• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ستمبر کا مہینہ ویسے بھی ستم گر کہلاتا ہے۔ یہ مہینہ جب بھی آتا ہے دل دکھی کر جاتا ہے۔تیئس ستمبر، 2010 ء امریکی عدالتی تاریخ کا وہ بھیانک دن تھا جب انصاف کے تمام تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے متعصب جج رچرڈ برمن نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 86برس کی سزا سنائی تھی۔یہ دن اس لئے ”یوم قتل انصاف“ ہے کہ مقدمہ کی سماعت کے دوران ڈاکٹر عافیہ کی جانب سے وکلاپر عدم اعتماد کو مسترد کردیا گیاتھا۔ ڈاکٹر عافیہ نے استدعا کی تھی کہ مجھے پانچ سال تک (بگرام، افغانستان میں خفیہ امریکی عقوبت خانے میں) لاپتہ رکھا گیا اور انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا گیااسلئے اس اہم واقعہ کو مقدمہ کی کارروائی کا حصہ بنایا جائے مگرعدالت نے اس اہم معاملہ میں انہیں بیان دینے کی اجازت نہیں دی۔ اس جج نے اپنے فیصلے میں تسلیم کیا کہ ڈاکٹر عافیہ، جو پاکستانی شہری ہیں، کا کسی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ۔ طرفہ تماشا یہ کہ2003 ء سے 2022ء تک، 20 سال کے طویل عرصہ کے دوران ظفراللہ خان جمالی (مرحوم)، چوہدری شجاعت، شوکت عزیز، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، عمران خان اور اب محمد شہباز شریف وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہیں، سب نے قوم کو سبز باغ دکھائے مگر کوئی بھی قومی غیرت اور پاکستانی شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے معاملے میں اپنی ایگزیکٹیو پاور (Executive Power) کو استعمال کرنے کی ہمت نہیں کرسکا۔ یہ پاکستانی قوم کی بدقسمتی ہے کہ ہمیں حکمران قومی غیرت سے عاری ملے مگر الحمدللہ،پاکستانی قوم عظیم ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنی والی اہم شخصیات نے عافیہ پر ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔پاکستان اوربیرون ممالک کے کئی نامور قانون دانوں نے 86 سالہ سزا کو ناانصافی پر مبنی قرار دیا ۔ ڈاکٹر عافیہ کو وطن واپس لانے کے معاملہ میں کراچی سے خیبر تک قوم ہمیشہ متحدرہی اور ہر اہم موقع پر اس کا اظہار بھی کرتی رہتی ہے۔ اسی تناظر میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے میرے نام خط لکھا جو کہ نذر قارئین ہیں۔

محترم و مکرم فاروق چوہان صاحب،

کالم نگار، روزنامہ جنگ

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،

امید ہے آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کا ہر موقع پر ساتھ دینے پر میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ اور آپ کے اہلخانہ پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرماتا رہے۔ میں کچھ اہم گزارشات آپ کے علم میں لانا چاہتی ہوں۔ ڈاکٹر عافیہ جس امریکی جیل ”ایف ایم سی، کارسویل“ (FMC Carswell - Federal Bureau of Prisons) میں جرم بے گناہی کی پاداش میں 86 سال کی قید تنہائی کی سزاکاٹ رہی ہیں، گزشتہ چند ماہ کے دوران اس جیل سے رہائی پانے والی متعدد خواتین نے مرد اہلکاروں کی جانب سے ”جبری جنسی زیادتی اور ہراسگی“ کے بارے میں انکشاف کئے ہیں۔ان واقعات کے بارے میں خبریں، تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر میں پریشان ہو گئی ہوں اور یہ محسوس کرتی ہوں کہ میری ہمشیرہ سخت عدم تحفظ کی حالت میں قید تنہائی کی اذیت کا شکار ہے۔ ان قیدی خواتین نے اپنی بے حرمتی کے واقعات بیان کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ وہ چاہتی ہیں کہ جیل کے مرد اہلکاروں کی جانب سے دیگر قیدی خواتین کی بے حرمتی کے واقعات کو روکا جاسکے۔مشہور امریکی ریسرچ اسکالر اسٹیفن لینڈ مین نے عافیہ کی سزا پر یہ بیان دیا تھا کہ ”عافیہ کو صرف مسلمان ہونے کی سزا دی گئی ہے“۔ امریکی وکیل اور تجزیہ نگار اسٹیون ڈاؤنز جس نے ہمیشہ عافیہ کی مخالفت میں لکھا امریکی عدالت کی نا انصافی اور عافیہ کے جرم بے گناہی کی سزا دیکھ کر چیخ اٹھا۔ڈاکٹر عافیہ کو30 مارچ، 2003 ء کو اسلام آباد جاتے ہوئے اس کے تین کمسن بچوں سمیت اغواکیا گیا تھا۔ جسے پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کر چکا ہے۔2008 ء میں بین الاقوامی میڈیا کے توسط سے پتہ چلا کہ عافیہ بگرام، افغانستان کے خفیہ امریکی عقوبت خانے میں قیدی نمبر 650 کے نام سے قید ہے اور اس پر انسانیت سوز تشدد کیا جارہا ہے۔ یہ پہلا موقع تھا جب عافیہ کو بآسانی پاکستان واپس لایا جاسکتا تھاکیونکہ وہ امریکی شہری نہیں تھی اور اس پر امریکی فوجیوں پر حملے کا جو جھوٹا الزام لگایا گیا تھاوہ جرم افغانستان کی سرزمین پر سرزد ہوا تھا اسلئے مقدمہ بھی افغانستان میں چلنا چاہئے تھا۔ اس کے بعد قدرت نے ہمارے حکمرانوں اور انتظامیہ کو یکے بعد دیگرے کئی مواقع عطا کئے جس سے فائدہ اٹھا کر عافیہ کو وطن واپس لایا جا سکتا تھا۔ 20 سال کی طویل جدوجہد کے دوران اسی سال 2 جولائی کو میری والدہ عصمت صدیقی وفات پا گئیں۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں انہوں نے کچھ باتوں کو بار بار دہرایا جیسے مجھے کہا کہ دبئی جا کر جنرل پرویز مشرف سے ملو اور اسے معاف کراؤ اور ان کو یہ کہنا کہ یہ نہ سمجھنا کہ مجھے اس حالت تک عافیہ کے غم نے پہنچایا ہے اگر عافیہ کا غم ہوتا تو میں اسی روز مرگئی ہوتی جب اسے تین کمسن بچوں سمیت اغواکیا گیا تھا مجھے تو غم اپنے حکمرانوں کی بے حسی کاہے اور وہ کہتی تھیں کہ میں مرجاؤں تو افسوس نہ کرنا کہ عافیہ سے مل نہ سکی۔ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ مومن کو تو کانٹا چبھنے پر بھی اجر ملتا، مجھے اور عافیہ کو اتنا بڑا غم برداشت کرنے پر کتنا اجر مل رہا ہوگا۔

آخر میں، میں یہی کہوں گی میرا اور میری ماں کا یہ ایمان ہے کہ ”جس رب نے عافیہ کو بدترین حالات میں 20 سال سے زندہ رکھاہوا ہے، میرا وہی رب عافیہ کو وطن واپس لائے گا“ ان شاء اللہ۔ ہم تو حجت پوری کررہے ہیں تاکہ کوئی روز محشر یہ عذر پیش نہ کر سکے کہ ہم تو بے خبر تھے۔ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر عافیہ کی رہائی کی صدا اپنے قلم و کالم کے توسط سے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے میں عافیہ کے مددگار بن جائیں،عافیہ کو آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔میں دعا گو ہوں کہ آپ کی یہ کاوش دنیا و آخرت میں عزت و افتخار اور اور اجر عظیم کا باعث بنے۔ آمین

والسلام… ڈاکٹر فوزیہ صدیقی

تازہ ترین