رقص انتہائی جوش و مسرت کے وقت کا ایک اضطراری فعل ہے۔ جس طرح غصے کے عالم یارنج والم کی حالت میں انسان کے رونگٹوں سے غضب اور رنج کا اظہار ہوتا ہے، چہرے پرایک رنگ آتا ہے ایک جاتا ہے، آنکھوں سے شعلے نکلتے ہیں۔ اعضاء میں ایک قسم کی اضطراری حرکت پیدا ہوجاتی ہے۔ زبان اوردل و دماغ پر سے قابو جاتا رہتا ہے، اسی طرح خوشی اورمسرت کا بھی جذبات سے تعلق ہو تا ہے۔ ایسے موقعوں پر بھی یہی حالت اور ہمارے اعضاء میں ایک قسم کی حرکت پیدا ہوجاتی ہے۔
ہر چند یہ حرکت بے ترتیب ہی سہی، چند لمحوں کیلئے ہی سہی، لیکن اگر اس سے ترتیبی کوترتیب دیاجائے اور اصول کی زنجیر میں جکڑلیا جائے تو یہ ایک فن ہو جاتا ہے۔ حقیقت میں یہ جذبات کا اظہار ہے، جو الفاظ میں ادا ہونے سے پہلے حرکات سے ظاہر ہو جاتا ہے ،اسی وجہ سے بچہ خوشی کے مارے اگربول نہیں سکتا تو ناچنے لگتا ہے۔ بچے تو کیا، بڑے بھی یہی کرتے ہیں۔ صوفی کا کسی شعر تصوف پر تڑپ اٹھنا، عاشق کا کسی شعر پر جھوم جانا اور مولانا رومی کے پیروکاروں کا مثنوی پر وجدانی حالت میں رقص کرنا اسی اصول کے تحت ہوتا ہے۔
دنیا میں کوئی ملک یا قوم، متمدن یاوحشی، ایسی نہیں جو فن رقص سے ناواقف ہو۔ متمدن اور غیر متمدن ، دونوں قوموں میں رقص سماج کا جزولاینفک ہے۔ اگر فرق ہے تو یہ کہ وحشیوں کے ناچ، ان کے ماحول کے مطابق ہوتے ہیں اور متمدن لوگوں کے ناچ، ان کے اپنے ماحول سے مطابقت رکھتے ہیں۔اوّل الذکر میں سادگی، جسمانی صرفِ قوت، اصلیت اورایک قسم کااکھڑپن ہوتاہے جو مؤثر الذکر میں پیچیدگی، تصنع اورنزاکت ہوتی ہے۔ افریقا کے وحشیوں کے ناچ، عربوں کے ناچ اورتھرکے بھیلوں، کولہیوں اورباگڑیوں کے ناچ بھی اتنی ہی اہمیت رکھتے اور خوش کن ہوتے ہیں، جتنے روس کے بیلے، یورپ کے کیبرے اور ہندوستان کے دراوڑی یا کتھک ناچ ہوتے ہیں۔
ہر علاقے میں دو قسم کے ناچ ہوتے ہیں، ایک انفرادی اوردوسرا،اجتماعی، سندھ میں بھی انفرادی اوراجتماعی دونوں ناچ رائج رہے ہیں۔ سندھ میں قدیم دور میں جذبات کے اظہار کیلئے سب سے زیادہ ناچ ہوتا، تاہم اس کو تمدن کی پیداوار کہا جاسکتا ہے۔
سندھ میں سب سے زیادہ مقبول ناچ ’’جھومر‘‘ ہے۔ لفظ جھومر ’’جھوم‘‘ سے لیا گیا ہے۔ کہا جاتاہے کہ جب دیہات میں اچھی فصلیں ہوتی ہیں تو لوگ جھوم اُٹھتے ہیں اور خوشی سے جھومر ڈالتے ہیں۔ لیکن موجودہ دور میں نہ صرف اچھے فصلوں بلکہ خوشی کے ہرموقعے پر ’’جھومر‘‘ ناچ ہی ناچا جاتاہے۔ جھومر ہاتھوں اور پائوں کی مخصوص حرکات کے باعث بھی بے حد مقبول ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ ’’ سندھ کا گھرگھر۔ ڈھولک اور جھومر‘‘ حقیقت میں جھومر، خوشی کا ایک جیتا جاگتا اظہار ہے۔
جھومر کاسراغ ہمیں سندھی موسیقی میں ملتا ہے، لہٰذا جھومر کی تاریخ کیلئے پہلے موسیقی کی تاریخ پرنظرڈالنی ہوگی۔ وادیٔ سندھ میں تاریخ سے قبل کے دور میں تین سروں والی موسیقی رائج تھی۔ بوڑیندو سندھ کاقدیم ترین ساز تصور کیا جاتا ہے، جس میں تین سوراخ ہوتے ہیں، بعدازاں سندھی موسیقی پانچ سروں تک محدود ہو گئی۔ عین ممکن ہے کہ سندھ میں عربوں کی آمد سے قبل پانچ سروں والی موسیقی کا دور ختم ہوچکاہو۔ اس کے علاوہ سندھی موسیقی کی تاریخ کا سراغ ایک ہزار سال قبل مسیح چار ویدوں میں سے سام وید میں بھی ملتا ہے۔
یہ چاروں وید دریائے سندھ کے کنارے لکھے گئے تھے۔ سام وید کے شلوک کسی خوشی کے موقعے پر ترنم کے ساتھ پڑھے جاتے تھے اور ترنم کے ساتھ پڑھنے والے مشاقوں کو ’’گاندھرو‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس ترنم میں کھرج، مدھم اور ٹیپ ایسے تین چڑھائو اُتار یعنی سپتکیں تھیں جوگانے بجانے کا اصل اصول ہیں۔موسیقی کے دوسرے دور یعنی ایک سو قبل مسیح سے ایک ہزار بعد مسیح میں متفرق ساز، تال ، ٹھیکے وغیرہ وجود میں آئے اوران میں کافی ترقی بھی ہوئی۔
موئن جودڑو میں موسیقی کے آرکیسٹرا جلسوں میں ہواکرتے تھے۔ اس دور میں تار اورمنہ سے بجانے کے ساز ایجاد ہوئے،یہی وہ دور ہے جب جھومر وجود میں آیا، حالانکہ اس سے بہت پہلے سے ناچ موجود ہوگا لیکن یہ وہ زمانہ تھا جب ناچ کو باقاعدہ ترتیب دیا گیا اوراس ناچ یعنی جھومر کی وقعت و مقبولیت بڑھتی گئی۔ جس طرح ایک زبان جب تک عام ہوتی ہے تو کوئی حقیقت نہیں رکھتی، لیکن یہی زبان جب ادبی صورت اختیار کر لیتی ہے تو پھر اس زبان کی وقعت بے حد بڑھ جاتی ہے ۔موئن جودڑو سے دریافت شدہ ڈانسنگ گرل (ناچنی) کو دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتاہے کہ جھومر کا انفرادی انداز وہاں مروج تھا ۔ چار سو صدی عیسوی میں پراکرت میں جو ڈرامے ملتے ہیں، ان میں شاعری ، موسیقی، جھومر ، تال اورلے ہوتی تھی۔ دیوالی یا بسنت کے مہینے میں، غرض ہرخوشی کے موقعے پر جھومر کی محفلیں منعقد ہوتی تھیں۔
جھومر کا دوسرا حوالہ بھاگوت گیتا اور برہما پران میں ملتا ہے۔ بھاگوت گیتا کے دسویں باب میں کرشن اور گوپیوں کے جھومر کا تذکرہ ہے۔ کرشن اور گوپیوں کے جھومر کی نوعیت یہ ہوا کرتی تھی کہ کرشن جی ایک جگہ کھڑے ہو جاتے اورگوپیاں ان کے اردگرد ایک خاص انداز اور ترتیب کے ساتھ جھومر ڈالتیں اورگاتی تھیں۔ جھومر کا ایک اورحوالہ چندرآچاریہ سے ملتا ہے، وہ اپنی تصنیف ’’دیش نام مالا‘‘ میں لکھتا ہے کہ ’’ جس ناچ کو سب مل کر ناچیں اور مخصوص ترتیب سے ناچیں تو اس کو جھومر کہا جاتاہے۔‘‘
جھومر ہندوستان میں کسی نہ کسی طریقے پرناچا جاتا ہوگا لیکن چونکہ سندھ میں اس کو فرو غ حاصل ہوا،لہٰذا یہ ناچ اس علاقے کے ساتھ مخصوص ہو گیا۔ سندھ میں جھومر نے لوک ناچ کی صورت اختیار کرلی۔ یہ عورتوں اور مردوں کا ناچ آج بھی پورے سندھ میں بڑے جوش سے ناچا جاتا ہے۔
قدیم زمانے میں جھومر میں ایک قسم کی سادگی ہوا کرتی تھی، تصنع اور بناوٹ بالکل نہ تھا۔ لیکن جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیاجھومر میں تراش خراش ہوتی گئی،تبدیلیاں آتی گئیں۔
جھومر سندھ میں رائج دوسرے ناچوں سے بالکل الگ ہوتا ہے،اس میں صرف حلقے میں کھڑے ہوکرناچا جاتا ہے۔ اگر حلقے میں گول گول نہ ناچیں تو پھراس کامزہ نہیں رہتا، لہٰذا جھومر کی ایک بڑی شرط یہ بھی ہے کہ اس کو حلقے میں ناچا جائے۔ جدت پسندوں نے اس میں درجنوں طریقے ایجاد کئے ہیں۔ لیکن ان کا اصول قریب قریب ایک ہی ہے۔ جھومر کا تمام تر انحصار قدموں اور ٹھیکے پرہے۔ اس میں ناچنے والوں کی تعداد کی کوئی خاص قید نہیں ہوتی، مگر عام طورپر پندرہ ، بیس افراد ہونے چاہئیں۔ ناچنے والے کبھی دو دوبالمقابل ہوں گے، کبھی ایک دوسرے کے سامنے جھک جائیں گے۔ کبھی دو حلقوں میں تقسیم ہو جائیں گے،غرض بے شمار طریقہ ایجاد کئے گئے ہیں۔
جھومر میں لباس کو بڑا دخل ہے۔ اس میں ایک قسم کی نقل و حرکت ہوتی ہے۔ اس وقت رنگ برنگ کے کپڑوں کا فضا میں اُڑنا، حلقوں میں رنگوں کا دوڑنا، ایسا منظر پیش کرتا ہے جیسے رنگ کی لہریں دوڑ رہی ہوں، یہ لہریں زنجیر جمال پیش کرتی ہیں۔ جھومر کو دیکھنے میں جہاں ہمارے کان سریلے گیتوں میں ڈوب جاتے ہیں،جہاں ڈھول کی ہرتھاپ کا جھٹکا سامعین پرسحرانگیز کیفیت طاری کردیتاہے، جہاں زرق برق لباس صاعقہ ریزی کرتاہے،وہاں آنکھیں بھی رنگوں کی دنیا میں گم ہو جاتی ہیں اوران سب کے ایک ہو جانے سے ایسی کیفیت طاری ہو تی ہے کہ کہنا پڑتا ہے کہ:
ہم وہاں ہیں، جہاں سے ہم کو بھی کچھ ہماری خبر نہیں آتی۔
سندھ میں جھومر خاص طور پر شادی کے مواقع پر ناچا جاتا ہے۔ نکاح کے بعد ڈھولک نوازڈھول بجانا شروع کردے گا اور پھر سب لوگ جھومر میں جُت جائیں گے، کچھ مرد وخواتین تالیاں بجائیں گی تو کچھ ’’شابے شابے‘‘ بولیں گی اور پھرکوئی آواز اُبھرے گی:
رانا تم سے راج بنیں گے
رانا تم سے لاکھوں ہوں گے
رانا رانا مور ناچ رہا ہے گوری گجر کا
دریا میں جون، جولائی میں نیا پانی آنے پر سندھ کے ہندو دریا کو ’’ناریل کا خراج‘‘ پیش کرتے ہیں۔ سارے ہندو سندھو دریا پر آکر جھومر ڈالتے ہیں۔ جھومر بند ہونے پر کہتے ہیں:
’’کہو جھولے لال!‘‘
وہاں موجود سارے لوگ جواباً کہتے ہیں۔’’جھولے لال بیڑا پار!‘‘
جمالو بھی جھومر کی ایک خاص قسم ہے، جو صرف سندھ ہی میں مروج ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ’جمالو‘نامی ایک نوجوان اپنے عزیزوں سے ناراض ہو کر لاڑ کی طرف چلا گیا، اس کو ڈھونڈنے کی خاطر یہ گیت لکھا اور گایاگیا:
میرا جمالو جُتوں کا … ہو جمالو!
جو لاڑ کی طرف چلا گیا… ہو جمالو!
جس کی چیچ میں انگوٹھی تھی… ہو جمالو!
جس کے ہاتھ میں پری لاٹھی تھی… ہو جمالو!
جس کی آنکھیں بے حد حسین تھیں… ہو جمالو!
جس کے دانت موتیوں جیسے تھے… ہو جمالو!
جس کے پائوں بہت بھاری تھے… ہو جمالو!
مجھے جمالو منا کر دو … ہو جمالو!
اور پھر کچھ عرصے بعد جب جمالو واپس آگیا تو پھر اس گیت میں یہ سطریں بھی شامل ہوگئیں:
وہ جیت کر آیا خیر سے … ہو جمالو!
جو واپس آگیا لاڑ سے … ہو جمالو!
جھومر کی یہ قسم سندھ میں بے حد مقبول ہے، بلکہ سندھ کا خاص ناچ ہے۔ اس میں جھک جھک کر ہو جمالو بولا جاتا ہے۔
المختصر ،جھومر سندھ کے ساتھ اتنا مخصوص ہے کہ اس کا نام سنتے ہی ہر تصور میں ایک سماں بندھ جاتا ہے۔ جھومر کو جو فروغ سندھ میں حاصل ہواہے، وہ برصغیر میں کہیں بھی نہیں مل سکا۔ سندھ کے مہذب گھرانوں میں اگر کسی عورت سے ناچنے کیلئے کہا جائے تو وہ ناک ، بھوں چڑھائے گی، لیکن اگر جھومر ڈالنے کی گزارش کی جائے تو فوراً ڈھول کی تھاپ پر ،تالیوں سے اور رنگ برنگ کے کپڑوں سے جنت نظیر کا منظر پیش ہو جاتاہے۔ جھومر رقاصہ کاناچ نہیں، اس کے گیت تان پلٹوں میں الجھے ہوئے نہیں۔ یہ ایک مہذب سوسائٹی کا مہذب ناچ ہے، جس پر حیا سایہ ٔ فگن رہتی ہے اور اس وجہ سے جھومر پیشہ وروں کے ناچ سے زیادہ ممتاز اور منفرد نظرآتا ہے۔