سکھر میں گزشتہ 9 سے 10 ماہ کے دوران پولیس افسران خاص طور پر تھانہ انچارج مکمل آپریشنل دکھائی دے رہے ہیں، یعنی کہ کام زیادہ آرام کم، اس فارمولے پر آپریشنل کمانڈر ایس ایس پی سنگھار ملک خود بھی عمل کررہے ہیں، تو انہیں افسران کو زیادہ کہنا نہیں پڑتا، کیوں کہ پولیس افسران اور اہل کار ہمیشہ اپنے کمانڈر کو فالو کرتے ہیں اور تھانوں میں ڈیوٹی پر تعینات افسران کو یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں صاحب نہ آجائے۔
اس عمل سے آپ اسٹریٹ کرائم کو ختم تو نہیں کرسکتے، لیکن بڑی حد تک کنٹرول کرسکتے ہیں۔ سکھر پولیس کے کمانڈرکی سربراہی میں پولیس نے اسٹریٹ کرائم میں ملوث ایک گروہ کا سراغ لگا کر سرغنہ سمیت تین ملزمان کو گرفتار کرکے ان کے قبضے سے لاکھوں روپے مالیت کی 25 مسروقہ موٹر سائیکلیں اور 18 موبائل فون برآمد کرلیے ہیں، برآمد کی گئی مسروقہ گاڑیاں اور موبائل فون اصل مالکان کے حوالے کی گئیں، تو اس موقع پر ان کی خُوشی کی انتہا نہیں تھی ،کیوں کہ یہ تمام لوگ مایوس ہوچکے تھے کہ اب انہیں موٹر سائیکل اور موبائل فون کہاں ملیں گے، لیکن پولیس کی کوششوں اور ایس ایس پی کی ذاتی دل چسپی سے تمام مسروقہ سامان قانونی کارروائی پُوری کرکے لوگوں کے حوالے کیا گیا۔
اگر ہم بات کریں موٹر سائیکل چھینے یا خدانخواستہ کسی موٹر سائیکل سوار کو نقصان پہنچے، تو پولیس کچھ حرکت میں آتی ہے، لیکن موٹر سائیکل اور موبائل فون کا چوری ہوجانا، پولیس کے لیے ایسا ہی ہے ، جیسے کسی بچے کا کوئی کھلونا گم ہوگیا ہو ، یہی وجہ ہے کہ موبائل فون چوری یا چھینے جانے کے اکثر واقعات پولیس میں رپورٹ ہی نہیں ہوتے، کیوں کہ موٹر سائیکل یا موبائل فون خاص طور پر موٹر سائیکل چوری کی واردات کا متعلقہ تھانے کا ایس ایچ او تو دُور کی بات ہے۔
ہیڈ محرر بھی نوٹس نہیں لیتا اور صرف کچی رپورٹ درج کرلی جاتی ہے، حالاں کہ انہیں یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ جس کی موٹر سائیکل چوری ہوئی ہے، وہ غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے، کسی نے پُورا سال پیسے جمع کرکے کسی نے قسطوں پر تو کسی نے گھر کا کوئی چھوٹا موٹا زیور، جو اس کا کُل سرمایہ ہو، بیچ کر موٹر سائیکل لی ہوگی ، تاکہ وہ بچوں کو اسکول کالج لانے لے جانے ، کوئی شخص کام کاج پر جانے، کوئی فیملی کے ساتھ جانے غرض کہ وہ اس مہنگائی کے دور میں موٹر سائیکل پر روزانہ اپنے متعدد کام باآسانی کرلیتا ہے، لیکن اگراس کی موٹر سائیکل اسپتال گھر کالج اسکول دُکان کے پاس یا کسی اور مقام سے چُوری ہوجائے، تو اس شخص پر کیا بیتے گی!! اس بات کا اندازہ اکثر تھانہ انچارج اور ہیڈ محرر کو نہیں ہوتا اور وہ کسی غریب اور متوسط طبقے کے اس شخص کے ساتھ ہونے والی اس ظلم کی داستان پر بھی کچھ نہیں ہوکرتے، لیکن متعدد ایس ایس پی سطح کے افسران ایسے بھی ہیں، جو اس چوری کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔
سکھر میں جو موٹر سائیکل گروہ پکڑا گیا ہے، اس حوالے سے ذرائع کے مطابق ایک محنت کشں متاثرہ شخص نے ایس ایس پی سکھر سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ اس نے بہت محنت مزدوری کے بعد رقم جمع کرکے بچوں کو اسکول چھوڑنے اور اہل خانہ کے استعمال کے لیے موٹر سائیکل خریدی تھی، لیکن افسوس کہ میری موٹر سائیکل میرے گھر کے باہر سے چوری ہوگئی، جس پر ایس ایس پی سکھر نے مذکورہ محنت کشں شخص سے تمام تر معلومات حاصل کیں اوراس متاثرہ محنت کش شخص کو تسلی دی کہ اگر آپ کی موٹر سائیکل برآمد نہ ہوئی تو آپ پریشان نہ ہوں، میں آپ کو موٹر سائیکل لے کر دوں گا، جس پر متاثرہ شخص پولیس کمانڈر کو دعائیں دیتا ہوا دفتر سے اس امید کے ساتھ چلا گیا کہ اسے اب موٹر سائیکل مل جائے گی، جس کے بعد ایس ایس پی سکھرنے چوری والی موٹر سائیکل کا سراغ لگانے اور موٹر سائیکل برآمد کرانے کے لیے فوری طور پر ایک خصوصی پولیس پارٹی تشکیل دی، جس کی سربراہی ڈی ایس پی سی آئی اے عبدالستار پھل نے کی پولیس پارٹی نے ملزمان کی تلاش اور موٹر سائیکل کی برآمدگی کے لیے کوششیں کرتے ہوئے مختلف علاقوں میں اپنا نیٹ ورک پھیلایا، تاکہ اصل ملزمان تک پہنچا جاسکے، اس دوران پولیس نے ایک مشتبہ شخص کو حراست میں لیا، جس نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ موٹر سائیکل اس نے چوری کے بعد آگے کسی دوسرے شخص کو فروخت کردی ہے۔
ملزم کے اس اہم انکشاف اور ملزم کی نشاندی کے بعد پولیس نے کام یاب کارروائی کرتے ہوئے دوسرے ملزم کو بھی گرفتار کرلیا، جب موٹر سائیکل چوری میں ملوث گروہ کے سرغنہ کو گرفتار کیا، تو اس کی نشاندہی پر لاکھوں روپے مالیت کی 25 موٹر سائیکلیں اور 18 موبائل فون برآمد کیے گئے، جس بعد پولیس نے برآمد کیے گئے موبائل فون اور موٹر سائیکلیں اصل مالکان کو بلوا کر ان کے حوالے کیں۔ یہ سکھر پولیس کی یہ بڑی کام یابی تھی، جس میں پولیس نے لاکھوں روپے مالیت کا مسروقہ سامان برآمد کیا، ایس ایس پی سکھر نے بتایا کہ جُرم چھوٹا ہو یا بڑا، وہ جرم ہی ہوتا ہے۔ خاص طور پر موٹر سائیکل موبائل فون چوری کی وارداتیں جن میں زیادہ تر غریب اور متوسط طبقے کے لوگ متاثر ہوتے ہیں، کیوں کہ کسی ایک گھرانے کی موٹر سائیکل ان کی معمول کی زندگی کو آسان بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
اس لیےلوگ ادھار قسطوں پر یا اکثر ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں، جو روزانہ کے بجٹ سے کچھ پیسے بچا کر ایک دوسال تک رقم جمع کرتے ہیں اور پھر نئی یا استعمال شدہ موٹر سائیکل خرید کر لاتے ہیں، جب موٹر سائیکل خرید کر گھرانے کا سربراہ گھر پہنچتا ہے، تو سارا گھرانا خاص طور پر خواتین بچے زیادہ خوش ہوتے ہیں کہ ان کے گھر میں موٹرسائیکل آنے سے آسانی ہوجائے گی۔ اسکول کالج یونی ورسٹی یا کام کاج اور رشتے داروں میں آنے جانے یا چھٹی کے دن تفریح کرنے سمیت تمام تر خواب جو موٹرسائیکل خریدنے سے پہلے دیکھے ہوتے ہیں۔ وہ پورے ہوتے ہی یہ لوگ اپنی موٹر سائیکل پر معمول کی زندگی جو بہ ظاہر کچھ آسان ہو جاتی ہے۔
ایسے میں آپ اندازہ لگائیں کہ اگر کسی کی موٹر سائیکل چوری ہوجائے یا چھین لی جائے تو اس ایک شخص پر نہیں، بلکہ اس کے پُورے گھر پر کیا گزرے گی اس کے اہل خانہ بچے کتنے افسردہ اور پریشان ہوں گے، مجھے اس چیز کا اندازہ ہے اور یہ بات کسی حد تک دُرست ہے کہ اکثر تھانے کا انچارج اور عملہ اس واردات کو اتنا سنجیدہ نہیں لیتا، لیکن سکھر میں اب ایسا نہیں ہے اور جب تک میں ہوں ایسا ہونے نہیں دُوں گا۔ میرے پاس کوئی شخص اگر آتا ہے کہ اس کی موٹرسائیکل چوری ہوگئی ہے، تو میں سنجیدگی سے اس کا نوٹس لیتا ہوں، کیوں کہ مجھے اندازہ ہے اور کئی واقعات ایسے سامنے آئے ہیں کہ لوگ کس مشکل سے موٹر سائیکل خریدتے ہیں اور اگر وہ چوری ہوجائے تو ان کے دل پر کیا گزرتی ہے!! یہی وجہ ہے کہ میں نے اس طرح کے واقعات سمیت اسٹریٹ کرائم کی روک تھام کو یقینی بنانے کے لیے جو حکمت عملی مرتب کی ہے، اس کے مثبت نتائج ملے ہیں، میں پولیس افسران خاص طور پر تھانہ انچارجز کو بھی یہی تنبیہ کرتا ہوں اور انہیں احساس دلاتا ہوں کہ سوچو، جس غریب کی موٹر سائیکل چوری ہوگی، وہ کتنا پریشان ہوگا اور پولیس کے بارے میں کیا سوچے گا،اس لیے جرائم سمیت ان وارداتوں کی مکمل سرکوبی کی جائے اور اگر کوئی متاثرہ شخص تھانے آئے تو اسے بھرپور تسلی دی جائے اور اس کی چوری برآمد کی جائے، تو یقین کریں اس متاثرہ شخص اور اس اس بچوں کے دل سے جو دُعا نکلے گی۔ وہ آپ نہیں جانتے اس لیے اس طرح کے جرائم کی مکمل سرکوبی انتہائی ضروری ہے۔
سکھر میں پولیس جہاں ایک جانب ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ عناصر منشیات فروشوں معاشرتی برائیوں میں ملوث ملزمان کے خلاف کریک ڈاون میں مصروف عمل ہے، تو وہ ہماری بھرپور توجہ اسٹریٹ کرائم سمیت ان وارداتوں کی روک تھام ہے، جس میں پولیس کو تاجر برادری اور عوام کا بھرپور تعاون حاصل ہے اور پولیس نے اس ایک گینگ کے علاوہ موٹر سائیکل چوری اور چھینے کی وارداتوں میں ملوث متعدد گینگ کا قلع قمع کیا ہے اور چند ماہ میں پولیس نے مختلف کارروائیوں میں 33 ملزمان کو گرفتار کرکے ان کے قبضے سے 128 موٹر سائیکلیں اور 103 موبائل فون برآمد کرکے اصل مالکان کے حوالے کئے۔
ایس ایس پی سنگھار ملک کا کہنا ہے کہ شہر سمیت ضلع بھر میں مثالی اور مستحکم امن و امان کے لئے پولیس کے افسران اور جوان ہمہ وقت مصروف عمل ہیں عوام کا بھرپور تعاون پولیس کے ساتھ ہے ضلع میں ڈاکووں جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی اسٹریٹ کرائم کی روک تھام کے ساتھ منشیات اور معاشرتی برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔