کراچی ہمیشہ سے علم وادب کا گہوارہ رہا ہے۔ اس شہر میں ادبی سرگرمیوں کا آغاز تقریباً 1870ء سے شروع ہوا۔ تحریک پاکستان کو کامیاب بنانے میں کراچی کے ادیبوں اور شاعروں نے بھی بھرپور حصہ لیا۔ ادیبوں نے اپنے مضامین، کہانیوں، افسانوں اور ڈراموں کے ذریعے اور شعراء نے قومی جذبے سے سرشار ہو کر نظموں، ترانوں، قطعات و رعبایات کے ذریعے مسلمانوں میں آزادی کا جذبہ بیدار کیا۔
قیام پاکستان کے لئے برصغیر کی سطح پر راہ ہموار کی۔ ان ادیبوں اور شاعروں میں مولانا دین محمد وفائی، شمس الدین بلبل، حکیم فتح محمد سہوانی، مولانا محمد عبدالحئی حقانی، جناب مولانا ظہور الحسن درس، جناب حبیب اللہ فکری، جناب عبدالکریم عزمی، جناب حافظ نیاز احمد نمایاں تھے۔
کراچی شہر برطانوی عہد کے ابتداء ہی سے سیاسی، ادبی، سماجی، ثقافتی اور صحافتی سرگرمیوں کا مرکز چلا آرہا ہے۔ دیکھا جائے تو سندھ میں سب سے پہلے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہی کراچی سے ہوا۔ سندھ کی تاریخ میں سب سے پہلے اخبارات بھی کراچی سے ہی جاری ہوئے۔ ان اخبارات نے سندھ کے مسلمانوں میں آزادی کا جذبہ و جوش پیدا کیا۔ اور انہیں تعلیمی میدان میں بھی ہندوئوں سے مقابلہ کرنے کے لئے ابھارا۔
کراچی سے شائع ہونے والے اخبارروزنامہ جنگ’’الوحید‘‘ نے بھی بھرپور کردارادا کیا۔ جس کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ کراچی اس لحاظ سے بھی قابل فخر ہے کہ یہاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طرح سندھ کے مسلمانوں میں تعلیمی و سیاسی شعور اجاگر کرنے کیلئے سندھ مدرسۃ الاسلام کی بنیاد رکھی گئی۔ یقینا یہ اہل کراچی کی علمی وادبی سرگرمیوں کا ایک بڑا مرکز بن کر اُبھرا۔ اس مدرسے میں بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی علم کی پیاس بجھائی۔
کراچی کی ادبی تاریخ میں
مولانا محمد علی جوہر کا حصہ
کراچی کی ادبی و سیاسی تاریخ کا اہم موڑ جب آیا جب مولانا محمد علی جوہر پر 26؍ستمبر1921ء کوخالقدینا ہال میں بغاوت کامقدمہ چلایاگیا ۔ یہ ایسا واقعہ تھا جس سے کراچی کو شہرت ملی۔ یہ مقدمہ جولائی 1921ء میں عیدگاہ میدان بندر روڈ پرخلافت کانفرنس کی قرارداد منظور ہونے پر بنایا گیا تھا۔ مولانا محمد علی جوہر نے اپنے مقدمے کی تیاری قرآن مجید کے ایک نسخے کی مدد سے کی تھی یہ نسخہ برصغیر اور خاص کر کراچی کی ادبی دستاویز میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ مولانا محمد علی جوہر کو دوسال کے لئے کراچی جیل بھیج دیا گیا اس وقت ان کیلکھی ہو ئ نظم ’’کراچی کے قیدی‘‘ بہت مشہور ہوئ، جس کا ایک شعربہت مشہور ہوا تھا۔
کہہ رہے ہیں کراچی کے قیدی ہم تو جاتے ہیں دو دو برس کو لو
سزا بے گناہوں نے پائی، آج ہوتی ہے تم سے جدائی
مولانا محمد علی جوہر جیل میں وقت نکال کر شعر و شاعری بھی کرتے تھے،اپناکلام علی گڑھ بھیجا کرتے تھے۔ قید کے دوران ان کی بیٹی بیمار ہوگئی ان کو اطلاع ملی تو بیٹی کے لئے یہ شعر کہے۔
تیری صحت ہمیں مطلوب ہے لیکن
اس کو نہیں منظور تو پھرہم کو بھی منظور نہیں
تحریک خلافت نے کراچی کی ادبی زندگی میں ایک نئی رونق بخشی کراچی کے شعراء خلافت کے ابتداء ہی سے اسے اپنی شاعری کا موضوع بناتے رہے تھے۔ سندھ یونیورسٹی نے صدر شعبہ اُردو ڈاکٹر نجم الاسلام نے ایک رسالہ ’’ برگ گل‘‘ جوہر نمبر شائع کیا اس مجموعے میں شائع ہونے والی نظموں کو دل دہلا دینے والی اورآزادی کی روح پھونکنے والی قومی نظمیں قراردیا تھا۔
اس مجموعے میں مولانا محمد علی جوہر پر دو نظمیں بہت مشہور ہوئیں پہلی نظم ’’خطاب قوم بطرف مولانا محمد علی جوہر‘‘ دوسری نظم ’’ علم بردار حریت مولانا شوکت علی‘‘ افسر صدیقی جو کراچی کے شاعر تھے۔ مولانا محمد علی جوہر کی وفات پر ایک نظم لکھی ،جس کا ایک شعرملا حظہ کریں۔
غلامی کی دنیا میں واپس نہ آیا جو منہ سے کہا تھا وہی کر دکھایا
کسی میں نہیں اتنے اوصاف افسر کسی رہنما نے یہ رتبہ نہ پایا