سائنس دان آئن اسٹائن کی کتاب ’’قدرتی علوم عوام کے لیے‘‘ سے بے حد متاثر تھی۔ اس کتاب کا مقصد سائنس کی ترویج اور شہرت تھا اور اس کے پہلے ہی صفحے پر بجلی اور روشنی کی حیرت انگیز رفتار کا بیان تھا، وہ سوچنے لگا کہ اگر وہ ایک روشنی کی موج پر سفر کر سکتا ہے تو یہ دنیا کیسی نظر آتی؟ اگر انسان افواج نور کے ساتھ سفر کر سکتا تو وہ قطعی محسوس نہ کر سکتا کہ وہ روشنی کی لہر پر سوار ہے، سطح موج پر سفر کرنے والا اس کی موجودگی کو ہی فراموش کر بیٹھتا، کیوں کہ وہ خود اسی رفتار سے سفر کر رہا ہوتا، روشنی کی رفتار سے سفر ایک عجوبے کی حیثیت رکھتا ہے، آئن اسٹائن جیسے جیسے ان سوالات کے بارے میں سوچتا گیا اتنا ہی وہ الجھتا گیا، اگر انسان روشنی کی رفتار سے سفر کرتا تو ہر جانب تناقضات (پیراڈوکسز) کی ایک بھیڑ لگ جاتی چند تصورات ایسے تھے جن کو مناسب فکری دلائل کے بغیر ہی قبول کر لیا گیا تھا۔
آئن اسٹائن نے انتہائی سہل سوالات کا ایک سلسلہ شروع کیا، یہ ایسے سوالات تھے جنھیں صدیوں قبل ہی پوچھا جانا چاہیے تھا، آئن اسٹائن نے ان اصولوں کو خصوصی نظریہ اضافیت میں مجتمع کر دیا۔ روشنی خواہ کسی متحرک یا ساکت جسم سے خارج ہو یا منعکس ہو، اس کی شرح رفتار پر کوئی فرق نہیں ہوتا۔
لہٰذا پہلا اصول یہ ہوا ’’نوری رفتار میں کسی ہم سفر جسم کی رفتار کا اضافہ نہیں ہوتا، اسی طرح دوسرا اصول یہ ہوا کہ ،کوئی مادی جسم روشنی سے زیادہ رفتار سے سفر نہیں کر سکتا‘‘ طبیعات میں کہیں یہ پابندی نہیں ہے کہ روشنی کی رفتار سے انتہائی قریب رفتار پر سفر ممکن نہیں، نوری رفتار سے 99.9 فی صد قریب سفر کرنے میں کوئی قباحت نہیں لیکن آپ جتنا مرضی زور لگا لیں وہ آخری اعشاری نکتہ عبور کرنا ممکن نہیں جو نوری رفتار سے سفر کرنے کا مژدہ ہو گا۔ اگر دنیا میں منطقی استقلال کی بقاء لازمی ہے تو یہ بھی ضروری ہے کہ کائناتی رفتار کی حد مقرر ہے ورنہ تو کسی بھی رفتار سے سفر کرنا ممکن ہوتا۔
بے شک اضافیت انسان کے دائرہ اختیار کی کچھ حدود مقرر کرتی ہے لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ کائنات انسانی عزائم کے مطابق خود کو ہم آہنگ کرے۔ خصوصی اضافیت کے اصول سے پتا چلتاہے کہ دراصل ستاروں تک پہنچنے کا ایک ممکنہ ذریعہ یعنی مافوق النور رفتار سے سفر کرنے والا جہاز، ہم کبھی نہیں بنا سکتے، کیوں کہ اس رفتار سے سفر پر وقت بالکل تھم جاتا ہے۔خلاء اور وقت کا تانا بانا ایک دوسرے سے بنا ہوا ہے جب ہم خلاء میں جھانکتے ہیں تو ہم وقت میں بھی جھانکتے ہیں، روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے اور عصر حاضر میں نو دریافت شدہ ’’گاڈ پارٹیکل ‘‘کی رفتار تو روشنی سے بھی تیز ترین ہے۔
خلاء بے حد سنسان ہے اور ستارے ایک دوسرے سے بہت فاصلے پر واقع ہیں۔ نوری رفتار سے سفر کرنے پر وقت چونکہ سست ہو جاتا ہے ۔چنانچہ خصوصی اضافیت ہمیں ستاروں تک پہنچنے کا ایک ذریعہ فراہم کرتی ہے لیکن یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا عملی تعمیرات کے نقطہ نگاہ سے نوری رفتار کے قریب سفر ممکن ہے؟ کیا اس مرحلے سے گزرنے کے لیے کوئی انتہائی زیادہ تیز رفتار خلائی جہاز بنانا قابل عمل ہوگا؟ فی الحال زمین سے پرواز کرنے والے تیز ترین خلائی جہاز حال ہی میں روشنی کی ایک بٹا دس ہزار وہی (1/10000) رفتار سے خلاء میں سفر کر چکے ہیں۔
اس رفتار سے ان خلائی جہازوں کو قریب ترین ستارے اقرب قنطارس تک پہنچنے کے لیے چالیس ہزار سال درکار ہوں گے، تو کیا ہم مناسب مدت میں سورج سے قریب ترین ستارے تک پہنچنے کا بھی تصور کر سکتے ہیں؟ کیا ہم روشنی کی رفتار یا ’’گاڈ پارٹیکل‘‘ کی رفتار کی برابری کرنے کا کوئی طریقہ نکال سکتے ہیں؟ آخر نوری رفتار اور ’’گاڈ پارٹیکل ‘‘کی رفتار میں ایسی کیا خاص بات ہے۔ کیا ہم کبھی اس سے بھی تیز سفر کرنے کے قابل ہو سکیں گے؟ شاید کئی صدیوں بعد ایسے حیرت انگیز سوالات کے ر تسلی بخش جوابات سامنے آئیں۔
یہ کائنات بہت بڑی اور وسیع و عریض ہے۔ اس کی حدود و قیود کا احاطہ انسانی عقل و فکر سے ماوراء و بالاتر ہے۔ یہ مسلسل پھیل رہی ہے، جس طرح اس کائنات کے کنارے سے ہم ناواقف ہیں، ویسے ہی ایٹم میں پوشیدہ وسیع و عریض نظام اور اس سے متعلق حیرت انگیز جدید دریافتوں نے بھی انسانی فکر کو ششدر اور عقل کو ورطہء حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ اس کائنات کا تو مہین سے مہین ذرّہ بھی اپنی ذات میں کامل و مکمل کائنات کا منہ بولتا ثبوت و شاہکار ہے۔ یہ کائنات عجائبات سائنس و قدرت کا ناختم ہونے والا انتہائی پراسرار سلسلہ ہے۔
سائنسدان صدیوں تجربات کرنے کے بعد رواں صدی میں بتا دیا کہ ’’کائنات کے ذرّے ذرّے میں اس کا تخلیق کار موجود ہے‘‘۔ کائنات کی ہر چیز ایٹموں سے مل کر بنی ہے۔ اور ہر ایٹم کا ایک الگ خاندان ہوتا ہے۔ ایٹم کا خاندان الیکٹران ، پروٹان ، نیوٹرون ان سے مل کر بنا ہوتا ہے۔ ہر چیز کے ایٹموں کا خاندان اپنے مختلف تعداد والے افراد (الیکٹران ، پروٹان ، نیوٹرون) پر مشتمل ہوتا ہے۔ سائنس نے پہلے ثابت کیا کہ ایٹم کائنات کا سب سے چھوٹا ذرّہ ہے۔ پھر سائنسدانوں نے یہ بھی معلوم کرلیا کہ ایٹم کے خاندان کو جوڑے رکھنے والا بھی ایک ذرّہ ہوتا ہے۔
ایک پراسرار ذرّہ جس سے ہر ایٹم کی تخلیق ہوئی ہے ۔یہی کائنات کی تخلیق کا باعث ہے۔ اس کا وزن اندازاً ہائیڈروجن گیس کے ایٹم سے، جو دنیا کا سب سے ہلکا ایٹم ہے، 130 گنا کم ہے۔ اس ذرّے کو پہلے ’’ہیگز بوسن‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ ایڈن برگ میں واقع برطانیہ کی سکاٹ لینڈ یونیورسٹی کے سائنس دان ہگز بوسن نے 1964ء میں ایک پراسرار جوہری ذرّے کا نظریہ پیش کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ ایک نادیدہ قوت کررہی ہے۔
توانائی اس وقت تک مادّے کی شکل اختیار نہیں کرسکتی جب تک اسے ایک نادیدہ قوت کی تائید حاصل نہ ہو۔ اس نامعلوم قوت کو ہگز کے نام پر ہگز بوسن کہا جاتا ہے۔ ہگز بوسن کی عظیم فکر نے دنیا کو بدل ڈالا۔ تخلیق کائنات کے ماڈل کی جدید عمارت ان کےنظریے پر کھڑی ہے۔ بعدازاں اسی موضوع پر ایک اور سائنس دان لیون لیڈرمن کی کتاب ’’گاڈ پارٹیکل‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئی۔
پراسرار جوہری ذرّے کے نظریے کے خالق پروفیسر ہگز بوسن نے اسے ایک آسان مثال سے واضح کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پراسرار ذرّہ کسی اہم پرکشش فلمی، سماجی یا سیاسی شخصیت کی مانندہوتا ہے۔ جسے دیکھتے ہی لوگ سب کچھ چھوڑ کر اس کی جانب کھینچے چلے جاتے ہیں۔ جوہری ذرّات کے ہجوم کی نوعیت اور تعداد کے لحاظ سے مختلف نوعیت کے ایٹم وجود میں آتے ہیں۔ اور پھر وہ کائنات بناتے ہیں۔
سائنس دان اس نظریے پر متفق ہیں کہ کائنات ایک بہت بڑے دھماکے بگ بینگ کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ بگ بینگ سے قبل ایک بہت بڑا گولا موجود تھا جو اپنی بے پناہ اندرونی قوت کے باعث پھٹ کر بکھر گیا۔ گولہ پھٹنے سے لامحدود مقدار میں توانائی بہہ نکلی اور تیزی سے پھیلنے لگی۔
بگ بینگ کے بعد ایک سیکنڈ کے ایک ارب ویں حصے میں ’’خدائی ذرہ‘‘ وجود میں آگیا اور اس نے توانائی کے بے کراں سیلاب کو اپنی جانب کھینچناشروع کیا۔ کائنات میں مادّے کی عام اشکال ٹھوس، مائع اور گیس ہیں۔ اگر ’’خدائی ذرّہ ‘‘نہ ہوتا تو اس کائنات میں ستاروں، سیاروں اور کہکشاؤں اور ان پر آباد دنیاؤں کی بجائے خلا میں صرف توانائی کی لہریں ہی ہوتیں۔ یہ ایٹموں کو جوڑنے والا اور ایٹموں سے کائنات کو تخلیق کرنے والا پراسرار ذرہ ہی کائنات کو تخلیق کرنے کا سبب ہے۔ بنیادی طور پر توانائی کی دو اقسام ہیں، ایک وہ جو ’’خدائی ذرّے‘‘ کی کشش قبول کرتی ہے اور دوسری وہ جس پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت کائنات میں بکھری ہوئی توانائی کا زیادہ تر حصہ وہی ہے جسے یہ ذرّہ اپنی جانب کھینچ نہیں سکا تھا۔ خدائی ذرّہ اتنا چھوٹا ہے کہ اسے دیکھنے کے لئے قیامت تک کوئی خوردبین ایجاد نہیں ہوسکتی !!کوئی بھی سائنسی نظریہ وجود میں آنے کے بعد لیبارٹری میں اس کی سچائی کی تصدیق کی جاتی ہے۔ ہگز بوسن کے نظریے کی تصدیق کا کام اگرچہ پچھلی صدی کے آخر میں شروع ہوگیا تھا۔ اس ذرّے کے نظریے کی تصدیق کے لیے دنیا کی سب سے مہنگی اور سب سے بڑی تجربہ گاہ 10 ارب ڈالر کی لاگت سے فرانس اور سوئٹزر لینڈ کی سرحد پر زیر زمین قائم کی گئ تھی۔ جسے’’ لارج ہائیڈرون کولائیڈر ‘‘یا ایل ایچ سی کہا جاتا ہے۔
یہ لیبارٹری تقربیاً 27 کلومیٹر لمبی سرنگ میں واقع ہے اور زمین کی سطح سے اس کی گہرائی 574 فٹ ہے۔ یہاں کام کا آغاز ستمبر 2008ء میں ہوا تھا اور اس لبیارٹری میں کیے جانے والے تجربات میں دنیا کے ایک سو سے زیادہ ممالک کے سائنس دان کام کرتے رہے ہیں، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ دوسری لیبارٹری امریکی شہر شکاگو کے قریب واقع مغربی لیب ہے،جس کی لمبائی تقریباً ساڑہے چھ کلومیٹر ہے اور یہاں تحقیق کا آغاز ایل ایچ سی سے پہلے ہوا تھا۔
سرنگ کے دونوں سروں پر نصب طاقت ور آلات کے ذریعے جوہری ذرّات کی لہریں اس انداز میں بھیجی گئیں کہ وہ اتنی قوت سے ایک دوسرے سے ٹکرائیں ان کے جوہری ذرّات ٹوٹ کر بکھر جائیں اور وہی شکل اختیار کرلیں جو اربوں سال پہلے بگ بینگ کے وقت تھی۔ جوہری ذرّوں کے ٹکراؤ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ڈیٹا کو ہزاروں کمپیوٹروں کے ذریعےپراسس کیا گیا۔ سائنس دانوں کی دو الگ الگ بڑی ٹیموں نے علیحدہ علیحدہ تجربات کیے اوران کے نتائج کو باربار پرکھا گیا۔ خدائی ذرّے کی موجودگی کے شواہد اکھٹےکرنے کے لیے سائنس دانوں کی ٹیموں نے اٹلس اور سی ایم ایس کے نام سے الگ الگ تجربات کیے۔
برطانیہ کی لیور پول یونیورسٹی میں پارٹیکل فزکس کی ایک سائنس دان ڈاکٹر تارا شیرس کا کہنا ہے کہ گارڈ پارٹیکل کی تصدیق یہ ثابت کرتی ہے کہ ہم نے کائنات کی تخلیق کا راز پالیا ہے، اس عظیم دریافت نے دنیا کے بارے میں بنیادی خیالات کا دہارا ہی بدل دیا اور طبیعیات کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کردیا۔ اسی تجربہ گاہ نے روشنی سے بھی تیز رفتار ذرّے کو دریافت کر کے آئن سٹائن کے اس شہرہ آفاق نظریے کو غلط ثابت کر دیا کہ اس کائنات کی کوئی چیز روشنی کی رفتار کو نہیں پہنچ سکتی۔ تخلیق کائنات کے ماڈل کی یہ جدید عمارت درحقیقت کائناتی اسرار کا ایک عظیم سلسلہ ہے۔