھے۔ وہ تصوف سے کماحقہ واقف تھے۔ ان کی اپنی ریاضت ، بلندعلمی اور عقلی مرتبے نے انہیں بہت اعلیٰ مقام عطا کردیا تھا۔ تصوف کی تجلیات نے ان کے دیدہ و دل کو روشن کردیا تھا۔ مولانا نے تصوف کی راہ میں اپنے افکار سے ایسا چراغ روشن کردیا ہے جس کی روشنی سے کامل و ناقص عاقل اور جاہل سبھی فیض یاب ہوتے ہیں۔ ان کے کلام میں حکمت و فراست، شریعت و طریقت کا امتزاج اس قدر خوبصورتی سے ہوا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔
جلال الدین رومی کی مشہور ترین کتاب کا نام مثنوی معنی ہے۔ مثنوی کا مطلب ہے، دو والا۔ اس کا ہر شعر دو قافیہ ہوتا ہے معنی اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں بڑے بڑے اسرار اور معارف بیان کئے گئے ہیں۔ مثوی مولانا روم کو جس طرح کی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی ہے وہ شاہد ہی کسی اور کتاب کے حصے میں آئی ہو، انہوں نے ایسے ایسے دقیق نکتے بیان کئے ہیں جو بڑی حیرت کا باعث ہیں۔
مثنوی میں بنیادی طور پر تصوف کے مسائل میں قرآن و حدیث کی تشریح، توضیع ہے لیکن حیرت انگیز طور پر فلسفے اور سائنس کے بعض موضوعات کی بھی تشریح بڑے آسان پیرائے میں کی ہے۔
انیسویں صدی میں برطانیہ کے ایک سائنسدان چارلس ڈارون نے مسئلہ ارتقا پر روشنی ڈالی تھی اس نے بتایا زندگی کس طرح وجود میں آئی اور کس طرح اس کا ارتقا ہوا۔ مولانا روم نے اس موضوع پر ڈارون سے چھ سو برس پہلے اظہار خیال کیا تھا۔ خلاصہ یوں ہے کہ مولانا کے زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ دنیا میں چار قسم کی موجودات ہیں جمادات، نباتات، حیوانات اور انسان۔ مولانا روم کی بات کا آسان ترین زبان میں مطلب ہے کہ پہلے صرف جمادات (اینٹ، پتھر، مٹی) تھیں۔ لاکھوں کروڑوں برس گزر گئے جمادات، نباتات میں منتقل ہوگئیں، پھر کروڑوں برس اور گزر گئے۔ نباتات حیوانات میں آئیں۔ حیوانات کا ارتقا ہوا تو انسان وجود میں آیا لیکن اس بات کا شعور نہیں ہے۔
آمدہ اول بر اقلیم جماد
و زجمادی در نباتی اوفتاد
پہلے پہلے صرف جمادات تھے (اینٹ، پتھر، مٹی وغیرہ) ان جمادات سے نباتات کا وجود ہوا۔ جمادات، نباتات بن گئے۔
سالہا اندر نباتی غر کرد
دز نباتی یاد ناورد از نبرد
وہ عرصہ دراز نباتات میں رہا لیکن اسے یہ دور یاد نہیں۔
وز نباتی چون بہ حیوانی فتاد
نامدش خال نباتی ہیچ یاد
پھر نباتی زندگی سے حیوانی زندگی میں آگیا لیکن اسے یاد نہیں۔
جز یماں میلے کہ وارد سوئے آں
خاصہ در وقت بہاراں ضمیراں
البتہ ابن میلان کو جو موسم بہار میں نباتات سے محسوس ہوتا ہے
ہمچو قین کودکاں با مادران
سر فیل خود نداند درلباں
جس طرح بچوں کا میلان ماں کی طرف ہوتا ہے اگرچہ شیرخواری کا زمانہ یاد نہیں رہتا
باز از حیوان ہوئے انسانیش
مکیشلر ان خالقے کہ دانشیں
پھر خالق (خدا) نے اسے حیوان سے انسان میں تبدیل کردیا ہے۔
ہم جنس از اقلیم تا اقلیم رفت
تاشد گتوں عاقل و دانا و زفت
اس طرح وہ ایک علم سے دوسرے علم کا سفر کرتا رہا، یہاں تک کہ اس میں عقل اور دانائی آگئی۔ مولانا نے اپنی مثنوی میں قرآن و حدیث، تصوف و سلوک، شریعت و طریقت، فلسفہ و سائنس کے دقیق مسائل کو آسان اور عام فہم انداز میں سمجھایا ہے۔ یہ کتاب ایک خزانہ ہے ہم بڑے بدقسمت ہیں کہ اس خزانے کو بالکل بھلا بیٹھے ہیں۔ مولانا روم نے اپنی بات کے اظہار کے لیے بانسری کا لفظ پہلی بار استعمال کیا۔ ان کے ایک شعر کا مطلب ہے، ذرا بانسری کو دیکھو، دیکھنے میں ایک سوکھی ہوئی لکڑی ہے، لیکن سننے والے کوا س میں سے آواز دوست سنائی دیتی ہے۔ اب ہم مولانا کے کلام کا کچھ حصہ نذر قارئین ہے۔
نوائے نئے (بانسری کی فریاد)
پشنو از نئے چو حکایت می کنند
وز جدا ئیہا شکایت می کنند
(1) غور سے ذرا سنو، بانسری کیا کہہ رہی ہے۔ جدائی (فراق) میں رو رہی ہے۔
(2)لوگ مجھے جنگل سے کاٹ کر لے آئے ہیں ہر شخص میری فریاد سن کر آبدیدہ ہے۔
(3)جو کوئی اپنی اصل سے دور ہوجائے گا۔ وہ اپنوں کی یاد میں تڑپے گا ضرور
(4)میں ہر دم نالہ و فریاد پر مجبور ہوں۔ بزم میں چاہے جتنے لوگ بیٹھے ہوں۔
(5)ہر کوئی مجھے اپنا سمجھتا ہے مگر میرے دل کا درد کوئی نہیں جانتا۔
(6)میرے نالوں میں میرے دل کا درد ہے مگر اسے سمجھنے والا کہاں؟
(7)جسم اور روح ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے مگر رو ح کس کو نظر آتی ہے؟
(8)بانسری سےنکلنے والی آواز ایک آگ ہے نہ کہ باد تف ہوا اس انسان پر جس میں زندگی کا شعلہ پوشیدہ نہ ہو۔
(9)بانسری سے عشق کا شعلہ نکل رہا ہے۔ شراب میں نشہ سبھی عشق کی وجہ سے ہے۔
(10)بانسری بچھڑے ہوئوں کی یاد دلاتی ہے۔ اس کی آواز دل کے پار ہوجاتی ہے۔
(11)بانسری زہر بھی ہے، تریاق بھی، ہمدم بھی ہے مشتاق بھی۔
(12)بانسری پرخطر راستوں کا حال بیان کرتی ہے اور مجنوں کی طرح آہیں بھرتی ہے۔
(14)بانسری کی آواز سن کر اپنے پرائے ہوگئے۔ بانسری کے ایک سرے سے نغمے نکل رہے ہیں (دوسرا سرا ہونٹوں میں دبا ہوا ہے)
(15)بانسری کی آواز اسی (خالق) کی وجہ سے ہے زندگی کا نغمہ بھی اسی کے دم سے ہے۔
(16)بانسری کی آواز صرف ان کی سمجھ میں آتی ہے، جو مست و بیخودپڑے ہیں۔
(17)اگر بانسری کے نغمے میں اتنا اثر نہ ہوتا تو یہ جہاں اتنا خوبصورت کیسے ہوتا۔
(18)شراب ہماری وجہ سے مست ہے، ہم شراب پینے سے مست نہیں ہیں۔ جسم ہماری بدولت ہے، ہم جسم کی بدولت نہیں ہیں۔
(19)سارے بندھن توڑ کر آزاد ہوجائو ،سونے چاندی کی قید میں نہ رہو۔
(20)عشق سے ہوا دامن چاک چاک، وہ ہر عیب سے پاک رہتا ہے۔
(21)اے عشق تو میرے فخر و تکبر کا مذج ہے۔ توہی جالینوس ہے تو ہی حکیم ہے۔
(22)عشق کی بدولت مٹی کا یہ جسم آسمان تک پہنچ گیا۔ عشق کی بدولت پہاڑ وجد میں آجاتے ہیں۔
(23)عشق ہی طور کی جان ہے۔ بیخودی سے پہاڑ چور چور ہیں۔
(24)بانسری کی لے میں جو راز پوشیدہ ہے، اگر بیان کردوں تو قیامت آجائے۔
(25)اگر میں بانسری بجانے والے کی طرح اپنے ہونٹ بانسری کو لگا دیتا تو بڑے بڑے قیمتی راز فاش کرتا۔
ہمارے کلچر میں بھی بانسری کو اہم مقام حاصل ہے ،ہیر کہتی ہے۔
(1)سن ونجلی (بانسری) دی مٹھڑی تان وے۔ میں تاں ہوگئی قربان وے۔
(2)بانسری والے بانسری بجا۔ سن سن بانسری ناچے مورا جیا۔
بانسری کی سریلی سہانی صدا آتی رہی رات بھر (مخدوم محی الدین)
مولانا نے بتایا کہ لکڑی کا ایک بے جان ٹکڑا۔ اپنے اندر کیا کیا قیامتیں چھپائے ہوئے ہے۔