محمد مطاہر خان سنگھانوی
پاکستان میں حالیہ تاریخ کے بدترین سیلاب کی وجہ سے تیس لاکھ سے زائد بچے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں، ڈوبنے اور غذائی قلت کے بڑھتے ہوئے خطرات سے دوچار ہیں۔ پاکستان میں اس سال مون سون میں شدید بارشوں، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سےکئی افراد متاثر ہوئے ہیں۔ مون سون شروع ہوتے ہی ہمارے ملک میں سیلاب کا موسم بھی آ جاتا ہے اور یہ سیلاب ہمیشہ اپنے ساتھ تباہی و بربادی لاتے ہیں، ہر سال ملک و قوم کا بڑا جانی و مالی نقصان ہوتا ہے، دیہات کے دیہات صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں، مکانات و سڑکیں ملیامیٹ اور بستیاں ویران و سنسان ہو جاتی ہیں، کھیت کھلیان تباہ اور سرسبز و شاداب اراضی برباد ہو جاتی ہے۔
قیمتی انسانی جانوں کا ناقابل تلافی نقصان الگ ہوتا ہے ، پورا نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے ۔ 1956ء سے چند سال کے وقفے سے مسلسل ہمارا ملک سیلاب کی زد میں ہے، ہم مسلسل تباہ کن سیلابوں سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اور حالیہ سیلاب اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں نے تو پاکستان میں ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے۔
دنیا کے وہ ممالک جہاں سیلاب اسی طرح تباہی و بربادی مچاتا ہے انھوں نے جدید ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ماہر انجینئرز، سائنسدانوں، اور ماہر تعمیرات کی مدد سے اپنے ملک میں بڑے بڑے ڈیمز، بیراج اور آبی ذخائر تعمیر کرکے نہ صرف سیلابی پانی کی غارت گری سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کیا بلکہ اس پانی کو جمع کرکے اپنے لیے سودمند بنا لیا، گویا کل جو سیلابی پانی ان کے لیے موت اور بربادی کا پیغام لایا کرتا تھا وہی پانی اب ان کے لیے زندگی، نعمت اور دیگر فوائد کی نوید لاتا ہے لیکن ہمارا ملک تاحال ایسے حیات بخش نظام کے ثمرات سے محروم ہے، جس کی وجہ سے سیلاب ہمارے لیے اتنی بڑی زحمت بن جاتا ہے اور یہ آزمائش ایک عذاب کی سی کیفیت اختیار کرلیتی ہے۔
ہم بھی اگر اپنے تمام تر وسائل ماحولیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر ریکارڈ توڑ بارشوں کے پانی کو نئے آبی ذخائر کی صورت میں محفوظ کرنے اور اس ضمن میں سائنسی بنیادوں پر ٹھوس اقدام اٹھانے نیز سیلابی ریلوں کی بربادی سے مستقل بنیادوں پر خود کو بچانے پر صرف کریں تو یقینا یہ ملکی تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہو۔ اگر بڑے پیمانے پر ڈیم، بیراج اور آبی ذخائر تعمیر کیے جاتے ہیں۔
دریاؤں کو گہرا کرکے ان میں زیادہ پانی برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا کی جاتی تو آج سیلاب نے جو تباہی و بربادی مچائی ہے ممکن ہے اس کی نوبت نہ آتی اور ہمیں ملکی و قومی سطح پر نقصان پہنچنے کے بجائے الٹا فائدہ ہوتا ،کیوں کہ ہم اس بیش قیمت پانی کو ہر سال ذخیرہ کرکے محفوظ کرسکتے ہیں اور توانائی کے بحران کے خاتمے، بجلی کی پیداوار میں اضافے اور دیگر زرعی و تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں لیکن اس ضمن میں کوئی منصوبہ بندی نہ ہونے کے سبب ہمیں دیگر نقصانات کے ساتھ ساتھ بھارتی آبی جارحیت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔جو اربوں روپے اب سیلابی نقصانات کے مداوے کے لیے خرچ کیے جا رہے ہیں بہتر تھا کہ وہ سیلابی پانی ذخیرہ و محفوظ کرنے کے منصوبوں ڈیم، بیراج اور آبی ذخائر کی تعمیر پر خرچ کیے جاتے۔
اگر ہم آبی ذخائر کو محفوظ کرنے کا انتظام کرلیں تو دیگر فوائد کے ہمراہ عین ممکن ہے کہ آئندہ پاکستان کی جانب پانی نہ چھوڑا جائے،کیوں کہ باصلاحیت ہونے کے بعد یہی پانی ہمارے لیے بیش قیمت ہوجائے گا اور ہمیشہ کی طرح اس قدی تباہی و بر بادی پھیلانے کے بجائے ہماری ترقی بالخصوص توانائی کے بحران پر قابو پانے کا اہم محرک ثابت ہوگا اور آج کی اس تخریبی صورتحال کی نسبت ہمیشہ تعمیری صورتحال کا باعث ہوگا اور زندگی کی رنگا رنگی پیدا کرنے اور حیات نو بخشنے والی یہ صورتحال ہمیشہ بر قراقر رہے گی ۔ہمارے پاس چھوٹے بڑے کل 41 ڈیم ہیں۔
لہٰذا ہمارے پاس مزید ڈیم بنانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ اس کے علاوہ ہیڈ تریموں، تونسہ بیراج، سکھر بیراج اور گدو بیراج سمیت تمام بیراجوں میں پانی کو ذخیرہ کرنے کی گنجائش بڑھانے اور انھیں مزید کشادہ کرنے کی اشد ضرورت ہے اور ان صلاحیتوں کے حصول کے لیے ہم بالعموم دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک اور بالخصوص اپنے قریبی دوست ممالک سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے ملک کی سیلابی تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے جوکہ ہم نے کبھی نہیں کیا، ضرورت اس امر کی ہے کہ فلڈ کمیشن کی سفارشات اور 2010 کے عدالتی کمیشن کی تجاویز پر بھی عملدرآمد کیا جائے، یہ یقیناً معاون ہیں۔ مصر میں دریائے نیل میں ہر سال سیلاب آ تا تھا۔
چین نے تھری گورجز ڈیم کے ذریعے اسے کنٹرول کیا، اس کے علاوہ ہالینڈ اور بیلجیم میں بھی سیلاب بڑی تباہی پھیلاتے تھے۔لیکن بہترین منصوبہ بندی اور ماہرین کی خدمات سے ان دونوں ممالک نے بھی سیلابوں پر بخوبی قابو پا لیا، ہمارا وطن عزیز بھی ان ممالک کو مشعل راہ بناتے ہوئے ان ماہرین کے تجربات و مشاہدات سے فیضیاب ہوتے ہوئے سیلابی تباہ کاریوں پر بخوبی قابو پا سکتا ہے لیکن بات صرف ترجیحات کی ہے، 1956ء سے ابھی تک سیلابوں پر قابو پانا ہماری ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہا ،تاہم اب ہمیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ماہرین مسلسل پیش گوئی کر رہے ہیں کہ پاکستان اور اس خطے میں ہر سال بارشوں میں اضافہ ہو گا اور یقینا اس سے گزشتہ سیلابوں کی نسبت زیادہ پر خطر اور تباہ کن سیلاب آئیں گے اور یہ یقیناً جانی نقصان کے ساتھ ساتھ بھاری بوجھ بھی ہماری معیشت پر بنیں گے۔
لہٰذا ہمیں اب اس جانب فوری طور پر سنجیدہ ہو کر سوچنا اور عملی قدم اٹھانا ہو گا، فی الحال سب سے اوّلین ترجیح سیلاب سے ہمیشہ کے لیے بچاؤ اور اس پانی کو ذخیرہ کر کے سود مند مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہونا چاہیے،کیوں کہ ڈیم بنائے بغیر سیلابوں کی تباہی کاریوں سے نجات ممکن نہیں، اس وقت ملک و قوم سیلاب کی وجہ سے جس آزمائش میں مبتلا ہے۔ اس میں حکومت سمیت ہم سب پر بڑی بھاری ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں، کوئی بھی حکومت تنہا بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی پر قابو نہیں پاسکتی، یہ وقت متحد و منظم ہوکر سیلابی مشکلات سے نبرد آزما ہونے کا ہے۔