محمد رضوان
سہیل ، احسن اور فرحان تینوں گہر ے دوست تھے۔ ان کے گھر بھی کالونی میں ایک ساتھ تھے اور وہ ایک ہی جماعت میں پڑھتے تھے تینوں ایک ساتھ وین میں اسکول جاتے، شام کو ٹیوشن بھی ایک ہی جگہ پڑھتے تھے حد تو یہ کہ تینوں کی عادت و اطوار بھی یکساں تھیں۔ اتوار کے دن تینوں کے ممی پاپا نے پکنک پر جانے کا پروگرام بنایا۔ احسن نے محسوس کیا کہ سہیل گم صم ہے۔ وہ ہمیشہ ہاف ٹائم میں جب بھی کینٹین آتے تو بہت بولا کرتا تھا ،جبکہ آج وہ کچھ پریشان تھا۔ وہ اپنی آئس کریم بھی نہیں کھا رہا تھا، جب کہ احسن اور فرحان آئس کریم ختم کرچکے تھے۔
’’کیا بات ہے سہیل ، تم کوئی بات نہیں کررہے اور نہ ہی آئس کریم کھا رہے ہو۔ کوئی مسئلہ ہے تو ہمیں بتائو۔ احسن بولا۔ ’’ہاں سہیل پلیز ہمیں بتائو ہم تمہاری مدد کریں گے۔‘‘ فرحان بولا۔
’’دراصل کل میرا پکنک پر جانے کا موڈ نہیں ہے میں نہیں جائوں گا۔‘‘ سہیل پھر اداسی سے بولا۔ احسن اور فرحان بھی اداس ہوگئے ان کے منہ پر بارہ بجنے لگے۔ انہوں نے پوچھا ، کوئی بڑا مسئلہ ہے، ورنہ سہیل تو بہت مزے کرتا ہے ، جب بھی کہیں جانے کا پروگرام بنتا تھا تو وہ سب سے آگے آگے رہتا تھا۔ احسن نے نہ جانےکی وجہ پوچھی تو وہ ٹال مٹول سے کام لینے لگا۔ بالاخر جب انہوں نے زیادہ اصرار کیا تو اس نے کہا، ’’میں اپنا جیب خرچ جمع کررہا ہوں، مجھے ان پیسوں کی ضرورت ہے۔‘‘
’’ضرورت ہے لیکن کس چیز کے لئے، تمہیں کیا خریدنا ہے اپنے لئے یا ‘‘ احسن نے کہا۔ ’’نہیں دوستوں، اپنے لئے کچھ نہیں خریدنا‘‘۔ سہیل نے کہا۔
’’ پھر کس کے لئے‘‘ احسن اور فرحان نے ایک ساتھ کہا۔
’’ہمارے گھر سے کچرے کی باسکٹ اٹھانے کے لئے جو لڑکا آتا ہے، مجھے اسے دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ پھٹے ہوئے گندے میلے کپڑے پہنے ہوتا ہے اور اس کے پاس جوتے بھی نہیں ہیں۔‘‘ سہیل کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’تو ہم اس کے لئے کیا کرسکتے ہیں، اور تم اتنا پریشان کیوں ہورہے ہو ، ، تمہارےممی بابا اسے اس کام کے پیسے دیتے ہیں۔‘‘ احسن نے غصے سے کہا اور منال نے بھی احسن کی تائید کی، جبکہ سہیل کو اپنے دوستوں کی باتیں سن کر بہت دکھ ہوا۔’’ اس کے پاس تو کھانے کے لئے بھی کچھ نہیں ہوتا، ایک دن میں نے خود دیکھا اس نے کچرے کی ٹوکری سے گلا سڑا ہوا سیب نکال کر کھایا ‘‘۔ سہیل بولا۔
’’تو تم اس کے لئے پکنک کا پروگرام کیوں کینسل کررہے ہو؟‘‘ فرحان بولا۔
’’میں پہلے بھی بتا چکا ہوں میں اپنی جیب خرچی جمع کررہا ہوں۔ وہ لڑکا پڑھنا چاہتا ہے خدا تعالیٰ نے ہمیں ہر نعمت سے نوازا ہے، کیا ہم اس کے لئے کچھ نہیں کرسکتے؟ میں چاہتا ہوں تم دونوں بھی میرا ساتھ دو۔ ہم اس کے لئے کتابیں ، بستہ اور جوتے لیں گے۔
کتنا اچھا لگے گا جب اس کے ان ننھے ننھے ہاتھوں میں بجائے ڈس بن کے کتاب ہوگی۔‘‘ سہیل جوش میں کہتا چلا گیا۔ اسے لگ رہا تھا کہ اس کی باتوں سے اس کے دونوں دوست مان جائیں گے لیکن یہ اس کی خام خیال تھی۔ فرحان بولا۔ ’’میں نے پہلے ہی فیصلہ کرلیا ہے کہ بابا نے جو پیسے مجھے پکنک پہ خرچ کرنے کے لئے دیئے ہیں، میں ان سے جھولا جھولوں گا۔
’’ہاں میں بھی ، گولگپے کھائوں گا، چاٹ، برگر۔ احسن کھانے کا بہت شوقین تھا جہاں جاتا سیر ہو کر کھاتا یعنی پکنک پہ جاکر بھی اس نے اپنےکھانے کے آئٹمز پہلے سے سوچ رکھے تھے۔
’’تم دونوں کتنے خودغرض ہو مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم اسی طرح کی باتیں کرو گے ، وہ بھی تو ہماری طرح کا ایک بچہ ہے، اس کا بھی دل چاہتا ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر کچھ کر دکھائے لیکن وہ غریب ہے تو اس میں اس کا کیا قصور ہے۔ ہمارے پاس اگر پیسے ہیں تو ہمیں اس کی مدد کرنی چاہیے۔ میں نے اپنے ٹیوٹر سے بھی بات کرلی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ساتھ اس لڑکے کو پڑھا دیا کریں گے اور فیس بھی نہیں لیں گے۔
تم لوگ میری مدد نہیں کرتے تو نہ کرو، میں جارہا ہوں۔‘‘ سہیل نے جاتے ہوئے کہا تو دونوں نے اسے آواز دی ’’سہیل رکو‘‘ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور ہم ان ننھے ہاتھوں میں کتاب اور قلم ضرور پکڑوائیں گے۔ احسن نے سہیل کو گلے سے لگا کر کہا۔ ہاف ٹائم ختم ہوگیا ، گھنٹی بجی تو وہ تینوں ہمیشہ کی طرح ایک ساتھ ہنستے ہوئے جماعت میں چلے گئے۔