• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: پرویز فتح۔۔۔ لیڈز
ہیٹ کرائم یا نفرت انگیز جرائم ایسے جرم کو کہتے ہیں جن کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے کہ ان کی بنیاد ایسی نفرت ہے جو متاثرہ شخص سے مذہب، رنگ، نسل، صنف، معذوری، ٹرانسجنڈر شناخت یا پھر جنسی رحجان کی بنیاد پر کئے گئے ہوں، ایسے کرائم ہمیں آئے روز دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن افسوس کہ اِس کا نہ تو لوگوں میں شعورہے اور نہ ہی اتنا کسی کو علم کہ برطانیہ میں اسے جرم تصور کیا جاتا ہے، آپ چاہے خود نفرت کا شکار ہوئے ہوں، یا پھر آپ نے کسی اور شخص کو اس کا شکار ہوتے دیکھا ہو تو آپ اس کو باقاعدہ رپورٹ کر سکتے ہیں جس کسی کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آیا ہو وہ آپ کے خاندان کے افراد ہو سکتے ہیں، آپ کے دوست ہو سکتے ہیں یا پھر ایسے افراد بھی ہو سکتے ہیں جنہیں آپ ابھی ملے ہوں یا پھر جنہیں آپ جانتے ہی نہ ہوں، نفرت پر مبنی جرم کہیں بھی واقع ہو سکتا ہے، وہ آپ کے گھر میں ہو سکتا ہے، کسی بس میں یا ورک پلیس، فیکٹری، دفتر میں ہو سکتا ہے، کسی پارک میں ہو سکتا ہے، یا کسی سکول، کالج اور یونیورسٹی میں ہو سکتا ہے۔ یہ آپ کا حق ہے کہ آپ اپنے گھر میں، گلی محلے میں، یا پھر عوامی مقامات پر اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں۔ لوگوں کے ساتھ بہت سی ایسی چیزیں ہو سکتی ہیں جو برطانوی قانون کے مطابق ناقابلِ قبول ہوتی ہیں، مگر وہ بعض اوقات نفرت پر مبنی واقع بھی بن جاتی ہیں جب کسی نے آپ کے بارے میں نامناسب رائے قائم کر لی ہو۔ ہیٹ کرائمز میں جو واقعات یا چیزیں ہو سکتی ہیں وہ جسمانی حملہ، پراپرٹی کو نقصان، جارحانہ وال چاکنگ، آتش زنی یا پھر آن لائن نفرت کے لیے اکسانا شامل ہیں۔ اسے اگر مذید تفصیل میں دیکھا جائے تو ایسے واقعات میں جو چیزیں ہو سکتی ہیں اُن میں کسی کو دھکا دینا، تنگ کرنا، دھمکی دینا؛ آپ پر کچھ پھینکا جانا، یا آپ کے لیٹر باکس میں کچھ ڈالا جانا، کسی کا آپ کی جانب دھمکی آمیز انداز میں بڑھنا، خاموشی سے، ہاتھوں سے جارحانہ اشارے کرنا یا آپ کی نقل اتارنا، آپ پر تھوکا جانا، زدوکوب کیا جانا یا ٹھوکر ماری جانا، گالیاں دی جانا، تضحیک یا گھٹیا لطیفوں کا نشانا بنایا جانا، آپ کی املاک کو نقصان پہنچایا جانا یا چوری کیا جانا، پڑوسی کی جانب سے حملہ کیا جانا، آتش زنی، یا پڑوسی کے ساتھ جھگڑے اور آپ کی معذوری، نسل، مذہب، جنسی رحجان یا ٹرانسجنڈر شناخت کی بنا پر دادا گیری کا نشانا بنایا جانا شامل ہیں، اگر ایسے واقعات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ان میں قانونی طور پر بہت سی پیچیدگیاں اور سقم ہیں۔ پولیس صرف اسی وقت خلاف قانون کاروائی کر سکتی ہے جب اس کی نظر میں قانون کو توڑا گیا ہو لیکن بغیر جرم کے نفرت آمیز واقعات کی رپورٹنگ بھی بحرحال بہت ضروری ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ بعض اوقات ایسے جرائم فوجداری جرائم کی حدود میں نہ آتے ہوں، لیکن جن لوگوں کے خلاف یہ جرائم کیے جاتے ہیں، انہیں یہ جرم لگتے ہیں اور بعض اوقات ایسے واقعات کی کثرت سے ہیٹ کرائم اور بھی بڑھ جاتے ہیں۔ نفرت انگیز واقعات میں اگر قانوں توڑا گیا ہو تو یہ فوجداری جرم ہے اور اگر قانون نہ توڑا گیا ہو تو یہ نفرت انگیز واقعہ ہے لیکن ہر نفرت انگیز واقعہ قانون کی نظر میں فوجداری جرم نہیں ہے، ایسے کیسز کو نفرت انگیز واقعہ کہا جاتا ہے اور اس بات کا تعین پولیس کرتی ہے کہ کیا یہ ایک فوجداری جرم ہے یا پھر ایک واقعہ تمام کیسز فوجداری جرم کی حد کو پورا نہیں کرتے لیکن پھر بھی اُن سب واقعات کی پولیس کو ریورٹ کرنا بہت اہم ہے۔ یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ برطانیہ میں ʼہیٹ کرائمʼ کی کوئی معین سزائیں نہیں ہیں، لیکن اگر کوئی جرم مذہب، رنگ، نسل، صنف، معذوری یا ٹرانسجیڈر جیسے جرائم کی فہرست میں آتا ہو تو جج کو یہ اختیار حاصل ھے، کہ اس جرم میں سزا دے سکے یا پھر سزا کو مزید سخت کر سکے۔ برطانیہ کی مختلف سماجی تنظیمیں، جن میں سٹیزن یوکے، ریفیوج اینڈ ویمن ایڈ اور ساوتھ ایشین پیپلز فورم شامل ہیں، ان کا خیال ہے کہ رپورٹنگ کا یہ اندازِ فکر اختیار کرنے سے اہم اعداد و شمار حاصل ہوں گے، جن سے خواتین کے خلاف معاندانہ رویہ سے خواتین کو ہراساں کیے جانے اور بدسلوکی میں تعلق ثابت ہو سکے گا۔ نسلی اقلیتوں کے بارے میں معندانہ رویہ اور مختلف لیول کے کرائم پر کوئی نہ تو ریسرچ کرتا ہے اور نہ ہی کوئی کمیشن یا رپورٹ منظرِ عام پر آتی ہے۔ ویسے بھی اگر ملک کا ایک سابق وزیراعظم ایک حجاب پوش یا برقعہ پوش خاتون کو دندناتے ہوئے لیٹر باکس کہے تو باقی ملکی آبادی کا تو خدا ہر حافظ ہے۔ گذشتہ برس سبقدوش ہونے والے اسی وزیر اعظم مسٹر بورس جانسن سے بی بی سی کے پروگرام بریک فاسٹ ٹائم میں بات کرتے ہوئے میزبان ڈین والکر نے کہا کہ انگلینڈ اور ویلز کے 43پولیس کے محکموں میں سے 11 محکمے ایسے ہیں جو عورت کے خلاف نفرت کو ʼہیٹ کرائمʼ کے زمرے میں درج کرتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ 32محکمے ابھی تک ایسے واقعات کو ہیٹ کرائمز میں شمار ہی نہیں کرتے۔ برطانیہ میں سب سے پہلے نوٹنگھم شائر کی پولیس نے خواتین کے خلاف نفرت کو 2016ء میں ہیٹ کرائم کے طور پر درج کرنا شروع کیا تھا، جس کے بعد نوٹنگھم یونیورسٹی کے تحقیق دانوں کا کہنا تھا کہ رویوں میں تبدیلی آنا شروع ہوئی ہے۔ برطانیہ بھر کے انسانی حقوق کے علمبرداروں اور سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ صنف اور جنس کی بنیاد پر ہونے والے جرائم کو بھی اس فہرست میں شامل کیا جائے، اور ان کا کہنا ہے کہ عورتوں پر تشدد کی ایک بڑی وجہ خواتین سے نفرت ہے۔ ادھر سکاٹ لینڈ کی پارلیمینٹ کی ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جو اپنی رپورٹ مرتب کر رہی ہے کہ عورتوں کے خلاف نفرت کو ایک جرم کے طور پر تصور کیا جائے کہ نہیں۔ برطانیہ کی حزب اختلاف کی جماعت لیبر پارٹی کی رکن پارلیمنٹ سٹیلا کریسی، جو ایک عرصہ سے اس معاملے پر مہم چلا رہی ہیں، انھوں نے کچھ عرصہ پہلے بی بی سی کو بتایا تھا، کہ جن علاقوں میں پولیس نے خواتین کے خلاف نفرت کے اظہار کو جرم کے طور پر لینا شروع کیا ہے، اس سے پولیس میں اعتماد پیدا ہوا ھے، اور پولیس کے کلچر میں بھی تبدیلی آئی ہے کہ کس طرح خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات پر کارروائی کرنی ہے۔ لنکا شائر سے ٹوری پارٹی کی ممبر اور سابق وزریر انصاف کے فرائض ادا کرنے والی محترمہ وکٹوریہ ایٹکنز نے گزشتہ برس اپنی وزارت کے دوران کہا تھا کہ وہ خواتین، بلخصوص نوجوان لڑکیوں کو سڑکوں اور گلیوں میں تنگ کرنے اور فقرے کسنے والوں سے نمٹنا چاہتی ہیں۔ لیکن وہ کِس حد تک نمٹ پائیں، ہم سب بخوبی جانتے ہیں۔ لندن میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی بنیاد پر جرائم کی شرح گذشتہ ایک دہائی سے بڑھنے لگی ہے۔ ایک برطانوی اخبار کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گذشتہ سال مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کے پندرہ سو سے زائد کیس سامنے آئے ہیں۔ برطانوی اخبار دی انڈپینڈنٹ لکھتا ہے کہ لندن میں رہنے والے مسلمانوں کومذہبی بنیادوں پر جرائم کا نشانہ بنانے کی شرح میں ستر فیصد اضافہ ہوا ہے۔ میٹروپولیٹن پولیس کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق لندن میں نسلی تعصب اور مذہبی نفرت پر مبنی جرائم کی شرح میں عمومی طور پر 27فیصد اضافہ ہوا، جس کے تیرہ ہزار سات واقعات ریکارڈ ہوئے۔ اسلاموفوبک حملوں کا ریکارڈ رکھنے اور متاثرہ لوگوں کی مدد کرنے والی تنظیم ٹیل ماما کے مطابق زیادہ تراسلامو فوبک حملےخواتین پر کیے گئے، جس میں حجاب اور اسکارف پہنی خواتین شامل ہیں۔ برطانیہ میں 23جون 1916ء کو یورپی یونین چھوڑنے کے لیے ووٹ اور بریگزٹ کے نتیجے میں ہونے والی تقسیم نے ملک بھر میں نسل پرستی کو ہوا دی ہے، جس میں امیگریشن ایک اہم مسئلہ تھا۔ برطانوی پولیس کا کہنا ہے کہ ملک کے یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے کے بعد سے ملک بھر میں نفرت پر مبنی جرائم کی شرح بڑھنے لگی ہے۔ برطانوی پولیس کی طرف سے جاری ہونے والی رپورٹ کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ بریگزٹ کے ووٹ کے بعد سے ملک بھر میں نفرت اور مذہبی تعصب کی بنیاد پر کئے جانے والے جرائم جاری ہیں اور صرف ایک ماہ میں تارکین وطن اور یورپی باشندوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کے 8500 سے زیادہ کیسز سامنے آئے ہیں۔ ان جرائم میں زیادہ تر یورپی تارکین وطن کے ساتھ بدسلوکی اور اسلامو فوبک جرائم رپورٹ ہوئے ہیں۔ ملک بھر میں ایسے جرائم میں زیادہ تر نفرت کا نشانہ بننے والے لوگوں کو ہراساں کیا گیا ہے اور ان پر تشدد سمیت زبانی بدکلامی اور بعض پر تو تھوُکا گیا ہے۔ ستمبر2020ء میں شائع ہونے والی لا کمیشن کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین کونفرت کی بنیاد پر ہونے والے جرائم کے تحت تحفظ فراہم کیا جانا چاہئے۔ حکومت کو مشاورت فراہم کرنے والے اِس انڈی پینڈنٹ ادارے نے کہا ہے کہ عورتوں سے نفرت کرنے والوں سے اسی انداز میں نمٹا جانا چاہئے، جس طرح دیگر امتیاز برتنے والوں سے نمٹا جاتا ہے، جب ان کا محرک ایک جرم ہو۔ انسانی حقوق کے کمپینرز نے اس تجویز کا خیرمقدم کیا ہے جس میں لیبر کی ایم پی سٹیلا کریزی بھی شامل ہیں، جن کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے لئے تبدیلی کا لمحہ ہے۔ ادھر ہوم آفس نے دعویٰ ہے کہ وہ نفرت کی بنیاد پر ہونے والے جرائم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم رکھتا ہے۔ گذشتہ برس کے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ پولیس کی جانب سے ریکارڈ کئے گئے ہیٹ کرائمز کی تعداد میں 10فیصد اضافہ ہوا ہے۔ آپ کو ایسے بے شمار ایفروایشین افراد ملیں گے جو کہتے ہوں کہ فلاں شخص نے مجھے گالیاں دیں، یا کوئی چیز اُٹھا کر پھینک دی، یا پھر آوازیں دیں کہ جِس ملک سے آئے ہو واپس چلے جاؤ۔ میرے بہت سے دوستوں کو شائد یہ معلوم نہ ہو کہ ایسی رپورٹنگ آپ اپنا نام اور کوائف کو صیغہ راز میں رکھ کر بھی کر سکتے ہیں۔ جب آپ نفرت پر مبنی جُرم کے خلاف رپورٹ کرتے ہیں تو پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ آپ کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات اُٹھائے۔ مجھے اِس بات کی کبھی سمجھ نہیں آئی کہ برطانیہ جیسے سیکولر جمہوری ملک میں بھی خواتین کے خلاف نفرت انگیز واقعات کو قانونی طور پر ہیٹ کرائم کیوں تصور کیا جاتا؟ یہ ہمارے مساوات کے قوانین میں بہت بڑا خلا ہے۔ تاہم میں قطعاً اور افسوسناک طور پر حیران نہیں ہوں کہ حکمران طبقات ہماری ماؤں اور بیٹیوں کے تحفظ کے لیے اس خلا کو پُر نہیں کرنا چاہتے۔ بحیثیت شہری میرے جیسے کارکن پُر عزم ہیں کہ ہمارے معاشرے میں نفرت کی بنیاد پر ہونے والے جرائم کی کوئی جگہ نہیں ہے، کیونکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ متاثرین پر اس کے کتنے خوفناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آؤ پم سب مل کر نفرت پر مبنی جرائم کے خلاف آواز اُٹھائیں، اور اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنائیں۔
یورپ سے سے مزید