پاکستان میں انٹرنیٹ اور موبائل فونز کے استعمال میں اضافے کے ساتھ ساتھ سائبر کرائم اور جعل سازی کی وارداتوں میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ روزانہ ہزاروں شہری سائبر کرائم کی وارداتوں کا شِکار ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال کے باعث واقعات بڑھ گئے ہیں۔ خواتین کو بلیک میل کر کے ان کی قابل اعتراض ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کرنے، چائلڈ پورنوگرافی، جعل سازی کے ذریعے متنازع تصاویر بنانے، ڈیفیمیشن، سائبر اسٹاکنگ، سسٹم ڈیمیج، ای میل ہیکنگ، فیس بک پروفائل ہیکنگ ،فیک پروفائل، سائبر ٹیررازم، سمیت کئی ایسے جرائم ہیں، جس کا شِکار شہری ہورہے ہیں۔
تاہم ان سب سے زیادہ شہریوں کو جِس جُرم نے متاثر کیا ہے، وہ فِشنگ (phishing) ہے۔ بینک فراڈ،آن لائن فراڈ،لاٹری اسکیمز،جاب اسکیمز،پرائز ونر اسکیمز،کریڈٹ /ڈیبٹ کارڈ فراڈ،اے ٹی ایم اسکیمر ڈیوائسز سمیت کئی جرائم ہیں، جن کےذریعے معصوم شہریوں کو روزانہ ان کی جمع پونجی اور بھاری رقوم سے محروم کیا جا رہا ہے، جس میں بینک کا نمائندہ بن کر،کریڈٹ کارڈ کی تنسیخ کا کہہ کر،فوج کی جانب سے مردم شماری کا کہہ کر،قریبی عزیزوں کے اغواہ یا ایکسیڈنٹ کا بتا کر،قرعہ اندازی میں نام نکلنے کے نام پر،پلاٹ نکلنے پر،بے نظیر انکم سپورٹ،احساس پروگرام اور نجی ٹی وی چینلز کے گیم شو کا نمائندہ بن کر جعل سازی عُروج پر ہے اور کروڑوں روپے شہریوں کی جیبوں سے نِکالے جا رہے ۔تاہم ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل، سمیت قانون نافذ کرنے والے ادارے ان جرائم پر قابو پانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
پاکستان میں سائبر کرائم جعل سازی فِشنگ کافی عرصے سے ہو رہی ہے، لیکن ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل، سمیت قانون نافذ کرنے والے ادارے اس پر مکمل طور پر قابو نہیں پا سکے ہیں، بلکہ ان کی تعداد پہلے سے گئی گناہ بڑھ چکی ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق ان جرائم میں ملوث ملزمان گروہوں کی شکل میں بیٹھے ہوئے ہیں اور فیصل آباد،گجرانوالہ اور ملتان ان جعل سازوں کے گڑھ ہیں۔
یہ گروہ پنڈی بھٹیاں،سرگودھا،گوجرہ، سمندری، لیہ اور جہانیاں کے مضافات میں واقع دیہاتوں میں موجود ہیں اور 90 فیصد سے زیادہ اوڈھ قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، جن کا بنیادی پیشہ بکریاں چرانا اور کپڑے بیچنا ہے، ان کا ٹھکانا ایک جگہ نہیں ہوتا، یہ اپنے ٹھکانے تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ یہ گروہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نمائندہ بن کر، بینک کا نمائندہ بن کر ،مختلف چینلز پر چلنے والے انعامی گیم شوز کا نمائندہ بن کر شہریوں سے رابطہ کرتے ہیں اور ان سے رقم بٹورتے ہیں۔
شہری کو جس سِم سے کال کی جاتی ہے، وہ غیر قانونی طریقوں سے حاصل کی جاتی ہے۔ ووٹر لِسٹوں ،نادرہ یا محکمہ پاسپورٹ کے کسی اہل کار سے مل کر تھمب امپریشن لے کر اسے سیلیکون پر پیسٹ کر کے اسے پی وی ایس مشینوں کے ذریعے ایشو کر کے بائیو میٹرک کو بائی پاس کیا جاتا ہے، جب کہ چائنا سے بھی مشینیں اس کام کے لیے منگوائی جاتی ہیں۔ پہلے یہ گروہ چھوٹی کارروائیاں کرتے تھے۔ تاہم اب یہ بینکوں کا ون ٹائم پرمیشن کوڈ ’’او ٹی پی‘‘ حاصل کر کے بینک ویریفیکیشن کے نام پر پُوری رقم نِکال لیتے ہیں۔
نِکالی گئی رقم کو یہ برانچ لیس بینکنگ، جیسے ایزی پیسہ ،جاز کیش ،یو کیشن وغیرہ میں تبدیل کر لیتے ہیں اور ان سے یہ کسی بھی گائوں میں اپنی ہی بائیو میٹرک سے یہ پیسے نِکلوا لیتے ہیں۔ اگر کسی شہری کو پتہ بھی چل جائے کہ اس کے ساتھ فراڈ ہوا ہے، یہ اس سے قبل ہی پیسے نکال لیتے ہیں۔ یہ گروہ پاکستان میں بیٹھ کر انٹرنیشنل قرعہ اندازی جیسی اسکیمز بھی کرتے ہیں اور بیرون ملک میں رہنے والے افراد کو بھی اپنا شکار بناتے ہیں۔ ایف آئی اے کے مطابق اب ان گروہوں میں شامل افراد نے مختلف زبانیں بھی سیکھ لی ہیں اور ٹریننگ انسٹیٹیوٹ بھی کھول رکھے ہیں، جہاں یہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو مختلف زبانیں بھی سکھاتے ہیں، جن میں انگریزی،فرنچ،ہندی،عربی اور افریقی زبانیں شامل ہیں۔
گلف ممالک میں بھی یہ گروہ فراڈ کرتے ہیں، جس کے بعد دبئی میں یہ رقوم منگواتے ہیں اور وہاں سے رقم کی منتقلی کرتے ہیں،واٹس ایپ یا موبائل پر نمبر دوسرے ملک کا شو ہوتا ہے۔ تاہم یہ پاکستان کے ہی کسی دیہات سے بیٹھ کر بات کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ اسپوفنگ کر کے ،سی ایل آئی تبدیل کر کے مختلف سافٹ وئیرجو پیڈ ہیں اور باآسانی خریدے جا سکتے ہیں۔ ان کا استعمال کر کے بیرون ملک بھی لوگوں سے جرائم کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اب ان ملزمان نے پورے نیٹ ورکس بنا لیے ہیں، اب یہ گروہ اور نیٹ ورکس محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے ہیں اور سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے یہ دوسروں پر اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر نظر رکھتے ہیں،ان کو ہر چیز کی اطلاع پہلے سے مل جاتی ہے۔
ایک نیا جُرم جواس وقت یہ لوگ کر رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ کسی بچے کی آواز نکال کر کوئی پولیس افسر یا حساس ادارے کا افسر بن کر کال کرتا ہے کہ آپ کا بیٹا، بھائی یا کوئی رشتے دار دہشت گردی یا کسی جُرم میں پکڑا گیا ہے ،اگر اسے بچانا ہے، تو پیسے بھیج دیں ،معصوم شہری ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور رقم بھیج دیتے ہیں یا پھر بتاتے ہیں کہ آپ کا بیٹا زخمی ہو کر اسپتال میں ہے ، اتنے پیسے بھیج دیں اور معصوم شہریوں کو جب تک فراڈ کی سمجھ آتی ہے، اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے، کیوں کہ ان کی رسائی فیملی ٹری تک ہے، اس لیے انہیں گھر کے تمام افراد کا پتہ ہوتا ہے۔
اس میں بنیادی ٹول جو استعمال ہوتے ہیں، وہ سِم اور موبائل فونز ہے، کیون کہ سِم غیر قانونی طور پر کسی اور کے نام کی نکلالی گئی ہوتی ہے، اس لیے ان کا پتہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے۔ بائیومیٹرک کے لیے جو مشین ملتی ہے، وہ موبائل کمپنیوں کے فرنچائز سے ایشو ہوتی ہے اور ریٹیلر کو ملتی ہے،ریٹیلر زیادہ سمیں بیچنے کے لیے وہ مشین آگے لوگوں کو دے دیتا ہے اور پھر وہ اسکیمرز کے ہاتھ آ جاتی ہے اور اسکیمرز گائوں کے اندر بیٹھ کر اپنا کام کرتے ہیں۔
ان کے نیٹ ورک میں گھر کی خواتین بھی شامل ہیں،جب ایف آئی اے یا کوئی ادارہ ان کا پتہ چلنے پر ریڈ کرتا ہے، تو یہ اپنے گھر کی خواتین کو باہر نِکال دیتے ہیں،وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لڑتی ہیں اور انہیں گھر کے اندر یا علاقے کے اندر جانے سے روکتی ہیں اور اتنی دیر میں ملزمان وہاں سے فرار ہو جاتے ہیں،زیادہ تر یہ دور دراز گائوں کو اپنا مسکن بناتے ہیں اور کھیتوں کے بیچ گھروں کی چھتوں پر بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔ان کی ویجیلنس اتنی مضبوط ہے کہ کوئی ادارہ لوکیٹر لےکر سِم لوکیٹ کرنے کے لیے ان کے گائوں کی طرف جاتا ہے، تو کئی کلومیٹر پہلے ہی انہیں معلوم ہوجاتا ہے اور وہ کھیتوں میں چھپ جاتے ہیں۔
اگر کوئی ملزم پکڑا بھی جائے تو وہ بتاتا ہے کہ میں تو ابھی اس گینگ میں شامل ہوا ہُوں ،اس پر مقدمہ کر دیا جاتا ہے، جو کچھ عرصے بعد رہا ہو جاتا ہے اور اصل ملزمان بچ جاتے ہیں۔ ایف آئی اے کے ایک افسر نے بتایا کہ اس دھندے سے ان کے پاس اتنا پیسہ آ چکا ہے کہ جن زمینوں پر پہلے یہ کام کرتے تھے، وہ زمینیں انہوں نے خرید لی ہیں اور اب یہ لگژری گاڑیوں اور بڑے بڑے بنگلوں میں رہتے ہیں ،ہزاروں سے شروع ہونے والے یہ فراڈ، اب کروڑوں روپے تک جا پہنچے ہیں!! اور پورے گائوں کے لوگ یہ کام کر رہے ہیں، اب انہوں نے اپنے ساتھیوں کو چھڑانے کے لیے مہنگے وکیل بھی ہائر کر لیے ہیں۔
ان گروہوں نے اب اسمگلنگ،حوالہ ہنڈی،سِموں کی ترسیل کا کام بھی شروع کر دیا ہے، یہ سِمیں فنانشل کرائم کے علاوہ قتل،دہشت گردی اور اغواہ برائے تاوان سمیت دیگر جرائم میں استعمال ہوتی ہیں۔ اس میں پی ٹی اے،ایف آئی اے ،پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے شامل ہیں، کی ناکامی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ایف آئی اے کے افسران کا کہنا ہے کہ ان جرائم میں ملوث جو ملزمان گرفتار ہوتے ہیں، ان مقدمات میں نادرا ،موبائل فون کمپنیوں، فرنچائزز، اور بینک افسران کے نام بھی شامل کیے جانے چاہیں۔
ایف آئی اے کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ ان جرائم سے تدارک کے لیے حکومت کو بڑے پیمانے پر شہریوں کو آگاہی دینے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے،بینکوں کے باہر ،سِم فروخت ہونے کے مراکز،اخبارات،خاص طور پر جن چینلز کے گیم شوز کے نام لےکر یہ فراڈ کیے جاتے ہیں ، ان چینلز پر آگاہی مہم چلانی چاہیے ،گائوں دیہاتوں میں بیٹھے معصوم لوگ جو ان جرائم کے متعلق نہیں جانتے، انھیں بھی آگاہی دینے کے لیے بڑے پیمانے پر کمپین چلائی جانی چاہیے۔
ان جرائم میں ملوث افراد گرفتار ہوتے ہیں، لیکن کچھ عرصے بعد رہا ہوجاتے ہیں، جب تک مجسٹریٹس اور ججوں کو سائبر کرائم قوانین پر عبور حاصل نہیں ہو گا، ملزمان کو سزائیں نہیں ہو سکیں گی، جب کہ وکلاء کو بھی اس سلسلے میں خصوصی کورسز کرنا پڑیں گے۔ اس کے لیے پیکا قانون کا مطالعہ ججز کےساتھ وکلاء کے لیے بھی ضروری ہے ، کیوں کہ ہر روز سائبر فراڈ کی ایک نئی قسم سامنے آتی ہے، جسے سمجھے بغیر ملزمان کو قرار واقعی سزا نہیں دی جاسکتی۔
دوسری جانب کراچی میں فیس بک، ٹوئیٹر،انسٹاگرام، اسنیپ چیٹ، ٹِک ٹاک، یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی روزانہ سینکڑوں شہری سائبر کرائم کا شکار ہو رہے ہیں۔ تاہم ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کراچی میں ان متاثرہ افراد کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی اور بلیک میلنگ اور حراسمنٹ کے کیسز میں بھی مہینوں مہینوں سائلین کو انتظار کروایا جاتا ہے،سینکڑوں انکوائریوں میں سے صرف درجنوں مقدمات ہی درج ہوتے ہیں اور کیس کے بہ جائے فیس دیکھ کر معاملات نمٹائے جا رہے ہیں،کراچی میں روزانہ درجنوں شہری سائبر فراڈ کا بھی شکار ہو رہے ہیں، لیکن ایف آئی اے سائبر کرائم ، کی جانب سے ان کی داد رسی نہیں کی جاتی اور نہ ہی فراڈ کے ذریعے ان کی جانے والی رقم انہیں واپس ملتی ہے۔