آمنہ ظفر
بچوں کے درمیان کھیل کھیل میں یا کسی اور وجہ سے لڑائی ہو جانا عام سی بات ہے۔ بچے اکثر کھیل بھی لڑائی والے کھیلتے ہیں یا پھر کھیلتے کھیلتے لڑ پڑتے ہیں۔ کچھ بچے چلبلے اور شوخ ہوتے ہیں اور اکثر نظر میں آجاتے ہیں، کچھ نہایت ہی بھولے بھالے، ابتداء بھی خودہی کرتے ہیں اور سزا دوسروں کو دلوا دیتے ہیں۔ مماکے لاڈلے مماکی حمایت میں جائز اور ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں، پپا کے نزدیک معتبر بچے ان کے آنے کا انتظار کرتے ہیں۔ ایک صورت یہ بھی ہے کہ بچوں کے جھگڑے میں دخل ہی نہ دیا جائے تاہم بعض والدین کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا ہے کہ وہ چپ رہ سکیں کبھی وہ غلط بچے کو ہی سزادے بیٹھتے ہیں یا پھر جھگڑنے والے دونوں ہی بچوں کی شامت آجاتی ہے۔
بچے آپس میں لڑتے ہیں، کچھ وقت ایک دوسرے سے خفا رہتے ہیں اور پھر خود ہی دوست بن جاتے ہیں۔ جبکہ ان کی وجہ سے آپس میں جھگڑنے والے مما اور پپا اور رشتہ داروں کے درمیان خفگی دیر تک برقرار رہتی ہے۔ بچوں کے درمیان جھگڑوں کے حوالے سے والدین مختلف تاثرات اور رائے رکھتے ہیں۔ ان مختلف آراء کا سبب بچوں کا صنفی فرق،عمر یا تعداد ہو سکتی ہے۔
جن گھرانوں میں لڑکیاں ہوں وہاں لڑائی کی نوعیت مختلف ہوتی ہے جب کہ لڑکے ،کھیل بھی رہے ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ لڑرہے ہیں بچوں میں لڑکی بڑی اور لڑکا چھوٹا یا اس کے برعکس صورت ہونے پر شکایتوں کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ پہلے اس نے مارا ہے ،یہ مجھے کھیلنے نہیں دیتا ہے، میرا کھلونا چھین لیا، یہ میری نقل اتاررہا ہے، اس نے میری گڑیا کے بال نوچ لیے ،یہ میرا کہنا نہیں مانتا۔
یہ اور اس سے ملتی جلتی شکایتیں عام ہیں، بچوں کی تعداد کی مناسبت سے ان کی شدت کم اور زیادہ ہو سکتی ہے۔ اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بہن بھائیوں میں ہونے والی یہ لڑائیاں بچوں کی آئندہ زندگی پر بھی اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آپس کی تکرار،جھگڑے اور ٹکراؤ سے بچوں کی انا، خود مختاری ،مستقبل کے دوستانہ روابطہ ،خاندانی ہم آہنگی متاثر ہو سکتی ہے۔
ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ مسائل در پیش ہونے پر نوجوان جس طرح ردعمل ظاہر کرتے ہیں یا ان سے نمٹتے ہیں ،اس کے پس منظر میں ان کا بچپن بھی کار فرما ہوتا ہے۔ بچوں کے جھگڑوں میں والدین مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں اگر وہ بچوں کے جذبات، ان کی شخصیت اور انداز کو سمجھ لیں۔ اس کے لیے خاموشی سے بچوں کی حرکات کا جائزہ لیا جائے۔ ان کے درمیان جھگڑوں میں ظاہری صورت دیکھ کر فیصلہ نہ کیا جائے۔ مظلوم نظر آنے والا بچہ بھی جھگڑے کا سبب ہو سکتاہے۔ ایک ماہر ایلزبتھ کیراری کہتی ہیں۔ ”بچوں کا مشاہدہ والدین کے لیے بے حد مفید نتیجہ رکھتا ہے۔ وہ ان کی عادات سے آگاہ ہو کر مناسب فیصلے کر سکتے ہیں۔
اس طرح انہیں ایسے بہت سے مواقع ملتے ہیں کہ وہ بچوں کی اچھی عادتوں کی تعریف کرکے انہیں مزید اچھا بنا سکتے ہیں۔ بہت سے والدین اپنی الجھنوں اور پریشانیوں کے باعث سخت رویہ اختیار کرلیتے ہیں۔ وہ سوچے سمجھے بغیر فیصلے کرکے ماحول کو خراب کرنے کے ساتھ بچوں کے درمیان ذاتی فاصلہ بھی بڑھاتے ہیں۔ بچوں کے معاملے میں والدین کو غیر جانبدار بن کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ یہ بچوں کے حق میں بھی بہتر ہے اور اس طرح والدین خود بھی بہتر محسوس کرسکتے ہیں۔بچوں کے ماں اور باپ ہونے کے ناطے خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کیجیے۔ بچے نہیں جانتے ہیں کہ والدین کس قدر پریشان ہیں ۔نہ ہی وہ آپ کی پریشانیاں حل کر سکتے ہیں۔
ہاں ان سے گھل مل کر والدین ذہنی کوفت اور بیزاری سے نجات پا سکتے ہیں۔ لڑجھگڑ کر بچے اپنی بات ڈھنگ سے نہیں کہہ پاتے ہیں بلکہ جذبات میں کچھ کا کچھ کہہ جاتے ہیں ۔ممکن ہے حقیقت اس سے بہت مختلف ہو۔ بچوں کے نزدیک انفرادی حق اور ملکیت کے احساس کی طرح مستقل مزاجی بھی اہم ہوتی ہے۔ ضروری ہے کہ والدین خود بھی اصولوں کو ترجیح دیں۔ ٹی وی دیکھنے کا وقت ویڈیو اور کمپیوٹر گیمز کی باری۔ پڑھنے کا وقت ،آرام کا وقت ،جو بات بھی طے ہواس پر عمل کیا جائے۔
بچوں کے مسائل حل کرنے کے لیے خود انہیں سوچنے اور فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے۔ پہلے یہ طے کیا جائے کہ مسئلہ کیا ہے؟اس کا حل کیا ہو سکتا ہے؟عام طور پر بچوں میں ٹی وی پروگرام دیکھنے پر تکرار ہوتی ہے، مثلاً ایک بچہ کارٹون دیکھنا چاہتا ہے تو دوسرا بچہ کھیل کا کوئی پروگرام یا کوئی فلم۔انہیں آپس میں کسی ایک چینل پر متفق ہونے دیں۔ بچوں کی تعداد دو سے زیادہ ہونے پر جمہوری طریقہ اپنایا جا سکتا ہے۔ اگر ایک پروگرام کسی اور وقت بھی نشر ہوتا ہوتو اسے پسند کرنے والے بچے کے ٹی وی دیکھنے کا وقت بدلا جا سکتا ہے۔ وہ اس دوران کمپیوٹر کی باری بھی لے جا سکتا ہے۔ اس طرح بچوں میں افہام وتفہیم کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے۔
بچوں کی تربیت میں ماں اور باپ دونوں ہی مثالی کردار ادا کرتے ہیں۔ بچوں کے جھگڑوں میں ماں عام طور پر ریفری کا کردار ادا کرتی ہے لیکن باپ کا مثبت رویہ بچوں میں تعاون کے جذبے کو ابھارتا ہے۔ تحقیق کے مطابق ایسے باپ جو اپنے بچوں سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں وہ اپنے طرز عمل سے بچوں میں باہمی تعاون کا جذبہ پروان چڑھاتے ہیں۔ والدین بچوں میں تعاون اور جدوجہد کے یقین کا احساس دلانے کے لیے ایسے کھیلوں کا انتظام کر سکتے ہیں جو سب مل کر کھیلیں۔ باری باری اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کریں اور جو بھی نتیجہ سامنے آئے اسے قبول کریں۔
ایسے کھیل کو ترجیح دی جائے جس میں مل جل کرکے بجائے کوشش پر انحصار ہو۔ ٹیم بنا کرکھیلے جانے والے گیمز(مثلاً کیرم ،لوڈووغیرہ)کو ترجیح دی جائے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بچے گھر کے بڑوں میں اپنا ئیت اور قربت محسوس کرکے خود بھی ان جذبوں پر مائل ہوتے ہیں۔ مشی گن یونیورسٹی سے وابستہ ماہر نفسیات برنیڈ اوولنگ کا کہنا ہے کہ ”بچوں کے سامنے اپنے جذبات کے بہتر انداز، معاملہ فہمی اور مصالحت کے ساتھ ایک دوسرے کی موجودگی میں خوش رہنے کا اظہار انہیں آئندہ زندگی کے لیے تیار کرتا ہے۔ایسے ماحول میں پروان چڑھنے والے بچے کا میاب زندگی گزار سکتے ہیں۔