• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مُقدّس نام دیوار پر لکھنا بورڈ یا ہورڈنگز آویزاں کرنا (گزشتہ سے پیوستہ)

تفہیم المسائل

میت کے کفن پر کلماتِ مُقدّسہ ، بسم اللہ صرف انگلی کے اشارے سے غیر حسّی طور پر لکھاجاتا ہے ، باقاعدہ روشنائی سے تحریر ثبت نہیں کی جاتی ۔علامہ ابن عابدین شامیؒ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ ہاں بعض حاشیہ نگاروںنے’’ فوائد الشرجی ‘‘ کے حوالے سے نقل کیا ہے:’’ میت کو غسل دینے کے بعد اورکفن پہنانے سے پہلے روشنائی کے بغیر انگشتِ شہادت سے میّت کی پیشانی پر ’’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَن الرَّحِیم ‘‘اور سینے پر ’’ لَا إلَہَ إلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہِ‘‘لکھ دیا جائے، (ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ، جلد 2،ص: 246)‘‘۔یہ ایساہی ہے، جیسے فضا میں اشارے سے لکھ دیاجائے یا پانی میں لکھ دیاجائے ،یہ لکھنا کسی محسوس شے پر ثبت نہیں ہوتا ،نہ اس کا نقش باقی رہتا ہے، اس لیے اس میں بے ادبی کا تصور ہی مُحال ہے ۔

علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’میت کی پیشانی یا عمامہ یا کفن پر عہدنامہ لکھاگیا ،اللہ تعالیٰ سے اُس کی بخشش کی امید کی جاسکتی ہے اوریہ کہ وہ اُسے عذابِ قبر سے امان عطا فرمادے‘‘، مزید لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ روایت کیا جاتا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اصطبل میں گھوڑوں کی رانوں پر لکھا ہواتھا : ’’حَبِیسٌ فِی سَبِیلِ اللہِ تَعَالَی‘‘(یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں روکے گئے ہیں) ‘‘،(ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ، جلد 2،ص: 246)‘‘۔ وہاں ایک ضرورت بھی تھی کہ ہرایک کو علم ہو کہ یہ گھوڑے ’’ وقف فی سبیل اللہ ‘‘ ہیں۔

عہدنامہ قبرمیں قبلے کی جانب ایک طاق بناکر رکھا جاتا ہے ،اس لیے وہاں بے ادبی یا نجاست سے آلودہ ہونے کا احتمال نہیں رہتا۔ نیز قبر کا معاملہ اللہ تعالیٰ اور صاحبِ قبر کے درمیان ہے ، اللہ ربّ العالمین کے رازوں میں سے ایک راز ہے ، جس کا ہر ایک پر منکشف ہونا ممکن نہیں ، ربّ ِکریم چاہے تو اُن کلمات کی برکت سے میت کی بخشش فرمادے اور اگر مَشیئتِ ربانی مبتلائے عذاب کرناہوتو اُن کلمات کا مٹانا اللہ تعالیٰ کے لیے کچھ مشکل نہیں ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ترجمہ:’’اللہ مٹاتا ہے جو چاہے اور ثابت کرتا ہے (جو چاہے) اور اصل کتاب(لوح ِ محفوظ)اُسی کے پاس ہے،(سورۂ رعد:39)‘‘۔ لیکن یہاں معاملہ اُس سے مختلف ہے ، وہاں معاملہ باطن کا ہے اور یہاں اَحکام ظاہر پر بیان کیے جارہے ہیں، اس لیے اُن دلائل کو یہاں بیان نہیں کیاجاسکتا ۔

سڑکوں ،چوک اور چوراہوں پر آیاتِ قرآنی ، کلماتِ طیبات تحریر کرنے میں حد درجہ احتیاط لازم ہے کہ کہیں ذرہ بھر بے ادبی کا شائبہ بھی نہ رہے ۔ ہمارے فقہائے کرام اس درجہ احتیاط کے قائل رہے ہیں کہ مسجد کی دیواروں اور محراب میں بھی قرآن لکھنے سے منع فرمایا۔

علامہ نظام الدین ؒلکھتے ہیں: ترجمہ:’’ اور اگر قرآن کریم (کا کوئی حصہ) دیواروں اور چار دیواری پر لکھا جائے تو بعض فقہائے کرام نے کہا: جواز کی امید کی جاسکتی ہے اور بعض نے اسے مکروہ کہا ہے کہ مبادا (اُن کی کھرچن) زمین پر گرے اور لوگوں کے قدموں تلے آئے ،جیساکہ ’’فتاویٰ قاضی خان ‘‘ میں ہے ، (فتاویٰ عالمگیری ، جلد5، ص:323)‘‘۔

صدرالشریعہ علامہ امجدعلی اعظمی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں : ’’مسجد کی دیواروں اور محرابوں میں قرآن لکھنا اچھا نہیں ہے ، اندیشہ ہے ،وہاں سے گرے اور پاؤں کے نیچے پڑے ،اِسی طرح مکان کی دیواروں پر کہ عِلّت مشترک ہے ،(بہارِ شریعت ، جلد سوم،ص:646)‘‘۔

سڑکوں ،چوک اور چوراہوں کے نام دینی نسبتوں سے منسوب کیے جاسکتے ہیں، لیکن اُن ناموں کو بے ادبی سے نہ لیاجائے یا ایسے لفظوں میں نہ بدلا جائے، جس سے بے ادبی کا پہلو نکلتا ہے ۔ہماری معاشرتی روش ہے کہ ناموں کی تصغیرکی جاتی ہے یا اچھے بھلے ناموں کو بگاڑ دیا جاتا ہے ، اگر سڑکوں اور چوراہوں کو دینی مُقدّسات سے موسوم کیا جائے تو اس کا لحاظ رکھنا ضروری ہے اور بہتر یہ ہے کہ دینی مُقدّسات کو اس کے لیے استعمال نہ کیاجائے ، کیونکہ دین کا مطلوب تویہ ہے کہ ان مُقدّسات کی بابت غور وفکر کیاجائے ،ان کے ذکر سے اپنی زبانوں کو سعادت بخشی جائے اور ان کی بابت غوروفکر سے اپنے ذہنوں کو پاکیزہ بنایاجائے اور عمل کی سعادت حاصل کی جائے۔

امام اہلسنّت امام احمد رضا قادریؒ لکھتے ہیں: ’’ راستے میں قرآن شریف کی تلاوت دو شرط سے جائز ہے: ’’ایک یہ کہ وہاں کوئی نجاست نہ ہو ، دوسرے یہ کہ راہ چلنا اُسے قرآن عظیم پڑھنے سے غافل نہ کرے ، جہاں نجاست یا بدبو ہو، وہاں خاموش رہے ،جب وہ جگہ نکل جائے پھر پڑھے ‘‘، (فتاویٰ رضویہ، جلد23، ص:375) ‘‘ ۔آیاتِ قرآنی خواہ کسی طورلکھی گئی ہو ،پینافلیکس یا جدید طرز سے پرنٹ کرائی گئی ہو ، بارش کے دنوں میں اُس پر سے گزر کر جو پانی بہے گا ، یا کسی وقت اُنھیں دھویا گیا تو وہ دَھووَن بھی قابلِ احترام ہے کہ گندگی ونجاست کی جگہ پر نہ گرے ،امام اہلسنّت امام احمد رضا قادری رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:’’ دیواروں پر کتابت سے علماء نے منع فرمایاہے ، کَمَافِی ’’الْھِنْدِیّۃ‘‘ وَغَیرِہِمَا(جیساکہ فتاویٰ عالمگیری وغیرہ میں ہے ) ،اس سے احتراز ہی اَسلم (زیادہ سلامتی کا راستہ)ہے ،اگر چھوٹ کرنہ بھی گریں تو بارش میں پانی اُن سے گزر کر زمین پر آئے گا اور پامال ہوگا ،غرض مَفسَدہ (خرابی) کا احتمال ہے اور مصلحت کچھ بھی نہیں ، لہٰذا اجتناب ہی چاہیے ، (فتاویٰ رضویہ ،جلد23، ص:384) ‘‘۔

خلاصۂ کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حُسنیٰ اور ’’اَلصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیکَ یَارَسُول اللہ ‘‘ کے بورڈ بلند جگہوں پر آویزاں کیے جاتے ہیں ، اسمائے حُسنٰی کے بورڈ ہم نے جدہ تا مکۂ مکرمہ کے راستوں پر بھی دیکھے ہیں ،ظاہر ہے کہ ایساکرنے والوں کی نیت حصولِ ثواب کی ہوتی ہے اور شاید یہ بھی نیت ہوکہ ان بورڈ وں یا ہورڈنگز یا بل بورڈز پر جب گزرنے والوں کی نظر پڑے گی ،تووہ انھیں پڑھیں گے اور یہ موجبِ ثواب ہوگا اورشاید اسی لیے بعض فقہائے کرام نے اس کے جواز کا قول کیا ہے، میری ذاتی رائے ہے کہ جواز کے اقوال کے باوجود احتیاط بہتر ہے اور امام احمد رضا کے فرمان کے مطابق اَسلَم (زیادہ سلامتی کا راستہ) ہے، کیونکہ آندھی یا طوفان کی صورت میں یہ گرجاتے ہیں اوربے ادبی کاامکان رہتا ہے اور اگر بڑے پلوں کی دیواروں پر لکھ دیے جائیں تو مسلسل بارش سے یہ رنگ اکھڑ جاتے ہیں اور(اُن کی کھرچن ) زمین پر گرتی ہے اور بروقت اس کے ازالے کا اہتمام نہیں ہوتا ۔( ھٰذَا مَاعِنْدِی وَاللہُ تَعَالٰی وَرَسُولُہٗ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ)

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheem@janggroup.com.pk