• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو سائنس کو سمجھ کر پڑھتے تو ہیں لیکن کبھی کبھی ان کا تجسس اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ وہ ایسے سوالات کرتے ہیں جو بظاہر تو بے معنی لگتے ہیں لیکن ان کے پیچھے چھپی سائنس کا علم ہر متجسس شخص کو ہونا چاہیے، ان میں ایک بہت ہی مشہور سوال ہے کہ "کیا ہو اگر سورج اچانک سے غائب ہو جائےتو کیا ہو گا‘‘؟ اس سوال کے 2 پہلو ہیں، پہلا یہ کہ ایسا ہونے کے بعد کائنات کا نظارہ کیسا ہوگا؟ اور دوسرا پہلو یہ کہ اس سے زمین پر موجود تمام جانداروں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

اگر اچانک سورج غائب ہو جائے تو تب بھی زمینی باشندوں کو اس کی خبر تک نہ ہوگی اور اس کی روشنی ان تک آتی رہے گی۔یہ روشنی محض 8 منٹ تک برقرار رہے گی، ہم جانتے ہیں کہ خلا میں روشنی تقریباً 3 لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے اور زمین سے سورج تک کا درمیانی فاصلہ لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ کلو میٹر ہے تو اس فاصلے کو طے کرنے میں روشنی کو 8 منٹ کی مسافت طے کرنا پڑتی ہے۔جی ہاں! سورج کی جوروشنی ہم دیکھتے ہیں، وہ 8 منٹ پہلے سورج سے روانہ ہوتی ہے، یوں اس بات کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ روشنی جو اس کائنات کی سب سے تیز رفتار شے کہلائی جاتی ہے، وہ بھی کچھ وقت کے بعد زمین تک پہنچتی ہے۔

بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ اگر زمین سورج کی کشش کی وجہ سے اس کے گرد محور ہے تو جیسے ہی سورج غائب ہوگا، اسی وقت زمین بھی اپنے مدار سے ہٹ کر ایک سیدھ راستے پر چلنے لگ جائے گی لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔اگر ہم آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت پر غور کریں تو اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کائنات میں زمان و مکاں کی ایک چادر موجود ہے، جس چیز کا جتنا زیادہ مادّہ ہوگا، وہ اس چادر میں اتنا زیادہ خم پیدا کرے گی اور اس کے گرد ڈھلوان پر چھوٹی چیزیں( جن میں سیارے، سیارچے وغیرہ شامل ہیں) گردش کریں گے، آئن اسٹائن نے یہ بھی بتایا کہ اگر کوئی مادّہ اس چادر پر حرکت کرے گا یا اچانک غائب ہو جائے گا تو اس چادر میں لہریں، جن کو گریوٹیشنل ویوز کا نام دیا گیا ہے، بنیں گیں اور ان لہروں کے پھیلنے کی رفتار روشنی کی رفتار کے برابر ہوگی۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ سورج کے غائب ہونے کے 8 منٹ بعد ہمیں اس کے غائب ہونے کا علم ہوگا، ساتھ ہی ساتھ 8 منٹ بعد ہی زمان و مکاں کی چادر میں خم ختم ہوگا اور اس وقت زمین اپنے مدار سے ہٹ کر سیدھے راستے پر رواں ہوجائے گی۔ سورج کے غائب ہونے کے بعد دنیا میں دن کا وجود سرے سے ہی ختم ہوجائے گا اور نظام شمسی کے تمام سیارے اندھیروں میں ڈوب جائیں گے، سورج زمین پر روشنی کا واحد ممبہ ہے اور اس کے غائب ہونے کے بعد پورے سیارے پر اندھیروں کے ساتھ ساتھ شدید ٹھنڈھ بھی اپنے ڈیرے جما لے گی۔ 

عین ممکن ہے کہ چند دنوں میں پورے کرہ پر زندگی کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے۔ لیکن سورج کی موت باقی ستاروں کی طرح ہوگی، ہم جانتے ہیں کہ سورج کے مرکز میں ہائیڈروجن اور ہیلیم کے درمیان کیمیائی عمل جاری ہے، جس کی وجہ سے روشنی اور حرارت بھی پیدا ہوتی ہے، لیکن اس عمل کے نتیجے میں کچھ اور معدنیات بھی بنتی ہیں، جن میں لوہا بھی شامل ہے۔ ان کے بننے کی وجہ سے سورج کا حجم آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے۔

سائنسدانوں کے مطابق آج سے تقریباً 5 ارب سال بعد سورج کا حجم اتنا بڑا ہوجائے گا کہ یہ نظام شمسی کے پہلے 2 سیاروں، عطارد اور زہرہ، کو تو اپنے اندر نگل ہی لے گا، تاہم زمین بھی سورج میں ضم ہوجائے گی، سورج اس حالت میں انتہائی لال دیو کی طرح ہوگا، اسی وجہ سے اسے فلکیاتی اصطلاح میں ’’ریڈ جائنٹ‘‘ کہتے ہیں، اس حالت میں پہنچنے کے بعد سورج مزید بڑا نہیں ہوگا بلکہ باقی ستاروں کی طرح پھٹ جائے گا اور صرف اس کا مرکز، جو اس وقت اس کے اپنے حجم سے قدرے چھوٹا ہے وہ رہ جائے گا، چونکہ وہ چھوٹا اور سفید روشن ستارہ ہوگا، اس لیے اسے ’’سفید بونا ستارہ ‘‘ یا وائٹ ڈوارف کا نام دیا جاتا ہے۔

سورج کے پھٹنے کے بعد خلاء میں بکھرا مادّہ بالکل اسی طرح ہی لگے گا جیسے آج ہم آسمان میں نیبولا دیکھتے ہیں، جن میں سب سے مشہور ’’اورائین نیبولا‘‘ ہے، اس کے بعد یہ مادّہ ضیاع نہیں ہوگا، بلکہ اس سے اور بہت سے ستارے وجود میں آئیں گے۔سورج کی موت کے وقت اور اس کے بعد یقیناً نہ زمین کا وجود ہوگا اور نہ ہی زمین پر بسنے والے لوگوں کا کوئی پتہ ہوگا، ہوسکتا ہے کہ تب تک ہم انسان کائنات کے کسی اور ستارے کے گرد کسی زمین کی کھوج کر لیں اور وہاں منتقل ہو چکے ہوں۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید