ڈاکٹر اقبال احمد اخترالقادری
تاریخ شاہد ہے کہ ہر دور میں اسلام اور اہل اسلام کے خلاف یہود ونصاریٰ اور دیگر کفارو مشرکین سازشیں کرتے رہے ہیں، تاکہ عقائد اسلام کو مسخ کیا جاسکے اور حضور اکرمﷺ کی محبت مسلمانوں کے دلوں سے نکال کر ان کی قوت اور سلطنت کو پارہ پارہ کیا جاسکے۔ دور جدید میں فتنۂ قادیانیت یا مرزائیت مسلمانان عالم کے خلاف ایک بہت ہی گھناؤنی سازش ہے جو جسدِ ملت اسلامیہ کے لیے ایک کینسر سے کم نہیں۔ ہمیشہ کی طرح اس فتنے کی سرکوبی کے لیے بھی علماء ومشایخ نے شروع سے ہی بہت عالی شان کردار ادا کیا ہے۔
ردِ قادیانیت کے حوالے سے بہت سی شخصیات نے کام کیا، ان میں امام احمدرضا محدث بریلوی علیہ الرحمۃ کی شخصیت نمایاں ہے۔ آپ چودہویں صدی ہجری کے جید عالم دین اور مرجع فتاویٰ تھے ،ان کے پاس بلادِ عرب و عجم، افریقہ، امریکہ اور یورپ سے بیک وقت بے شمار استفتاء مسائل دینیہ و جدیدہ کی دریافت کے لیے آتے تھے۔ انہوں نے منصب و مقام نبوت اور مہمات مسائل دینیہ کے بیان میں ایک ہزار کے قریب چھوٹے بڑے رسائل و کتب تصنیف كکیں جو مختلف علوم وفنون پر ان کی دسترس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
برصغیر پاک وہند میں امام احمدرضا کا وہ اہم خانوادہ ہے، جہاں منکرین ختم نبوت اورفتنۂ قادیانیت کا بھرپور رد کیا گیا۔ آپ کے والد ماجد علامہ نقی علی خاں نے منکرین ختم نبوت کی سخت گرفت کی اور اس عقیدہ کو مسلمانوں کے متفقہ عقیدئہ ختم نبوت کے منافی قرار دیتے ہوئے ایسا عقیدہ رکھنے والے کو گمراہ اور خارج ازاسلام قرار دیا۔ پھر برصغیر پاک وہند کے علماء میں امام احمد رضا وہ مشہور ہستی ہیں، جنہوں نے ۱۳۲۴ھ/ ۱۹۰۵ء میں حرمین شریفین کے تقریباً ۳۵ مشاہیر فقہاء اور علماء سے مرزا غلام قادیانی اور قادیانیت کو خارج ازاسلام اور کافر قرار دیئے جانے کا واضح فتویٰ حاصل کیا، جسے عرب وعجم میں پذیرائی حاصل ہوئی۔
یہ فتویٰ ’’حسام الحرمین علیٰ منحر الکفر والمین‘‘ کے نام سے متعدد بار شائع ہوچکا ہے جو کہ قادیانیوں اور قادیانی نوازوں کے غیر مسلم قرار دئیے جانے کی تمہید بنا۔ آپ نے مرزا قادیانی کو صرف کافر ہی نہیں قرار دیا، بلکہ اسے ’’مرتد، منافق‘‘ بھی کہا اور اپنے فتاویٰ میں اسے اس كے اصلی نام کے بجائے غلام قادیانی کے نام سے یاد کیا۔
یاد رہے کہ ’’مرتد منافق‘‘ وہ شخص ہے، جو کلمۂ اسلام بھی پڑھتا ہے، اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتا ہے، اس کے باوجود اللہ و رسول ﷺیا کسی نبی یا رسول کی توہین کرتا ہے یا ضروریات دین سے کسی شے کا منکر ہے ،اس کے احکام کافر سے بھی سخت تر ہوتے ہیں۔ امام احمد رضا نے مرزا غلام قادیانی اور منکرین ختم نبوت کے رد و ابطال میں متعدد فتاویٰ کے علاوہ الگ سے یہ چھ رسائل بھی تصنیف کیے ہیں:(۱)جزاء اللہ عدوہ بابائہ ختم النبوۃ(۲) السوء والعقاب علیٰ المسیح الکذاب(۳) قھر الدیان علیٰ مرتد بقادیان(۴)المبین ختم النبیین(۵)الجراز الدیانی علیٰ المرتد القادیانی(۶)المتعقد المنتقد۔
آپ کے فرزند مفتی حامد رضا خاں نے بھی قادیانیت کے رد میں رسالہ لکھا تھا جو ہندوستان میں رد قادیانیت پر پہلا رسالہ تھا جو شائع ہوا۔ اس کا نام ۱۳۱۵ھ/ ۱۸۹۶ء ’’الصارم الربانی علیٰ اسراف القادیانی‘‘ ك تھا، جس میں مسئلہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کو تفصیل سے بیان کیا گیا اور غلام قادیانی کذاب کے مثیل مسیح ہونے کا زبردست ردکیا گیا ہے۔ امام احمدرضا نے خود اس رسالے کو سراہا ہے۔
منکرین ختم نبوت اور قادیانیوں کے رد وابطال میں امام احمد رضا كاس قدر سرگرم، مستعد، متحرک اور فعال تھے کہ وہ اس فتنے کے ظہور پذیر ہوتے ہی اس کی سرکوبی کے درپے تھے۔امام احمدرضا اور ان کے صاحبزادے مولانا حامد رضا مسند افتاء بریلی سے مرزا غلام قادیانی کے خلاف كفر اور ارتداد کا فتویٰ صادر فرما کر مسلمانانِ ہند كے ایمان وعقیدے کی حفاظت کا سامان بہم پہنچارہے تھے۔ اس کے علاوہ آپ کی تقریباًچھ کتب اور ان کامرتب كردہ فتاویٰ حرمین شریفین ’’حسام الحرمین ‘‘ اور جحۃ الاسلام مولانا حامد رضا کی کتاب ’’الصارم الربانی علیٰ اسراف القادیانی‘‘ کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے تھے۔
فتنۂ قادیانیت کے رد میں آپ کی مساعی جمیلہ اس قدر قابل ستائش اور قابل توجہ ہیں کہ ہر موافق ومخالف نے انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا۔پروفیسر خالد شبیر احمد فیصل آبادی نے اپنی تالیف ’’تاریخ محاسبۂ قادیانیت‘‘ میں ردِ مرزائیت پر امام احمدرضا کا فتویٰ بڑے اہتمام سے اس نوٹ کے ساتھ شائع کیا کہ:’’ذیل کا فتویٰ بھی آپ کی علمی استطاعت، فقہی دانش و بصیرت کا ایک تاریخی شاہکار ہے جس میں آپ نے مرزا غلام احمد قادیانی کے کفر کوخود ان کے دعاویٰ کی روشنی میں نہایت مدلل طریقے سے ثابت کیا ہے۔ یہ فتویٰ مسلمانوں کا وہ علمی خزینہ ہے جس پر مسلمان جتنا بھی ناز کریں، کم ہے‘‘۔
امام احمد رضا کے وصال کے بعد ان کے صاحبزادگان، خلفاء، مریدین اور متوسلین علماء نے غیر منقسم ہند وستان اور پھر پاکستان میں قادیانیوں کے خلاف قلمی جہاد جاری رکھا، سیکڑوں فتاویٰ جاری کیے اور بیسیوں رسائل لکھ کر تحفظ عقیدہ ختم نبوت کا فریضہ ادا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد ۱۴ ؍مارچ ۱۹۴۹ء کو قانون ساز اسمبلی میں قرار دادِ مقاصد پاس ہونے کے بعد قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کی باقاعدہ تحریک شروع ہوئی ،جنوری ۱۹۵۱ء میں کراچی میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء نے متفقہ طور پر ۲۲ نکات پر مشتمل اسلامی دستور کے لیے بنیادی اصول تیار کیے جس میں امام احمد رضا کے خلیفہ مولانا نعیم الدین مراد آبادی کے مرتبہ اسلامی دستور کی اہم شقوں کو بھی ۲۲ نکاتی قرار داد ِ مقاصد میں شامل کیا گیا۔ ۱۹۷۳ء / ۱۹۷۴ءمیں جب مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی تحریک چلی توامام احمد رضا کے خلیفہ مبلغ اسلام شاہ عبدالعلیم صدیقی کے فرزند علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کی قیادت میں پارلیمانی پارٹی کے ارکان نے سرگرم ہونے کا ثبوت دیا ،اس سلسلے میں دیگر مکاتب فکر کے علما نے بھی اہم کردار ادا کیا ، قومی اسمبلی کے اراکین نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی قرار داد کی بھر پور جمایت کی۔
جس سے اس وقت كے وزیر اعظم پاکستان ك اس مشترکہ مطالبے کو ماننے پر مجبور ہوگئے اور بالآخر قومی اسمبلی اور بعد میں سینٹ میں بھی اس قانون کی منظوری دےکر ایک ایسا عظیم کارنامہ انجام دیا ك جوصبح قیامت تک سنہری حرفوں سے لکھا جاتا رہے گا۔ دنیا کے سارے اسلامی ملکوں میں یہ قابل فخر اعزاز صرف پاکستان کو حاصل ہوا کہ اس کی پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر قانونی طور پر دائرہ اسلام سے خارج کر دیا۔ تحفظ ختم نبوت کی تحریک میں امام احمد رضا کے متوسلین علماء کی جدوجہد کا خصوصی حصہ رہا۔ یہ عقیدۂ ختم نبوت کی حقانیت ہے کہ عالم اسلام نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اس دینی فیصلے اور اس تاریخی قرار داد کے سامنے سرجھکا دیا۔