• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی خلائی تحقیقاتی ادارہ ناساخلا میں ہونے والی نئی دریافتیں اور پوشیدہ رازوں پر سے پردہ اُٹھانے کے لیے نت نئی خلائی گاڑی اور ہیلی کا پٹر خلا میں روانہ کرتے رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں ناسا کا روور گزشتہ سال مریخ پر بھیجا گیا تھا۔ اس مشن کوسرخ سیارے سے پتھروں کے نمونے زمین پر لانے کے سلسلے کی پہلی کڑی قرار دیا گیا تھا۔

چند ماہ قبل تیسرا خلائی مشن مریخ پر روانہ کیا گیا تھا ۔ اس سے قبل متحدہ عرب امارات کا ایک خلائی مشن مریخ کے مدار میں پہنچا تھا جب کہ اس کے بعد چینی خلائی گاڑی بھی سرخ سیارے کے مدار میں پہنچ گئی تھی،تاہم امریکا کا پر سویرینس نامی یہ خلائی روور اس لیے اہم ہے، کیوں کہ یہ مریخ پر اتارا جانے والا سب سے بڑا امریکی روور ہے، جس کے ساتھ ایک ہیلی کاپٹر بھی ہے۔

ناسا نے مریخ کی سطح پر گاڑی اتارنے کے عمل کو ’’شو‘ ‘کا نام دیا تھا۔مریخ کی سطح کی جانب بڑھتے ہوئے اس مشن کی رفتار بیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ سے بتدریج کم کی گئی تھی۔ رفتار میں کمی کے لیے پیراشوٹ کے علاوہ ردِ رفتار انجن کا استعمال بھی کیا گیا، جس کے بعد مریخ کی سطح پر اترتے ہوئے اس روور کی رفتار تین کلومیٹر فی گھنٹہ رہ گئی تھی۔مریخ پر یہ چھ پہیوں والی گاڑی مارشین ایکویٹر کے شمال میں جیزیرو کریٹر کے قریب اُتاری گئی ہے۔ 

اہم بات یہ ہے کہ کیوری یوسٹی روور اب بھی فعال ہے، تاہم وہ گیل گریٹر نامی مقام سے تین ہزار سات سو کلومیٹر دور ہے۔ امریکی مشن نےسب سے پہلے مریخ کی سطح پر پرسیویرینس نامی روور اتارنے کے بعد اس سیارے پر پانی اور زندگی کی تلاش کا کام شروع کیا تھا۔ اس کے علاوہ اس مشن میں مریخی چٹانوں اور پتھروں کے نمونے حاصل کر کے اپنے پاس محفوظ کرنا بھی شامل تھا۔ اگلے دس برس میں امریکی اور یورپی مشترکہ مشن یہ نمونے حاصل کریں گے اور انہیں زمین پر پہنچایا جائے گا۔ امریکی روور انجینیٹی نامی ہیلی کاپٹر کا حامل ہے۔ یہ ہیلی کاپٹر اصل میں ایک تجرباتی آلہ ہے، جس کے ذریعے ناسا کا مقصد مریخ کے کرہ ہوائی میں پرواز اور لینڈنگ سے متعلق معلومات حاصل کرنا ہے۔

اب یہ’’ پرسیویرینس روور ‘‘ مریخ پر اپنےابتدائی مقاصد مکمل کرنے کے قریب ہے ۔ناسا کی اس خلا ئی گاڑی نے مختلف اقسام کے پتھروں کے نمونے اکٹھے کیے ہیں، جنہیں جلد ہی سطح کے ایک مقام پر جمع کیا جائے گا اور مشن کی مدد سے زمین پر لایا جا سکے گا۔ ماہرین کے مطابق 17 ماہ قبل یہ خلائی گاڑی راکٹ سے نکل کر جیزیرو (شہابی گڑھے کے مقام ) پر پہنچی تھی۔پرسیویرینس نے اب تک جو کچھ بھی دیکھا ہے ،اس سے سائنس داں مطمئن ہیں کہ وہ زندگی کی تلاش کے لیے بہترین مقام پر موجود ہے۔ 

مریخ پر خراب ماحول کی وجہ سے کسی جاندار کی موجودگی کے امکان نہ ہونے کے برابر ہیں ،مگر یہ روور ایسے نمونے کی تلاش میں ہے ،جس سے معلوم ہو سکے کہ اربوں سال قبل جیز یرو ایک تالاب سے بھرا ہوا تھا۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا بر کلی سے وابستہ پر سیو یرینس مشن کے سائنس داں ڈیو ڈشسٹر کا کہناہے کہ اگر جیزیرو کی یہ حالت گذشتہ 3.5 ارب برس قبل کسی بھی لمحے زمین پر کہیں بھی موجود ہوتی تو یہ فر ض کرنا ٹھیک ہو گا کہ بیالوجی نے ان پتھروں پر ایسی علامات چھوڑی ہو ں گی جن کا مشاہدہ ہم کرسکتے ہیں۔

اس منصوبے پر ناسا اور یورپی ایجنسی مل کر کام کررہے ہیں ،تا کہ ان پتھروں کے نمونوں کو زمین پر جلد لایا جاسکے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک حیران کن منصوبہ ہو گا، جس میں ایک نیا لینڈنگ سسٹم ،ہیلی کا پٹر،مریخ کے لیے راکٹ اور ایک سیارے سے دوسرے سیارے پر جانے والا خلائی جہاز شامل ہوں گے۔ ماہرین کی کوشش ہے کہ ان نمونوں کو زمین پر 2033 ء تک لے آئیں۔

پرسیویرینس نے اس شہابی گڑھے کی سطح پر کھدائی کی اور کچھ ایسے پتھروں کے نمونے جمع کیے جو آتش فشاں کا حصہ تھے۔ ان نمونوں سے معلوم ہوگا کہ جیزیروں کے تالاب کے پانی سے بھرنے سے قبل وہاں کیا تھا۔خیال ہے کہ پتھر کی ان اقسام سے حاصل کیے گئے ہیں جن کے جا ئزے سے معلوم ہو گا کہ وہ کتنے پرانے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں مریخ پر کسی تاریخ کا تخمینہ بالواسطہ طور پر ہی لگایا جاسکتا ہے۔ ان نمونوں کو 45 کلو میٹرطویل شہابی گڑھے کے مغربی حصے کے ڈیلٹا پازٹس سے اکٹھا کیا گیا تھا۔ڈیلٹا ایسے ڈھانچے کو کہتے ہیں جو دریائی ریت سے بنتا ہے جب پانی آگے کی طرف بہہ جاتا ہے۔ 

ارضیاتی اعتبار سے یہ ایسے نمونے ہوسکتے ہیں جن میں ماضی کے مائیکروبیل جانداروں کی معلومات مل سکے۔تلچھٹ ( رفیق آمیزۂ ذرّات.)قسم کے نمونے ایک ایسی چٹان سے جمع کیے گئے جسے ’’وائلڈ کیٹ رِج‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ نہر جیزیرو پر پانی کے بخارات بننے کے بعد یہ مقام اسی مٹی، ریت اور کیچڑ کے ملاپ سے بنا۔ روور کے ابتدائی جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ وائلڈ کیٹ رج میں ارگینک (حیاتیاتی)، یعنی کاربن، کے مرکبات شامل ہیں۔ یہ دلچسپ مگر محدود مشاہدہ ہے۔ ناسا کی جیٹ پروپلژن لیبارٹری (جے پی ایل) میں مشن انسٹرومنٹ سائنسدان سنندا شرما کا کہنا ہے کہ تمام جاندار ارگینک مرکبات سے بنتے ہیں، تاہم اہم بات یہ ہے کہ ارگینک مرکبات کیمیائی عمل سے بھی بن سکتے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ اس کا تعلق کسی جاندار سے ہو۔ 

مثلاً یہ پانی اور پتھر کے ملنے سے بن سکتے ہیں۔ ارگینک مواد ستاروں کے درمیان دھول میں بھی موجود ہوتا ہے۔ گذشتہ چار مہینوں کے دوران پرسیویرینس نے اس 40 میٹر اونچی ڈھلوان پر کام کیا ہے جو ڈیلٹا کے کنارے پر واقع ہے۔ جلد یہ روبوٹ شہابی گڑھے کی ہموار سطح پر پہنچے گا جہاں ٹائٹینیئم کی محفوظ ٹیوبز میں ان پتھروں کے نمونوں کو جمع کر لیا جائے گا، پھر انھیں ایک جگہ سطح پر اکٹھا کر لیا جائے گا۔

جے پی ایل کے پراجیکٹ سسٹمز انجینئر رِک ولچ کا کہنا ہے کہ ہماری کوشش ہوگی کہ سطح پر 10 سے 11 ایسی ٹیوبز رکھی جائیں۔ ان نمونوں کو وہاں رکھنے میں دو ماہ لگ سکتے ہیں اور پھر یہ بڑی احتیاط سے درج کیا جائے گا کہ وہ کس مقام پر رکھی گئی ہیں، تاکہ مستقبل کے مشن میں انھیں ڈھونڈا جاسکے۔ ناسا کے انجینئر اس کی مشقیں کر رہے ہیں کہ ان ٹیوبز کو کیسے باہر لا کر رکھا جائے گا۔ اس وقت یہ ٹیوبز پرسیویرینس کے پیٹ میں ہیں۔ جے پی ایل کی لیب میں اس روور کی کاپی موجود ہیں۔ اس پر تجربے کرنے کے بعد مریخ پر انھیں نقل کیا جاتا ہے۔

ان نمونوں کی ڈیپو پر منتقلی کا منصوبہ حفاظتاً اختیار کیا جا رہا ہے، کیوں کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ یہ روور مشن کے باقی حصے کے دوران خراب ہوجائے۔ اس لیے نمونوں کو ایک مقام پر منتقل کیا جائے گا ،تاکہ انھیں زمین پر لایا جاسکے۔ سائنس دان مزید نمونے بھی جمع کرنا چاہتے ہیں۔ یوں زمین پر منتقلی کے لیے اس بات پر توجہ دی جائے گی کہ روبوٹ مستقبل میں کہاں جاتا ہے۔ حتمی فیصلہ مریخ پر ہونے والے واقعات کریں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم نہ صرف صحیح مقام پر گئے ہیں بلکہ ہم نے صحیح خلائی جہاز کو صحیح سامان کے ساتھ بھیجا ہے، تاکہ مریخ کے قدیم اور دلچسپ ماحول کو دیکھ کراور سمجھ کر حتمی فیصلہ کیا جاسکے ۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
ٹیکنالوجی سے مزید