• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ کائنات، جس کی وُسعتیں انسانی فہم کی حدوں سے ماورا ہیں، اپنے اندر نہ صرف کہکشاؤں، سیّاروں اور تاروں کا ہجوم سمیٹے ہوئے ہے، بلکہ اِس میں زندگی کی ایک ایسی نازک لَے بھی مدفون ہے کہ جو ازل سے تغیّرکے سفر پر گام زن ہے۔ یہ سفر شور مچاتا ہے اور نہ انقلابی منشور بلند کرتا ہے، بلکہ خاموشی سے ہر ذی رُوح کی رگوں میں دوڑتا، اُس کے خلیات میں گُندھا، اس کے جینز میں رقم ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اس سفرکو دُنیا ’’ارتقاء‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ ایک ایسا سائنسی تصوّر، جو نہ صرف حیاتیاتی فہم کی بنیاد ہے، بلکہ انسانی فکری ارتقاء کا مظہر بھی ہے۔

ارتقاء کو سمجھے بغیر حیاتیات پڑھنا ایسا ہے کہ جیسے کسی کتاب کا صرف سرِورق دیکھ کر اُس کا مفہوم اخذ کر لینا۔ اور محض ارتقاء کا نام سُن کرآنکھیں بند کرلینا، علمی خودکُشی کے مترادف ہے۔ کیوں کہ ارتقاء محض ایک نظریہ نہیں، بلکہ یہ مشاہدے، تجربے اور لاکھوں برسوں پر محیط شواہد کا نچوڑ ہے۔فرانسیسی ماہرِحیاتیات، ژاں باتیست لامارک نے ارتقاء کی فکری بنیاد رکھ کر ایک نئی سوچ کی کھڑکی کھولی۔

اُس نے کہا کہ جان دار اپنے ماحول کے تقاضوں کےمطابق خُود کو ڈھالتے ہیں اور یہ تبدیلیاں وراثتی طور پر نسل درنسل منتقل ہوتی رہتی ہیں اور اِسے ’’نظریۂ استعمال و عدم استعمال‘‘ کا نام دیا گیا۔ مثال کے طور پر، زرافہ، جس نے اپنی لمبی گردن سے اُونچے درختوں سے پتّے توڑے، تو اُس کی گردن طویل ہوتی چلی گئی اور یہ صفت اُس کی نسلوں میں باقی رہی۔ لیکن جدید جینیات نے اس تصوّر پر سوالیہ نشان لگا دیا، کیوں کہ جینیاتی کوڈمیں تبدیلی کے بغیر کوئی جسمانی تبدیلی اگلی نسل میں منتقل نہیں ہوسکتی۔

لامارک کا نظریہ گو کہ تصوّراتی لحاظ سے انقلابی تھا، لیکن سائنسی بنیادوں پر کم زورثابت ہوا۔ البتہ اس کے باوجود اُس کی سوچ نے بعد کے ارتقائی نظریات کے لیے زمین ہم وار کی۔ چارلس ڈارون، وہ مسافرِ علم تھا، جس نے’’بیگل‘‘ نامی بحری جہاز پر گیلاپیگوس جزائر کا سفر کرتے ہوئے فطرت کی وہ تحریر پڑھی، جو پتّھروں، جانوروں اور پرندوں میں چُھپی ہوئی تھی۔ 

اُس نے 1859ء میں اپنی انقلابی کتاب، ’’The Origin of Species‘‘ میں ’’قدرتی انتخاب‘‘ (Natural Selection) کا تصوّر پیش کیا۔ ڈارون کے مطابق، فطرت ایک مُنصف ہے، جو جان داروں کو اُن کی موزونیت کے مطابق پرکھتی ہے۔ جو جان دار اپنے ماحول سے ہم آہنگ ہوتے ہیں، وہ زندہ رہتے، نسل بڑھاتے اور اپنی کام یاب صفات اگلی نسلوں میں منتقل کرتے ہیں، جب کہ کم زور یا غیرموزوں جان دار قدرت کی چھانٹی کی نذر ہوجاتے ہیں۔ یہ نظریہ نہ صرف سادہ اور منطقی تھا، بلکہ اس نے حیاتیاتی سائنس کو ایک ٹھوس بنیاد فراہم کی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سائنس نے ارتقاء کومزید پیچیدہ مگر مکمل شکل دی۔

ڈارون کے بعد علمِ وراثت، جینیات اور سالماتی حیاتیات نے نظریۂ ارتقاء کو مزید گہرائی بخشی اور آج ہم جانتےہیں کہ ڈی این اے ہی وہ بنیادی کوڈ ہے، جس میں زندگی کا راز پوشیدہ ہے اور اسی کوڈ میں چھوٹے چھوٹے تغیّرات (mutations) وقت کے ساتھ ارتقائی تبدیلیوں کا باعث بنتےہیں، مثلاً جینیاتی بہاؤ، جینیاتی بہکاؤ، دوبارہ ترتیب اورانواع کی پیدائش جیسے عوامل وہ میکلانی ذرائع ہیں کہ جن کی مدد سے زندگی اپنی شکلیں بدلتی رہی ہے۔ کچھ ذہنوں میں سوال اُبھرتا ہے کہ اگرارتقاء ایک اندھاعمل ہے، تو پھر انسانی عقل، جمالیاتی حِس، اخلاقیات اور مذہبی رُجحانات کیسے وجود میں آئے؟

کیا محض جینیاتی تغیّرات سے یہ اعلیٰ ذہنی صفات پیدا ہوسکتی ہیں؟ یہ سوال سادہ نہیں، لیکن سائنسی تحقیق کا دروازہ بھی ہمیشہ ان ہی سوالات کے نتیجے میں کُھلتا ہے۔ نیورو سائنس، سماجی حیاتیات اور ثقافتی ارتقاء جیسے میدان ان سوالات کےجوابات تلاش کر رہے ہیں۔ انسان کے دماغ کی ساخت، نیورونز کی باہمی رابطہ کاری اور خارجی ماحول کے ساتھ تعامل، سب مل کر اُن خصوصیات کی تشکیل کرتےہیں، جو ہمیں دیگر جان داروں سے ممتاز بناتی ہیں۔

یہاں ایک اور نازک مگر اہم سوال یہ ہے کہ کیا ارتقاء مذہب سے متصادم ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ارتقاء ایک سائنسی نظریہ ہے، نہ کہ عقیدہ۔ اور مذہب ایک رُوحانی، اخلاقی اور الہامی فریم ورک ہے۔ دونوں کوایک ہی ترازو میں تولنا علمی ناپختگی ہے۔ کئی مفکّرین اورسائنس دانوں نے ان دونوں کو ہم آہنگ سمجھا، جن میں علاّمہ اقبال، ابنِ سینا اور جدید مسلم سائنس دان شامل ہیں۔ فلسفہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ حقیقت کی کئی پرتیں ہوتی ہیں۔ ایک پرت سائنسی، ایک فلسفیانہ اور ایک روحانی۔ ارتقاء ان پرتوں میں سے ایک کا نام ہے، جو زندگی کے مادّی سفر کی تفہیم فراہم کرتی ہے۔

اگر ارتقاء ایک نظریہ ہے، تو رکازیات اس کا سب سے مضبوط گواہ۔ جب ہم فوسلز کو دیکھتے ہیں، تو وہ ہمیں ماضی کی صداؤں سے ہم کنار کرتے ہیں۔ ٹرائیلوبائٹس، ایمونائٹس، آرکیو پٹریکس اور انسان کے اجداد کی باقیات سب ایک تسلسل کی نشان دہی کرتے ہیں۔ 

یہ اجسام خاموش گواہ ہیں کہ زندگی جامد نہیں، بلکہ ہر لمحہ ایک نئی ترتیب میں ڈھل رہی ہے۔ فوسلز ہمیں بتاتے ہیں کہ کیسے ایک آبی مخلوق خُشکی پر آئی؟ کیسے پرندےرینگنےوالےجان داروں سے نمودار ہوئے اور کیسےانسان کا جدِ اعلیٰ درختوں سے نیچے اُترا اور آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔

آج جب دُنیا مصنوعی ذہانت، جینیاتی انجینئرنگ اور بائیونک اعضاء کی طرف بڑھ رہی ہے، تو سوال یہ نہیں کہ ارتقاء سچ ہے یا نہیں؛ سوال یہ ہے کہ ہم اس حقیقت کو کیسے برتیں؟ کیا ہم قدرتی انتخاب کو سمجھ کر اپنی صحت، معیشت اور معاشرت میں بہتری لا سکتے ہیں؟ کیا ہم سائنس کےساتھ ہم آہنگ ہوکرایک متوازن سماج قائم کرسکتے ہیں؟ ارتقاء ہمیں سکھاتا ہے کہ تبدیلی ہی زندگی ہے۔ جامد خیالات، تعصّب زدہ سوچ اور محدود فہم کا انجام فنا ہے، جب کہ تحقیق، تغیّر اور فہم کا نتیجہ بقا ہے۔

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار برائے صفحۂ ’’متفرق‘‘

٭ غازی آب دوز (محمد کاشف ، نیو کراچی ، کراچی) ٭ اسلامی نظام (سالم عزیز، چوبرجی پارک،سمن آباد، لاہور) ٭ تمباکو، نکوٹین کی مصنوعات (اللہ دِتّا انجم، کہروڑ پکا ، لودھراں) ٭ امن (ثوبیہ ممتاز ، راول پنڈی) ٭قربانی کا حقیقی فلسفہ، قربانی کے جانور کی خصوصیات ،عشرہ ٔذی الحج (مولانا قاری محمد سلمان عثمانی) ٭ نکاح پر پابندی (ڈاکٹر محمد ریاض علیمی، نیوکراچی، کراچی)٭قدرتی آفات میں نوجوانوں کا کردار(سید اطہر نقوی)٭ اندھیری رات کے آنسو (رانا اعجاز حسین چوہان)۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
سنڈے میگزین سے مزید