کراچی، لندن ( نیوز ڈیسک، اے ایف پی ) برطانیہ کی وزیراعظم لزٹرس نے منی بجٹ میں غلطیوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان پر معذرت خواہ ہیں، تاہم انہوں نے استعفیٰ دینے سے انکار کردیا ہے، وزیراعظم لز ٹرس کو اپنی ہی جماعت کنزرویٹیو کے کئی ارکان کی جانب سے بھی شدید تنقید اور استعفیٰ کیلئے دباو کا سامنا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ مستعفی نہیں ہوں گی اور آئندہ انتخابات میں اپنی جماعت کنزریوٹیو پارٹی کی قیادت کریں گی۔ لیبر پارٹی کے رہنما کیئر اسٹارمر نے لز ٹرس سے مستعفی نہ ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی حکومت فوری طور پر انتخابات کا اعلان کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب جنرل انتخابات سے ہی انہیں حقیقی خطرہ ہے اور معاشی استحکام کیلئے لیبر پارٹی کی حکومت ناگزیر ہوگئی ہے۔ دوسری جانب برطانیہ میں حکومت سے متعلق ہونے والے ایک سروے میں 77 فیصد افراد نے لز ٹرس حکومت کی مخالفت کردی ہے، سروے کروانے والی کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ گزشتہ 11برس کے دوران کسی بھی حکومت کیخلاف سب سے بڑی شرح ہے، اس سروے میں 87 فیصد افراد نے برطانوی وزیراعظم کی معاشی پالیسیوں کی مخالفت کی، برطانوی نیوز ایجنسی کے مطابق کنزرویٹیو کے وہ اراکین جنہوں نے بطور وزیراعظم لز ٹرس کی حمایت کی تھی ان میں سے بھی کئی ارکان اب ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کررہے ہیں۔ برطانیہ کے ساحلی ریزورٹ برائٹن میں منگل کے روز جمع ہونے والے مزدور یونینز کے رہنماؤں نے ملک میں جاری مہنگائی کے بحران کی پیش نظر موسم سرما میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کی دھمکی دے دی ہے۔ ٹریڈ یونین کانگریس کا سالانہ اجلاس برطانوی وزیراعظم لز ٹرس سے استعفیٰ کے مطالبے کیساتھ شروع ہوا ۔ اس اعلان کیساتھ ساتھ برطانیہ میں کفن بنانے والے مزدوروں نے بھی ملک میں دہائیوں کی بدترین مہنگائی کے دوران اپنی تنخواہوں میں اضافے کیلئے ملک میں جاری ہڑتال میں شامل ہونے کا اعلان کردیا ہے۔ برائیٹن میں نیشنل ایجوکیشن یونین کے مشترکہ رہنما کیون کورٹنے نے وزیراعظم لز ٹرس کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا جانا اب ناگزیر ہوگیا ہے۔