غالب نے کہا ! لکھتے ہے جنوں کی حکایات خونجکاں…… لیکن جس شاعر کے ہاتھ قلم ہوئے وہ امریکہ کا شاعر ایزرا پاؤنڈ تھا… اور یہ کوئی پرانے زمانے کی بات نہیں ہے۔ یہ ظلم دوسری جنگ عظیم کے دوران ہوا۔ امریکی حکومت ایزرا پاؤنڈ کے افکار برداشت نہ کرسکی اور اسے لوہے کے ایک پنجرے میں بند کردیا۔ اس سے پہلے دو افراد ایسے گزر چکے ہیں جنہیں جرأت افکار پر سولی دی گئی تھی ایک تو منصور حلاّج اور دوسری ایران کی شاعرہ قرۃ العین طاہرہ، علامہ اقبال نے اپنے تصوراتی سفرنامے ’’سیرافلاک میں ان دونوں سے ملاقات کی تھی۔
ایزرا پائونڈ (1885-1972)کا وطن امریکہ تھا۔ جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو ایزرا پائونڈ اٹلی میں تھا۔ پولینڈ کے نزدیک یہ سود خوروں کی جنگ تھی۔ جنگ سے حق اور سچائی کا خون ہو رہا تھا۔ اس نے جنگ مخالف تقریریں شروع کردیں۔ 1945ء میں جب جنگ ختم ہوئی تو امریکی فوج نے اسے قید کرلیا اور لوہے کے پنجرے میں بند کردیا۔ جس کے اطراف خار دار تار بچھا دی۔ اس وقت پاؤنڈ کی عمر ساٹھ سال تھی بعد میں اسے امریکہ لاکر ایک پاگل خانے میں داخل کردیا گیا اور تہتر برس کی عمر تک وہیں رکھا۔
پائونڈ ایک جھگڑالو اور جھکی آدمی تھا۔73برس کی عمر تک پاگل خانے میں رہا۔ 1958ء میں شاعر رابرٹ فراسٹ کی درخواست پر اسے رہا کیاگیا۔ ٹی ایس ایلیٹ نے کہا پائونڈ نے شاعری میں انقلاب برپا کردیا ہے۔ جیمز جیوالس نے کہا ہم سب اس کے ممنون احسان ہیں۔ ھمنگوے نے بھی اس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ ٹی ایس ایلیٹ نے کہا ایک بار میں نے اسے اپنی ایک نظم پڑھنے کے لئے دی۔ اس نے نظم کو بغور پڑھا اس کی تصحیح کی۔
آج اس نظم (دی ویسٹ لینڈ) کو بیسویں صدی کی بہترین نظم سمجھا جاتا ہے۔ پائونڈ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے انگریزی ادب کو وکٹورین عہد سے نکال کر جدید عہد میں داخل کر دیا اور یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔ پونڈ اپنی نوجوانی میں یورپ آیا تھا۔ جنگ عظیم کے خلاف ہونے کی وجہ سے اسے گرفتار کرکے ایک پاگل یا غدار کی حیثیت سے امریکہ لایا گیا۔ 1958ء میں پاگل خانے سے رہائی کے بعد وہ دوبارہ اٹلی آگیا جہاں فلورنس کے ایک ہسپتال میں کچھ عرصے بیمار رہ کر مر گیا۔
پاؤنڈ کے زمانے میں امریکی شاعری پر برطانوی شاعری کا بہت اثر تھا بہت سارے امریکی دانشور چاہتے تھے کہ ان کا اپنا ادب ہو جو برطانوی تہذیب کے سحر میں گرفتار تھے۔ لیکن یہ کارنامہ عظیم دیا۔ ایزراپائونڈ نے یونان اٹلی اور فرانس کا ادب چھان مارا نئے نئے سانچوں اور ٹیکنیک میں سرگرداں رہا۔ ٹی ایس ایلیٹ نے کہا بعض شاعر پرانی تکنیک کی پیروی کرتے ہیں۔ بعض اسے بڑھاوا دیتے ہیں لیکن بعض شاعر نئی تکنیک ایجاد کرتے ہیں۔ یہ کام پونڈ نے کیا ہے پائونڈ کی اوریجنلٹی قدیم شاعری کا منطقی ارتقاء ہے۔
ایزرا پائونڈ تہذیب اور مزاج کے اعتبار سے سچا امریکی ہے۔ یورپ اور مشرقی تہذیبوں کے استفادے نے اسے جدیدیت کی تحریک کا بانی بنا دیا، پاؤنڈ کو جدید برطانوی اور امریکی ادب سے جدا نہیں کیا جا سکتا وہ پاؤنڈ جسے غدار اور پاگل قراردیا گیا تھا، آج ادب میں ایک بہت بڑا نام ہے۔
آئیے اب ہم ایزرا پاؤنڈ کے افکار سے کچھ آگاہی حاصل کرتے ہیں وہ لکھتا ہے کہ اچھا فن (آرٹ) ایک رحمت ہے۔ لیکن بڑا آرٹ ایک جرم یہ بحث تو ہوتی رہتی ہے کہ اچھے اور برے فن میں امتیاز سے کیا جائے۔کیا فنون کا مقصد اخلاقی اصلاح یا معاشی ترقی ہو سکتا ہے؟ آرٹ ہمیں انسان کی فطرت اورفکر کرنے والی سرشت کے بارے میں آگاہی دیتا ہے۔
فنون سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ کن کن باتوں میں مختلف شاعر ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ تمام انسانوں کو ایک ہی قسم کی چیزوں کی خواہش نہیں ہوتی، کیا ہر فرد کے ذہن کا ایک ٹکڑا دے دیا جائے تو معاشرے کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ خراب فن غیر صحیح فن ہوتا ہے۔ حسن کیا ہے جب آپ بادِ بہارکے ایک جھونکے سے لطف اندوز ہو جائیں یا غالب کے ایک شعر سے دونوں صورتوں میں ایک لطیف کشش آپ کو مسحور کر لیتی ہے۔
فن نے ہمیں بتایا ہے کہ آدمی کیا ہے۔ فنون ہمیں اخلاقیات کا مواد فراہم کرتے ہیں۔ سنجیدہ فنکار ایک سائنسی دماغ کا مالک ہوتا ہے۔
نظریہ ساز لوگ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ آپ ان کے نظریات کے قائل ہو جائیں اور انہیں مانیں، جبکہ فنکار چاہتا ہے کہ آپ اس کے فن پارے سے لطف اندوز ہوں اسے سراہیں۔ غالب نے کہا ہمارے شعر میں اب صرف دل لگی کے اسد غالب کو دکھ تھا کہ ان کے اشعار کو سراہا نہیں جا رہا۔ پائونڈ نے کہا سچے فنکار کو داد کی تمنا نہیں رکھنا چاہئے۔
بعض معاشرے ، سچے فنکار اور نقلی فنکار میں تمیز نہیں کر پاتے۔ ایسے میں نقلی فنکار بہت سے فائدے حاصل کر لیتے ہیں اور سچے فنکار منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں اگر قاری خود اعلیٰ ذوق کا مالک ہو تو سچے اور جھوٹے فنکار میں امتیاز کر لیتا ہے سچا فنکار ہمیں انسان کی فطرت اور اس کے دل سے گزرنے والے خیالات کے متعلق آگاہی دیتا ہے۔
بڑا شاعر بننا اپنی مرضی کی بات نہیں۔ ہزاروں لوگ یہ کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن کامیاب نہیں ہو پاتے بڑے فنکار کا پتہ اس کی تصنیف سے چلتا ہے عمدہ تصنیف وہ ہوتی ہے جس کے ایک ایک لفظ پر فنکار کا کنٹرول ہو۔ شاعر کا فرض ہے کہ وہ اپنی بات وضاحت کے ساتھ کم سے کم الفاظ میں بیان کردے۔ بہت سے لوگوں نے کم عمری میں اعلیٰ شاعری کرلی۔ اس میں غالب اور کیٹس کا نام لیا جا سکتا ہے(دونوں ہم عصر تھے) نظم اور نثر میں امتیاز نہیں کرنا چاہئے۔ نظم میں کوئی چیز ذہانت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ نثر میں ذہانت کو غور کرنے کے لئے ایک موضوع مل جاتا ہے۔
پائونڈ نے پرانے فلسفی لونجائنس کا حوالہ دیا جس کا خیال تھا کہ ادب کا پہلا اور آخری مقصد مسرت پہنچانا ہوتا ہے۔ شاعر کے کلام کی پہلی خوبی عظمت خیال ہے۔ دوسرا مخرج اعلیٰ اور نفس تراکیب ہے یعنی مؤثر الفاظ کا استعمال، غالب نے یونہی نہیں کہا تھا کہ آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں۔ یا غالب کا ہے اندازِ بیان اور غالب کو پڑھنے والے آج بھی ان کے کلام سے مسرت حاصل کرتے ہیں۔(استفادہ جمیل جالبی)
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔
تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی