روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعدسے ایران میں مختلف وقفوں سے مسلسل احتجاج یا فسادات سراٹھاتے رہے ہیں اور کوئی مظاہرہ یا احتجاج ریاستی جبر کے نتیجے میں خون کی ہولی کھیلے بغیر دبایا نہیں جا سکا۔ 1999ء میں طلبہ کے احتجاج جس میں4 طلبہ کو ریاستی اداروں نے گولیوں کا نشانہ بنا کر اس دنیا سے رخصت کیا، اسی طرح 2009؍ کی گرین موومنٹ جس کے نتیجے میں محمود احمدی نژاد اقتدار میں آئے تھے، اس موومنٹ میں100 جانیں لقمہ اجل بنی تھیں ، اسی طرح 2018ء کے اکانومی پر احتجاج میں 22 مظاہرین کو شہیدکیا گیا۔ اسی طرح 2019ء کی مہنگائی کےخلاف اٹھنے والی آوازکے نتیجے میں304 شہریوں کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا، اب 2022ءمیں بھی ایران کے عوام بالخصوص عورتوں کی جانب سے نام نہاد اسلام کے نام پر جبروتشدد کو ردکر رہے ہیں اور یہ اسلامی ریاست ابھی تک درجنوں شہریوں کو اپنی گولیوں کی بھینٹ چڑھا چکی ہے، نہ جانے کہاں سے یہ اخلاقیات نافذ کرنے والی فورس لاکھوں عورتوں پر مسلط کر دی گئی ہے جس نے سب جنسی تعصب پرمبنی ضابطے اور قواعد ایران کی عورتوں پر مسلط کررکھے ہیں، عورت کو مرد کے پائوں کی جوتی سے بھی بدتر بنا کر رکھا ہوا ہے،ایک 22 سالہ دوشیزہ مہسا امینی جو تہران اپنے خاندان سے ملنے آئی حجاب نہ پہننے پر اسے اسی اخلاقیات نافذ کرنے والی فورس نےجان سے مار ڈالا، اس مورالٹی پولیس نے اسے حجاب نہ اوڑھنے پر گرفتار کرکے وین میں ہی مارنا شروع کر دیا جس پر لاکھوں کی تعداد میں ایرانی عورتیں سڑکوں پر نکل آئی ہیں اور پچھلے 42 سال سے ہونے والے مسلسل جبر کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ اقوام متحدہ نے بھی امینی کے قتل کی غیر جانبدارانہ اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ دراصل ایسے جنونیوں کی ساری حکمرانی عورت پر ہی چلتی ہے اور یہ اسے ہی انقلاب سمجھتے ہیں، مظاہرین اس مورالٹی فورس کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں جو ہزاروں انسانوں کی اپنی جہالت کی وجہ سے جان لے چکی ہے۔ اس وقت یہ احتجاج ملک کے چپے چپے سے نکل کر عالمی احتجاج بن چکا ہے، ہمارے ہاں بہت سے لوگ پاکستان کے لئے بھی مسائل کا حل ایران جیسے انقلاب کو قراردیتے ہیں اس حالیہ احتجاج میں عورتیں موت کے ڈر سے آزاد دکھائی دے رہی ہیں۔ تیل اور گیس کے ذخائر سے مالا مال ایران جس تنگ نظری کا انقلاب دوسرے ممالک کو بھی برآمد کرتا ہے، اسے دنیا کے امیر ممالک عالمی امن کے لئے خطرہ محسوس کر رہے ہیں، ایران میں شہری آزادیوں پر قدغن ہے، اخلاقیات نافذ کرنے والی اخلاقیات فورس کا کام عورتوں پرنظر رکھنا ہے کہ وہ کیسا لباس پہنتی ہیں کتنا میک اپ کرتی ہیں، کیسے چل رہی ہیں، حجاب پہنا یا نہیں، اس جبر اور گھٹن نےایران میں عورت کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے، حجاب نہ پہننے پر جیل کی سزا ہو جاتی ہے اگر کسی عورت نے تیز رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں یہ بھی مورالٹی فورس کے دائرہ اختیار میں ہے کہ وہ اسے جا کے روک کر پوچھے بلکہ اگر ضروری سمجھے تو اسے لباس تبدیل کرنے کے لئے گھر واپس بھی بھیج سکتی ہے، ایران 8 کروڑ 64 لاکھ کی آبادی کا ملک ہے جس میں نصف سے کچھ زیادہ آبادی عورتوں کی ہے، تقریباً 30 لاکھ سے زائد ایرانی بیرون ممالک میں آباد ہیں، تعلیم کے میدان میں عورتیں مردوں سے تعدادمیں بھی زیادہ ہیں اور قابلیت میں بھی لیکن ریاست (اسلامی) کام کرنے والی دنیا میں عورت کی موجودگی کو زیادہ پسند نہیں کرتی، اس لئے وہاں کام کاج کرنے والی عورتیں صرف 20 فیصد ہیں چونکہ اسلامی ریاست میں عمومی طور پر مذہبی حوالے سے عورت کا کردار چار دیواری میں رہ کر بچوں کی پیدائش اور پرورش کا ہے۔ 25 سے 40 سال کی عمر کی تمام عورتوں میں صرف 15 فیصد کام کرتی ہیں، شادی شدہ عورتوں کو کام ملنا بہت مشکل ہے، اسی لئے وہ معاشی حوالے سے مردوں پر انحصار کرتی ہیں اور مرد انہیں اپنی کمانڈ میں رکھتے ہیں، ان کے لئے طرح طرح کی پابندیاں تجویز کرتےہیں، ان کی آزادی کی حدود وقیود مقرر کرتے ہیں، مذہبی ریاست کوئی بھی ہو خواہ وہ مسیحی خیالات رکھتی ہو یا ہندوتوا کی ماننے والی ہو یا مسلمان ہو، وہاں بالآخر پابندیوں کا سارابوجھ عورت پر ہی گرتا ہے، ایران اس وقت اس کی واضح مثال ہے،جب احمدی نژاد صدر ایران تھے تو وہ اپنی زندگی توبہت سادہ اور مثالی طرز کی گزارتے تھے لیکن جو پالیسی سازی کرتے تھے اس میں تنگ نظری کو انہوں نے ہمیشہ عروج پر رکھا، اسی طرح ایران کی موجودہ حکومت ہے ایسے میں دنیا اگرانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھاتی ہے تو وہ بہت حد تک سیاسی مقاصد کے علاوہ حق بجانب دکھائی دیتی ہے، ایران میں عوام پر جاسوس مافیا طرز کا نظام مسلط ہے، عوام کی بہت نچلی سطح تک جاسوسی کی جاتی ہے اور مخبری کی صورت میں ایجنسیاں اور اسلامی گارڈ فوراً ایکشن لیتےہیں، یہی وجہ ہے کہ وہاں سر اٹھانے والی تحریکوں کو فوراً کچل دیا جاتاہے، اب دنیا اس پر آواز اٹھا رہی ہے۔