• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سال 2025 شہر قائد جرائم کے حوالے سے ایک چیلنج ثابت ہوا۔ پولیس ریکارڈ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رپورٹس کے مطابق اس سال اسٹریٹ کرائم، ڈکیتی، قتل، گاڑی و موٹرسائیکل چوری سمیت متعدد سنگین واقعات میں اندھا دھند اضافہ دیکھنے میں آیا، جس سے شہریوں میں شدید تشویش کی لہر پیدا ہوئی۔ سال کے 12ماہ میں شہر میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں تیزی سے بڑھیں۔

پولیس کے مطابق موبائل فون چھیننے، نقدی، بائیک، گاڑیاں اور موبائل فون چھیننے کے واقعات رپورٹ ہوئے، مزاحمت پر فائرنگ کے باعث شہری زخمی بھی ہوئے اور جان سے بھی گئے۔

موٹر سائیکل چوری اور چھیننے کی وارداتیں میں گزشتہ سال کے مقابلے میں تیزی رہی۔ شہر میں رات کے اوقات کے ساتھ ساتھ دن بھی وارداتیں رپورٹ ہوئیں ، جس سے عوام خوف میں مبتلا رہے۔2025 میں مجموعی طور پر جرائم کی صورتِ حال کیا رہی، زیرِ نظر مختصر تجزئیے میں ملاحظہ کریں۔

سب سے پہلے ایک نظر اعداد و شمار پر ڈالتے ہیں۔شہر میں مجموعی طور پر40 ہزار سے زائد اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں رپورٹ ہوئیں، موبائل چھیننے کے 22 ہزار سے زائد کیسز سامنے آئےہیں۔ 39 ہزار سے زائد موٹرسائیکلیں ، 5 ہزار 800 سے زائد کاریں چوری اور چھیننے کے واقعات رپورٹ ہوئے، جب کہ 7 ہزار سے زائد افراد ڈاکوؤں کی زد میں آئے، مزاحمت پر فائرنگ کے 740 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں متعدد شہری جاں بحق اور زخمی ہوئے۔

 512 افراد قتل کیے گئے، جن میں ٹارگٹ کلنگ، ذاتی دشمنی، ڈکیتی کے دوران مزاحمت اور گروہی جھگڑے شامل ہیں۔ اغوا برائے تاوان کے 41 واقعات، بینک سے نکلنے والے شہریوں کو لوٹنے کے 38 کیسز بھی رپورٹ ہوئے جو منظم گروہوں کی سرگرمیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر 2025 میں کراچی میں ایک لاکھ آٹھ ہزار سے زائد چھوٹے بڑے جرائم رپورٹ ہوئے۔

پولیس آپریشن اور کارروائیاں

پولیس نے سال بھر میں متعدد اسٹریٹ کرمنلز، گینگز اور ڈاکو گروہوں کے خلاف کارروائیاں کیں۔ سینکڑوں ملزمان گرفتار اور اسلحہ برآمد ہوا۔ شہریوں کا مؤقف ہے کہ جرائم کی شرح میں کمی کے لیے مستقل بنیادوں پر سخت اقدامات ضروری ہیں۔

شہریوں کے مطابق اسٹریٹ کرائم کے خلاف گرفتار ملزمان کا عدالتوں سے فوری ضمانت پر رہا ہوجانا، پولیس کا کمزور پراسیکیوشن سسٹم اورعلاقوں میں گشت کی کمی جرائم میں اضافے کی بڑی وجوہات ہیں، جبکہ حکام کا مؤقف ہے کہ، شہر میں اسٹریٹ کرائم پر قابو پانے کے لیے نیا ڈیجیٹل سسٹم، اسمارٹ کیمرے اور خصوصی فورسز متعارف کرائی جارہی ہیں۔

سیف سٹی منصوبے پر بھی کام ہوا،جس سے جرائم کی روک تھام میں بہتری کی توقع ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک پولیسنگ کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرکے مؤثر اسٹریٹ گشت اور عدالتی اصلاحات نہیں کی جاتیں، اسٹریٹ کرائم سمیت مختلف جرائم پر مکمل قابو پانا ممکن نہیں ہوگا۔

بڑے دہشت گرد حملے رپورٹ نہیں ہوئے

2025 میں کراچی میں کسی بڑے دہشت گرد حملے کی اطلاعات منظر عام پر نہیں آئیں، تاہم سیکیورٹی اداروں نے متعدد کارروائیوں کے ذریعے ممکنہ حملوں کو ناکام بنایا۔ کاؤنٹر ٹیرر از ڈیپارٹمنٹ اور دیگر وفاقی اداروں نے دہشت گردوں کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے کارروائیاں کیں۔ 

اگست میں منگوپیر اور کشمیر روڈ پر چھاپے مار کر پانچ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا، کورنگی میں کارروائی کے دوران تین مشتبہ دہشت گرد گرفتار کیے گئے، جن کے قبضے سے بڑی مقدار میں بارود اور اسلحہ برآمد ہوا۔

ایک اور کارروائی میں دو دہشت گرد ہلاک ہوئے، جن پر مبینہ طور پر کراچی میں حملے کی تیاری کا الزام تھا۔ سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ شہر میں دہشت گردی کے خطرات موجود رہے، لیکن کسی بھی بڑے بم دھماکے، خودکش حملے یا ہجوم پر مسلح حملے نہیں ہوئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیکیورٹی اداروں کی بروقت کارروائیوں نے شہر کو بڑے حملوں سے محفوظ رکھا۔

عوام کو اس سال بھی کئی ایسے مواقع پر خبردار کیا گیا ،جہاں دہشت گردی کے خطرات کے پیشِ نظر بڑے اجتماعات، کھیلوں کے مقابلوں یا سیاسی سرگرمیوں کے دوران سکیورٹی الرٹ جاری کیے گئے، اگرچہ کوئی بڑا حملہ نہیں ہوا، لیکن مختلف چھوٹے پیمانے کے ان کاؤنٹرز، گرفتاریوں اور مشتبہ ٹھکانوں پر چھاپوں نے اس امر کی نشاندہی کی کہ دہشت گرد گروہ خاموشی سے دوبارہ منظم ہونے کی کوشش کرتے رہے، ان کی سرگرمیاں زیادہ تر سازش، گرفتاریاں اور تھریٹ الرٹس تک محدود رہیں۔

نوجوان مصطفٰی عامر کا اغوا کے بعد قتل

ڈیفنس میں 23 سالہ نوجوان مصطفٰی عامر کے اغوا اور قتل کا سانحہ 6 جنوری 2025 کو پیش آیا ۔ پولیس کے مطابق مقتول کو اس کے دوست ارمغان قریشی اور ساتھی شیراز نے اغوا کیا، بعد ازاں شدید تشدد کے بعد قتل کر کے لاش کو اس کی ہی گاڑی کے ٹرنک میں ڈال کر بلوچستان کےعلاقے حب لے جاکر آگ لگا دی گئی۔تحقیقات سے پتا چلا کہ لاش گلی ہوئی حالت میں تھی۔

پولیس نے سانحہ کے بعد ملزم شیراز اور ارمغان قریشی کو گرفتار کیا، دوران گرفتارملزم ارمغان نے پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی، جس سے دو اہلکار زخمی ہوئے۔ عدالت نے ابتدائی سماعت میں ارمغان کو انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا، پھر اسے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔ دوسرے ملزم شیرازکو بھی عدالت نے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیجا۔ 

انسداد دہشت گردی عدالت میں پیشی کے دوران ارمغان نے الزام لگایا کہ پولیس اس پر دباؤ ڈال کر اعتراف جرم کروانا چاہتی ہے، جبکہ پراسیکیوٹر کے مطابق ارمغان نے ایک اعلیٰ پولیس افسر کے سامنے اعترافی بیان بھی ریکارڈ کروایا۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے نے بھی کارروائی کرتے ہوئے ارمغان کے خلاف منی لانڈرنگ ریفرنس درج کیا، جس میں مبینہ طور پر اس کی کمپنیوں اور کال سینٹر آپریشنز کے ذریعے غیر قانونی مالیاتی لین دین کی تحقیقات شامل ہیں۔

ٹریفک حادثات

مختلف رپورٹس کے مطابق 800سے زائد افراد ٹریفک حادثات میں جان کی بازی ہار گئے جبکہ 11 ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔ خواتین اور بچے بھی بڑی تعداد میں حادثات کی زد میں آئے۔ سال کے ابتدائی 151 دنوں میں ہی 376 ہلاکتیں اور 5,500 سے زائد افراد زخمی ہوئے، جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ حادثات کی رفتار مسلسل بڑھتی رہی۔ 

زیادہ تر حادثات کی بڑی وجہ تیز رفتار ہیوی گاڑیاں تھیں، جن میں ٹرالر، واٹر ٹینکر، ڈمپر اور بسیں شامل ہیں۔ صرف ہیوی گاڑیوں کے باعث 450 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ موٹر سائیکل سوار بھی حادثات کا شکار ہوئے، ہیلمٹ کا استعمال نہ کرنا زخمی ہونے اور اموات کا سبب بنے۔

ای چالان نظام

کراچی میں 27 اکتوبر 2025 کو جدید ای چالان سسٹم باضابطہ طور پر شروع کیا گیا، جس کا مقصد روڈ سیفٹی بہتر بنانا، ٹریفک خلاف ورزیوں کی خودکار نگرانی، اور دستی چالان نظام کی جگہ فیس لیس، شفاف اور جدید ڈیجیٹل چالان نظام قائم کرنا تھا۔ 

یہ نظام اے آئی کیمروں کے ذریعے ٹریفک خلاف ورزیوں کو خودکار طور پر شناخت کرتا ہے۔ 27 سے 28 اکتوبر کو چھ گھنٹوں میں 2,662 ای چالان جاری کیے گئے، سب سے زیادہ جرمانے سیٹ بیلٹ نہ باندھنے پر تھے 15 سو 35 چا لان پہلے دن کئے گئے۔

اوورر اسپیڈنگ پر 419 ریڈ لائٹ توڑنا 166 ہیلمٹ نا پہننا 507 موبائل استعمال کرنا 32 چالان سمیر دیگر چالان بھی ہوئے۔ مجموعی طور پر سال 2025 میں 55 ہزار سے زائد ای چالان ہونے کا دعوی کیا گیا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ نے چالانوں کے خلاف درخواست پر آئی جی سندھ اور ڈی آئی جی ٹریفک کو نوٹس جاری کیے، شہریوں نے جرمانوں کے طریقۂ کار پر سوالات اٹھائے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ جرمانے دیگر شہروں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔

گلشن اقبال فلیٹ سے تین خواتین کی لاشیں برآمد

سال کے آخری ماہ گلشن اقبال میں ایک فلیٹ سے تین خواتین کی لاشیں ملنے کا افسوس ناک واقعہ سامنے آیا جس نے پورے علاقے میں خوف و ہراس پھیلا دیا۔خواتین کی عمریں 25 سے 45 سال کے درمیان تھیں، گھر کے سربراہ محمد اقبال نے واقعے کی اطلاع دی، جس کی بیوی ثمینہ بیٹی ثمرین اور بہوماہا کا قتل ہوا تھا، جب کہ بیٹا یاسین بے ہوش تھا۔

پولیس کے مطابق فلیٹ کرائے پر لیا گیا تھا۔ جائے وقوعہ سے گیس، کیمیکل یا کسی جھگڑے کے آثار کی ممکنہ جانچ کے لیے فرانزک ٹیم کو بھی طلب کیا گیا۔ پولیس نے فلیٹ سے موبائل فونز، ایک لیپ ٹاپ، کچھ ادویات، کپڑوں اور بیڈ شیٹس کے نمونے تحویل میں لے کر انہیں فرانزک لیبارٹری بھجوایا۔ 

اس کے علاوہ عمارت میں موجود سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج بھی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ آخری بار فلیٹ میں کون آیا یا وہاں سے کو ن گیا۔ اہلِ محلہ کے مطابق فلیٹ میں آمد و رفت بہت کم تھی۔ تینوں خواتین گھر میں ہی رہتی تھیں۔ 

واقعے سے ایک رات قبل کچھ ہلکی آوازیں ضرور سنی گئیں، مگر دو روز تک دروازہ بند رہنے اور بدبو آنے پر اہلِ محلہ کو شک ہوا۔ پولیس نے خواتین کے اہلِ خانہ سے بھی رابطہ کیا، کرایہ نامے میں درج معلومات کی روشنی میں مزید تفتیش جاری ہے۔

تفتیش میں واضح ہوا کہ تینوں کی موت زہریلی چیز کھانے سے ہوئی۔ گھر کا سربراہ محمد اقبال اور بیٹا یاسین اس قتل میں ملوث نکلے، پولیس نے دونوں کو گرفتار کر لیا، پولیس کا کہنا ہے کہ محمد اقبال اور فیملی پر کروڈوں روپے کا قرضہ تھا، جب کہ گھر سے کچھ خطوط بھی ملے ہیں۔

ماں کے ہاتھوں دو بچوں کا قتل

کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی فیز 6 میں ایک ماں نے اپنے دو بچوں کو بے رحمی سے قتل کردیا۔ مقتول بچوں کی شناخت 8 سالہ ضرار اور 4 سالہ سامعہ کے نام سے ہوئی۔ ایس ایس پی ساوتھ اور پولیس ٹیم پہنچی تو دونوں بچوں کی لاشیں کمرے میں تھیں، جبکہ ماں صدمے اور غیر معمولی کیفیت میں وہیں موجود تھی۔ پولیس نے ماں کو حراست میں لے لیا اور قتل میں استعمال ہونے والا چاقو بھی برآمد کر لیا۔

تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا کہ ملزمہ ادیبہ اور اس کے سابق شوہر غفران خالد کے درمیان طلاق کے بعد بچوں کی حوالگی کا قانونی تنازع چل رہا تھا۔ واقعے سے چند روز قبل ہی عدالت نے دونوں بچوں کی کسٹڈی والد کے حوالے کرنے کا فیصلہ سنایا تھا جس کے بعد ملزمہ شدید ذہنی دباؤ اور اضطراب کا شکار تھی۔ 

پولیس کے مطابق امکان ہے کہ اسی تنازع اور ذہنی دباؤ نے اسے انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کیا۔ واقعے کے بعد ادیبہ نے مبینہ طور پر اپنے سابق شوہر کو ویڈیو کال بھی کی جس میں بچوں کو دکھا کر اسے دھمکی آمیز الفاظ کہے۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق دونوں بچوں کی موت تیز دھار آلے سے وار کیے جانے کے باعث ہوئی۔

کچے کے ڈاکو، بڑے آپریشنز

سال 2025کچے کے بدنام زمانہ علاقوں میں لاقانونیت کے خاتمے، بڑے سکیورٹی آپریشنز اور پہلی بار منظم سرنڈر پالیسی کے اعلان کے باعث اہم برسوں میں شمار ہوا۔ سندھ اور جنوبی پنجاب کے دریا کے کنارے واقع ’’کچا بیلٹ‘‘ گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلح ڈاکوؤں، اغوا کار گروہوں اور قبائلی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ 2025 میں جہاں ایک طرف پولیس اور رینجرز نے بھرپور کارروائیاں کیں۔

دوسری جانب بڑی تعداد میں ڈاکوؤں نے سرنڈر کر کے ہتھیار ڈالے

اکتوبر 2025 میں سندھ حکومت نے پہلی بار باقاعدہ والنٹئیر سرینڈر پالیسی کا اعلان کیا، جس کے تحت شِکارپور اور لاڑکانہ میں منعقدہ ایک اہم تقریب میں 70 سے زائد ڈاکوؤں نے جدید اسلحہ سمیت ہتھیار ڈال دیے۔

سرنڈر کرنے والوں میں کئی ڈاکوؤںکے سروںکی بھاری قیمت مقرر تھی۔ پولیس کے مطابق ا ن کا مکمل ڈیٹا، بایومیٹرکس اور مقدمات کا ریکارڈ مرتب کر لیا گیا ہے۔حکومتِ سندھ نے واضح کیا کہ سرنڈر کا مطلب خودکار قانونی معافی نہیں،بلکہ عدالتیں سرنڈر کومخفف عنصر کے طور پر دیکھ سکتی ہیں، لیکن قانونی کارروائی اپنی جگہ برقرار رہے گی۔

کچے کے بعض علاقوں میں ڈاکو گروہوں کی مزاحمت بھی شدید رہی۔ اگست 2025 میں رحیم یار خان کے نزدیکی کچے میں پولیس چیک پوسٹ پر اچانک حملے میں متعدد اہلکار شہید اور کئی زخمی ہوئے واقعے کے بعد پنجاب پولیس نے ہیلی سروس، بکتر بند گاڑیوں اور کمانڈوز کے ذریعے وسیع آپریشن کیا، جبکہ دریائی راستوں پر رینجرز کی اضافی نفری تعینات کی گئی۔

اسی طرح سندھ کے ضلع کشمور اور شِکارپور میں بھی متعدد مقابلوں میں ڈاکو ہلاک ہوئے جس کے بعد کئی اہم ڈاکو کچے سے نکل کر بلوچستان اور پنجاب کے بارڈر ایریاز کی طرف منتقل ہوگئے۔

انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز ، بھاری اسلحہ کی برآمدگی

سال بھر میں پولیس اور رینجرز نے مشترکہ کارروائیوں کے دوران راکٹ لانچر، اینٹی ایئرکرافٹ گنز بعض جگہوں پر خالی شیلز جدید اسنائپر رائفلزاور غیر قانونی وائرلیس سسٹم برآمد کئے۔ حکام کے مطابق جدید اسلحے کی موجودگی نے کچے کی صورتحال کو فاٹاکے طرز کے خطرناک ماڈل کی شکل دے دی تھی، جس کے خاتمے کے لیے مربوط آپریشن ناگزیر تھا۔

2025میں پنجاب اور سندھ دونوں حکومتوں نے مشترکہ حکمتِ عملی اپناتے ہوئے مشترکہ انٹیلی جنس سینٹر بنانے اور دریا کے دونوں اطراف مستقل چوکیاں قائم کرنے سمیت مجرموں کی نقل و حرکت پر کڑی نگرانی کے لیے ڈرون مانیٹرنگ شروع کی، اس سے قبل کئی بار ڈاکو ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں داخل ہو کر گرفتاری سے بچ جاتے تھے۔

اغوا برائے تاوان اور ہنی ٹریپ کے واقعات میں کمی

2025 میں اغوا برائے تاوان کے 12 واقعات رونما ہوئے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اغوا کاروں کے منظم گروہ اب بھی سرگرم ہیں اور وہ اپنے ہدف کو شکار کرنے میں مہارت بھی رکھتے ہیں۔ بھتہ خوری کے مجموعی طور پر 75 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے، جس میں سب سے زیادہ 18 واقعات اکتوبر میں سامنے آئے۔ 

کراچی میں بچوں کے اغوا اور گمشدگی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جس پر پولیس اور غیر سرکاری تنظیموں کی مشترکہ رپورٹ نے تشویشناک اعداد و شمار جاری کیے۔

سال 2025 کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران کراچی سے 597 بچے لاپتا ہوئے، بعض بازیاب ہوئے۔ گمشدہ بچوں میں نومولود سے لے کر 6 سال کی عمر تک کے بچے شامل ہیں۔ صرف جون کے مہینے میں 126 بچوں کے لاپتا ہونے کی رپورٹس درج ہوئیں۔

سال کے وسط تک اغوا برائے تاوان کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا، تاہم اکتوبر کے بعد سرنڈر پالیسی اور آپریشنز کے سبب اس شرح میں واضح کمی ریکارڈ کی گئی۔پولیس کے مطابق کئی اہم مغوی بازیاب ہوئے جبکہ چند ہائی پروفائل کیسز میں ڈاکوؤں کا نیٹ ور ک متاثر ہوا۔

 ڈمپر اور ٹینکرز چلتی پھرتی موت بن گئے

کراچی میں ڈمپر اورٹینکرزچلتی پھرتی موت بن گئے، موٹرسائیکل سوار ان کو کیڑے مکوڑے نظر آئے ۔ سال 2025 شروع ہوتے ہی ہیوی ٹریفک کے نام پر ٹینکروں، کنٹینروں، ٹرکوں نے شہریوں کو سڑکوں پر کچل کر ان کی جان لینا شروع کر دی۔ حکومتی پابندیاں بھی انہیں لگام ڈالنے میں ناکام ر ہیں،کئی لوگوں کی جانیں گئیں، عوام شدید غم و غصے کا اظہار کرتے رہے لیکن کوئی اثر نہیں ہوا۔

10 اگست 2025 کوایک تیز رفتار ڈمپر نے موٹر سائیکل کو ٹکر ماری، جس پر سوار 22 سالہ ماہ نور اور 14 سالہ علی رضا جان بحق، جبکہ ان کے والد شدید زخمی ہوئے۔ مشتعل شہریوں نے ڈمپر کو آگ لگا دی اور پولیس کو مجبور کیا کہ وہ ڈرائیور کو گرفتار کرے۔ 

مئی میں گلبائی چوک پرتیز رفتار ڈمپر نے موٹر سائیکل کو ٹکر ماری، جس سے 10 سالہ بچی موقع پر جاں بحق ہو گئی۔ سال کے آخری مہینے میں نارتھ کراچی با با موڑ کے قریب واٹر ٹینکر کی ٹکر سے فرسٹ ائیر کاطالب علم عابد رئیس جاں بحق ہوا۔ وہ دو بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔

دوسرا حادثہ شیرشاہ پل پر پیش آیا جہاں تیز رفتار ڈمپر نے موٹر سائیکل کو ٹکر ماری، جس کے نتیجے میں 29 سالہ خاتون نسرین جاں بحق جبکہ ان کے شوہر شاہد شدید زخمی ہوئے۔ واقعے کے بعد ڈمپر ڈرائیور موقع سے فرار ہوگیا۔

تیسرا حادثہ اورنگی ٹاؤن فقیر کالونی میں ہوا، جہاں واٹر ٹینکر نے موٹر سائیکل کو ٹکر ماری۔ حادثے میں چار سالہ سفیان موقع پر ہی دم توڑ گیا جبکہ اس کا ماموں زاد بھائی زخمی ہوا۔

ڈسٹرکٹ ملیر جیل سے 200 سے زائد قیدی فرار 

3 جون کو ڈسٹرکٹ ملیر جیل سے200 سے زائدقیدی فرار ہوئے۔ کراچی کی ملیر جیل میں صورتحال اس وقت خراب ہوئی جب شہر کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے، جس کے باعث قیدیوں کو بیرکوں سے باہر نکالا گیا، اسی دوران قیدیوں نے پولیس اہلکاروں سے ہاتھا پائی کی، اُن سے اسلحہ چھین کر فائرنگ کی، موقعہ دیکھ کر 200 سے زائد قیدی فرار ہوگئے۔

جیل میں سیکیورٹی انتظامات انتہائی ناقص تھے، اور افسران کی غفلت کی وجہ سے قیدیوں کو موقع مل گیا، بعد ازاں بہت سے قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا تھا۔

شاہراہیں بھی غیر محفوظ

امسال صرف گلیاں، محلّے یا کچی بستیاں ہی نہیں اہم شاہراہیں بھی غیر محفوظ تھیں۔ تیز رفتار ٹریفک، قوانین کی خلاف ورزی، اوورلوڈنگ، غیر تربیت یافتہ ڈرائیورز، خستہ حال سڑکیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غفلت نے شاہراہوں کو حادثات کا مرکز بنا دیا ۔ بڑے شہروں خصوصاً کراچی میں ڈمپر، ٹرک اور ہیوی ٹریفک دن دہاڑے انسانی جانوں کے لیے خطرہ بنے رہے۔

شاہراہیں جو کبھی سفر میں آسانی اور ترقی کی علامت سمجھی جاتی تھیں، آج خوف، بے یقینی اور حادثات کی نشانی بنتی جا رہی ہیں۔ غیر محفوظ صورتحال میں ایک اور نہایت تشویشناک پہلو یہ بھی نظر آیاکہ قومی اور بین الاضلاعی شاہراہوں پر مسلح ڈاکو دن دہاڑے گاڑیاں رکواتے، مسافروں کو یرغمال بناتے اور نقدی، موبائل فونز حتیٰ کہ گاڑیاں تک چھین کر اطمینان سے لے جاتے۔

2025 کے آخری ماہ میں تقریباً 15 ڈاکوؤں نے صاد ق آباد سے کوئٹہ جانے والی ایک بس کو گھوٹکی پر روک کر فائرنگ کی اور 19مسافروں کو اغوا کر لیا۔ اگر چہ رینجرز اور پولیس نے کاروائی کر کے مسافروں کو بازیاب کرا لیا تھا لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کچے سے چند سو کلو میٹر کی پٹی میں ریاستی رٹ سوالیہ نشان بن گئی، یہ علاقہ ڈاکووں کے رحم و کرم پر ہے۔ 

ریاست کی کوئی عملداری نظر نہیں آتی۔ یہ واقعات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ شاہراہیں اب صرف حادثات ہی نہیں بلکہ جرائم کا گڑھ بنتی جا رہی ہیں، جہاں عام شہری خود کو مکمل طور پر بے بس محسوس کرتا ہے۔

منشیات کے نیٹ ورک کا انکشاف

سال کے آخر میں کراچی میں منشیات کے ایک بڑے نیٹ ورک کے انکشاف نے نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کار کردگی پر سوالات اُٹھا دیئے بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچائی۔ منشیات کے خلاف کاروائی کرنے والی ٹیم پر 28 کروڑ روپے مالیت کی منشیات پکڑنے کے بعد اس میں سے5کروڑ منشیات فروخت کرنے کا الزام عائد ہوا۔

تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اس کیس میں پولیس کے چند اہلکاروں کے نام بھی سامنے آئے، جن پر منشیات فروشوں کو سہولت فراہم کرنے، چھاپوں کی پیشگی اطلاع دینے اور شواہد کمزور کرنے جیسے سنگین الزامات ہیں۔

منشیات کا مسئلہ صرف اسمگلرز اور ڈیلرز تک محدود نہیں رہا، بلکہ یہ نظام کے اندر سرایت کر چکا ہے۔ منشیات میں سے قابلِ ذکر مقدار کا ریکارڈ سے غائب ہونا، بعد ازاں اس کا دوبارہ مارکیٹ میں پہنچ جانا ایک ایسے کھیل کی طرف اشارہ ہے، جسے برسوں سے خاموشی سے کھیلا جارہا تھا۔

مختلف حادثات میں اموات کی اعداد و شمار

گزرےبرس شہر بھر میں فائرنگ، ڈکیتی، مزاحمت، ٹریفک حادثات، گٹر اور نالوں میں ڈوبنے کے واقعا ت میں کئی افراد جاں بحق ہوئے اس کے علاوہ تشدد زدہ اور بوری میں بند لاشیں بھی ملیں۔

فلاحی ادارے چھیپا فاؤنڈیشن کی سال 2025کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ٹریفک حادثات میں 830افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 650مرد، 85خواتین73 بچے اور 22بچیاں شامل ہیں۔

ڈکیتی مزاحمت پر89شہری قتل ہو ئے، جبکہ 14ڈاکو شہریوں کے تشدد سے ہلاک اور 35زخمی ہوئے۔ فائرنگ کے مختلف واقعات میں 407 افرادجاں بحق ہوئے، جن میں 352 مرد، 33 خواتین، 14 بچے اور 8 بچیاں شامل ہیں، جب کہ زخمی ہونے والے افراد کی مجموعی تعداد 1632 ہے۔ 

مختلف واقعات میں 21 افراد کی تشدد زدہ لاشیں ملیں۔ رپورٹ کے مطابق چھریوں کے وار سے رواں برس 43 افراد قتل ہوئے۔ گٹر اور کھلے نالوں میں 13 افراد ڈوب کرجاں بحق ہوئے۔ رواں برس خودکشی کے واقعات میں 119افراد زندگی سے محروم ہو گئے۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید