• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ مئی 2021کی بات ہے۔ یورپ میں قائم خفیہ امریکی فوجی اڈوں میں تعینات امریکی فوجیوں نے نہایت لا پروائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کو وہ انتہائی حساس معلومات فراہم کردیں جنہیں امریکا اور یورپی ممالک بہت محنت کرکے طویل عرصے سےصیغہ راز میں رکھے ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان مراکز میں امریکا نے جوہری بم رکھے ہوئے ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر انہیں فوری طورپر وہاں سے نکال کر استعمال کیا جا سکے۔ یورپی ممالک یہ راز ہمیشہ اپنے سینے سے لگائے رہے کہ یہ جوہری بم دراصل کس مقام پر رکھے ہوئے ہیں اور ان کی تعداد کیا ہے۔ لیکن ان کی حفاظت پر تعینات امریکی فوجیوں نے یہ راز اپنی بے وقوفی کی وجہ سے افشا کردیا۔

ہوا کچھ یوں کہ ان اڈوں میں تعینات امریکی فوجی انٹرنیٹ پرعام دست یاب ایک ایپلی کیشن طویل اور پے چیدہ سکیورٹی پروٹوکولز یاد رکھنے کے لیے استعمال کررہے تھے۔ بیلنگ کیٹ نامی ایک تحقیقاتی ویب سائٹ نے امریکی فوجیوں کی سرگرمیوں پر تحقیق کی تو اسے نہ صرف یہ پتا چل گیا کہ یہ بم بر اعظم یورپ کے کن ممالک میں کہاں کہاں اور کتنی تعداد میں رکھے گئے ہیں بلکہ یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ان میں سے کتنے لائیو اور کتنے نان لائیو ہیں (یعنی کتنے استعمال کے لیے فوری تیار حالت میں ہیں اور کتنے نہیں ہیں)۔ جن ممالک کا پتا چلا ان میں نیدر لینڈ،جرمنی اور ترکیہ شامل ہیں۔ 

یہ مارچ 2016کی بات ہے۔ امریکا سے خبر آئی تھی کہ ملک کے نیوکلیئر پاور پلانٹس میں شدید حفاظتی شکایات موجود ہیں۔ جنوری میں میامی اور نیویارک سٹی کے باہر موجود دو پاور پلانٹس سے ٹریٹیم کا رساؤ جاری ہے۔یادرہے کہ ٹریٹیم ایک تاب کار مادہ ہے۔میامی کے باہر موجود پلانٹ سے مایع حالت میں نکلنے والا ٹریٹیم بہ راہ راست بسکینی بے میں جارہا تھا اور نیویارک سٹی کے باہر موجود پلانٹ سے نکلنے والا مایع زمین میں جذب ہورہا تھا۔

امریکا میں کُل اکسٹھ جوہری پاور پلانٹس ہیں اور تاریخ بتاتی ہے کہ ان میں سے ہر ایک سے کم از کم ایک مرتبہ ایسا رساؤ ہوچکا ہے۔ لیکن امریکا کا نیوکلیئر ریگولیٹری کمیشن ان پلانٹس کوکام جاری رکھنے کے لیے بارہا اپنے قواعد نرم کرچکا ہے۔اس کے خلاف فروری 2016 میں سیون این آر سی انجینئرز نامی تیکنیکی افراد پر مشتمل ایک گروہ نے عوامی سطح پر ایک مہم چلائی تھی۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ان پلانٹس کے الیکٹریکل نظام میں موجود خامیوں کا جائزہ لے کر اس بارے میں ڈیزائن میں موجود خامیاں دُور کی جائیں۔

اب چلتے ہیں1960کی دہائی میں۔ مقام ہے بھارت کی ریاست اتر کھنڈ میں واقع ہمالیہ پہاڑ کی چوٹی نندا دیوی۔ چین 1964میں لوپ نر کے مقام پر اپنا پہلا جوہری تجربہ کرچکا تھاجس سے امریکا کے کان کھڑے ہوگئے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ چین کی جوہری سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے چناں چہ اس نے بھارت کو ساتھ ملاکر ایک خفیہ مرکز مذکورہ چوٹی پرقایم کرنے کا منصوبہ بنایا، کیوں کہ وہ مقام چین کی سرحدوں سے قریب تھا۔ اس مرکز میں نصب کیے جانے والے آلات پلوٹونیم (ایک تاب کار مادہ)سے حاصل ہونے والی توانائی سے چلنے تھے ۔ 1965میں دونوں ممالک کی خفیہ سروسز کے افراد پر مشتمل ایک ٹیم پچیس ہزار فیٹ کی بلندی پر موجود مذکورہ چوٹی پر پہنچنے کے لیے کمر بستہ ہوئی۔

لیکن ان کی راہ میں موسم اور دیگر عوامل نے اتنی رکاوٹیں حائل کیں کہ انہیں یہ مشن ادھورا چھوڑکر واپس آنا پڑا۔ انہوں نے وہاں نصب کیے جانے والے آلات اسی پہاڑ پر یہ سوچ کر چھوڑدیے کہ آئندہ برس آکر انہیں نصب کردیا جائے گا۔لیکن اگلے برس وہ وہاں پہنچے تو ان آلات کا کھوج لگانے میں بری طرح ناکام ہوگئے۔ اس کے بعد کئی مرتبہ ان سینسرز اور ان سے منسلک تاب کار ایندھن کی تلاش کی کوششیں کی گئیں لیکن سب ناکام رہیں۔وہ پلوٹونیم 238کے نو کورز بتائے جاتے ہیں۔

یہ بھانڈا کسی طرح 1978میں پھوٹاتو بھارتی حکومت نے مقامی لوگوں کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ اس سے انہیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لیکن مقامی لوگ آج بھی اس بارے میں شکوک وشبہات اور تشویش کااظہرا کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ برس وہاں شدید سیلاب آیا تو لوگوں نے گم شدہ پلوٹونیم کو اس کا ذمے دار قرار دیا۔

تلخ ہے ،مگر سچ ہے

یہ باتیں اس لیے یاد آئیں کہ گزشتہ دنوں امریکا کے صدر جو بائیڈن نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بے قاعدہ قراردیا۔ انہوں نے ڈیموکریٹک کانگریشنل کمپین کمیٹی میں خطاب کے دوران روس اور چین کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان کو لپیٹ میں لے لیا۔ امریکی صدر نے پاکستان پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا جوہری پروگرام بے قاعدہ ہے اور میراخیال ہے کہ پاکستان خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے۔

عجیب محسوس ہوتا ہے ،لیکن سچ یہ ہے کہ یہ الزام دنیا کے اس سب سے زیادہ طاقت ور ملک کا سربراہ لگارہا ہے جس نے سب سے پہلے جوہری بم بنایا،سب سے پہلے اس کے ذریعے جاپان میں دوسری جنگ عظیم دوم کے دوران قیامت برپا کی،سب سے پہلے اسی ملک سےاس بم کے بارے میں معلومات دوسرے ملک تک پہنچیں اور جہاں پچھلے برس تک بہت سے شہری اسی جرم میں گرفتار کیے اور سزا پاچکے ہیں۔

مین ہٹن منصوبہ اور اس کے رازوں کی چوری 

دوسری جنگ عظیم کے دوران جوہری بم بنانے کے لیے امریکا نے باقاعدہ ایک منصوبے کا آغاز کیاجسے مین ہٹن پراجیکٹ (Manhutton Project) کہا جاتا ہے۔یہ امریکا، برطانیہ اور کینیڈاکی مشترکہ کوشش تھی جس کے نتیجے میں جولائی 1945ء میں اس بم کا پہلا کام یاب تجربہ کیا گیا۔ اس منصوبے میں ہزاروں سائنس داں، انجینئرز، ہنر مند اور دیگر عملہ شامل تھا۔

یہ بہت خفیہ منصوبہ تھا،لیکن اس کی معلومات اسی ملک سے سب سے پہلے لیک ہوئیں۔کلاس فیوچس (Klaus Fuchs) نامی شخص یہ کام کرنے والا پہلا فرد تھا۔وہ نازی جرمنی میں ہٹلر کے مظالم سے تنگ آکر برطانیہ بھاگ آیا تھا۔ پیشے کے اعتبار سے سائنس داں تھا اور طبیعیات اس کا خصوصی مضمون تھا۔ اس نے مین ہٹن پراجیکٹ کے دوران لاس آلا موس (Los Alamos) میں کام کیاتھا۔

جب جاسوسی کے شک کی بناء پر اسے پکڑا گیا تو اس نے تسلیم کلیا کہ وہ سائنسی معلومات چوری کر رہا تھا، لیکن کس کے لیے کر رہا تھا ،اس کا جواب نہ دے سکا۔ اسے برطانیہ بھجوا دیا گیا۔ جب جنگ عظیم دوم ختم ہو گئی تو اسے مشرقی جرمنی واپس بھیج دیا گیا۔ وہ مین ہٹن پراجیکٹ کی کئی شاخوں سے منسلک رہا تھا۔ اپنے سائنسی پس منظر کے سبب اس کے فنی علم و فضل کی وسعت قابلِ قدر تھی۔ جہاں تک مین ہٹن کی معلومات روس منتقل کرنے کا سوال ہے تو وہ امریکاکے فشن (Fission) پروگرام کے بارے میں بہت سی معلومات رکھتا تھا اور ہائیڈروجن بم کے بارے میں بھی کئی تیکنیکی رازوں کا امین تھا۔

امریکا کے جوہری بم کی حساس ترین معلومات کسی دوسرے ملک کو فراہم کرنے والا دوسرا نمایاں فرد تھیوڈو ہال (Theodore Hall) نامی امریکی نوجوان تھا۔ کئی وجوہات کی بناء پر اس کی شناخت بیسویں صدی کے اواخر تک پوشیدہ رکھی گئی۔ جب اسے گرفتار کیا گیا تو اس کے خلاف جوہری راز، روس منتقل کرنے کا الزام تھا، لیکن امریکی حکومت اس پر لگائے جانے والے الزامات ثابت نہ کر سکی چناں چہ اسے رہا کرناپڑا۔ برسوں بعد اس نے اعتراف کیا کہ وہ روس کےلیے جوہری جاسوسی میں ملوث تھا۔ یہ کام کرنے والا تیسرا شخص ڈیوڈ گرین گلاس (David Greeanglass) نامی امریکی میکانسٹ تھا جو لاس آلاموس میں کام کر رہا تھا۔وہ مین ہٹن پراجیکٹ کا ایک ذیلی شعبہ تھا جس کے ذمے جوہری بم کا ڈیزائن تیار کرنا تھا۔

اس سلسلے میں چوتھا نام جارج کوول (Gorge Koval)کا لیا جاتا ہےجوامریکا میں پیدا ہواتھا۔ اس کے والدین روسی نژاد تھے۔ دوسری عالمی جنگ میں وہ روس واپس چلا گیا اور سرخ فوج کے ایک مشہور انٹیلی جنس ادارے (GRU)میں بھرتی ہو گیا۔ پھر وہ کسی طرح امریکا لوٹا۔ وہاں وہ ایک انجینئرنگ یونٹ میں بہ حیثیت ہیلتھ آفیسر بھرتی ہو گیا۔ تاب کاری (Radiation) اس کا خاص شعبہ تھا۔ 6اگست 1945ء کو امریکا نے اپنا جو پہلا جوہری بم ہیروشیما پر گرایا اس کے ڈیٹونیٹر کے بارے میں کوول نے لاس آلاموس میں رہ کر معلومات حاصل کیں اور انہیں سوویت یونین پہنچاتا رہا۔امریکا میں اس کی جاسوسی کی سرگرمیوں کا کسی کو بھی پتا نہ چل سکا اور اسی گم نامی کی حالت میں وہ دنیا سے رخصت ہوگیا۔ تاہم روس کے لیے اس کی خدمات کو سراہا گیا اور بعد از مرگ اسے ’’روسی ہیرو‘‘ کا خطاب دیا گیا۔

 
جولیس اور ایتھل روزنبرگ
جولیس اور ایتھل روزنبرگ 

اس ضمن میں سب سے مشہور نام جو لیس روزن برگ (Julius Rozenberg) اور اس کی بیوی ایتھل روزن برگ (Eithel Rozenberg) کے ہیں۔ وہ دونوں پیشے کے اعتبار سے فزکس کے موضوع کی کچھ نہ کچھ معلومات رکھتے تھے۔ ایتھل انتہائی ذہین اور چنچل دوشیزہ تھی اور عمر میں اپنے شوہر سے دوسال بڑی تھی۔ ایتھل کا بھائی ڈیوڈ گرین گراس بھی اس نیٹ ورک کا حصہ بن گیا جو جولیس اور ایتھل نے مل کر قائم کیا تھا۔یہ خاندان یہودی تھا۔ان پر مقدمہ چلایا گیا اور میاں بیوی کو موت کی سزا سنائی گئی۔ جولیس کا موقف تھا کہ اگر وہ امریکا کے جوہری رازوں کو روس تک نہ پہنچاتا تو عالمی توازنِ قوت درہم برہم ہو جاتا۔ اس لیے اس نے ضروری سمجھا کہ دوسری سپرپاور کے پاس بھی جوہری اہلیت موجود ہوتا کہ امریکا اکیلا ساری دنیا کاچوہدری نہ بن سکے۔

ہیری گولڈ (Harry Gold)بھی امریکی جاسوس تھا۔ جب وہ پکڑا گیا تو اس نے اعترافِ جرم کر لیا۔ وہ گرین گلاس اور فیوچس کے کوریئر (Courier) کے طور پر کام کرتا رہا۔ یعنی جو جوہری معلومات اس تک پہنچائی جاتی تھیں وہ انہیں روسی ذرایع تک پہنچا دیا کرتا تھا۔

بہت بڑے آدمی کی سنگین لاپروائی

یہ سات جنوری 1953 کی بات ہے۔ امریکا کے صف اول کے جوہری سائنس داں جان آرچیبالڈاس روز صبح سویرے ہی شدید پریشانی کا شکار ہوگئے تھے۔وہ بہت سنگین لاپروائی کرچکے تھے۔پرنسٹن یونیورسٹی اور امریکی سائنسی برادری میں اُن کی باوقار پوزیشن یقینی طور پر اس سکینڈل سے تباہ ہو سکتی تھی۔ وہ لفافے میں بند دنایکا اس وقت کا سب سے بڑا راز کہیں رکھ کر بھول گئے تھے۔

شاید وہ جگہ ریل گاڑی کا بیت الخلا تھا۔ اکتالیس سالہ وہیلر مین ہٹن پراجیکٹ کی ایک اہم شخصیت تھے، جس نے جنگ عظیم دوم کے دوران پہلا ایٹم بم تیار کیا تھا، اور اس وقت وہ میٹر ہورن بی کے ڈائریکٹر تھے اور 1938 سے پرنسٹن یونیورسٹی میں فزکس پڑھا رہے تھے۔وہ اس روز رات کی ٹرین لے کر واشنگٹن ڈی سی میں امریکی نیول ریسرچ لیباریٹری کے نمائندوں سے ملنے اور پراجیکٹ کے متعلق بات کرنے کے لیے گئے تھے۔ تاہم انہوں نے فیصلہ کیا کہ چوں کہ وہ اب دارالحکومت میں ہیں اس لیے جوائنٹ کمیٹی آن اٹامک انرجی (ایٹمی کمیٹی برائے توانائی) کے ساتھ بھی ذاتی طور پر ہائیڈروجن بم کے بارے میں اپنے تاثرات کا تبادلہ کریں۔

چناں چہ انہوں نے چھ صفحات پر مشتمل دستاویز، جو انہیں بھیجی گئی تھیں اور جن میں ہائیڈروجن بم کی تیاری کی تفصیلات موجود تھیں، ایک لفافے میں ڈالیں اور اپنے ساتھ رکھ لیں۔ یہ بم بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والا نیا اور خوف ناک ہتھیار تھا جو اس وقت صرف امریکا کے پاس تھا۔رات کو انہوں نے دستاویز کو نکالا، اسے پڑھا اور نوٹس لیے۔ صبح جب وہ بے دار ہوئے تو دستاویز کو کمرے میں چھوڑنے کے بجائے اپنے ساتھ باتھ روم لے گئے، لیکن پھر وہ بھول گئے کہ انہوںنے وہ دستاویز کہاں رکھی تھی۔ المختصر، انہیں وہ لفافہ باتھ روم سے مل گیا۔

لیکن جب آخری مرتبہ دستاویز کو دیکھنے کے لیے انہوں نے لفافہ کھولاتو اُنہیں شدید جھٹکا لگا کہ لفافے میں ایک نسبتاً غیر معمولی دستاویز تھی اور ہائیڈروجن بم کے متعلق رپورٹ سرے سے غائب تھی۔پھر بڑے پیمانے پر اس کی ڈھونڈ مچی ۔ لیکن سب بے سود ثابت ہوا۔اب اُن کے پاس جوائنٹ کمیٹی آن اٹامک انرجی (جے سی اے ای) کو اپنے نقصان کی اطلاع دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، جس کے فوراً بعد کمیٹی کے تین ارکان دستاویز کی تلاش میں مدد دینے کے لیے ریلوے اسٹیشن پہنچ گئےلیکن وہ دستاویز نہیں ملی اور لامحالہ ایف بی آئی کو اس معاملے میں شامل کرنا پڑا۔ طویل تحقیقات کے بعد بھی وہ نہیں ملی ۔

بعد میں اس دستاویز نے اس بات کی تصدیق کی کہ امریکا تھرمونیوکلیئر ہتھیار کا ایک کام یاب تجربہ کرنے کے لیے تیار تھا۔ (اس نے اس سے پہلے اس کی ایک چھوٹی قسم کا تجربہ نومبر1952 میں کیا تھا، جس کا کا کوڈنام آئیوی مائیک تھا)۔اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ تھرمو نیوکلیئر ہتھیاروں کی کئی اقسام تھیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ عملی استعمال کے لیے دست یاب تھیں۔ وہیلر نے تفتیش کرنے والوں کو بتایا کہ ٹاپ سیکرٹ دستاویز میں سپر فیوژن بم بنانے کے بارے میں تیکنیکی تفصیلات بھی موجود تھیں، یعنی ’لیتھیم-6 اور کمپریشن اس کے لیے مددگار تھے اور ریڈی ایشن ہیٹنگ نے اس کمپریشن کو حاصل کرنے کا راستہ فراہم کیا تھا۔ 

وہیلر کا خیال تھا کہ ایک اہم جزو کے طور پر لیتھیم-6 کا ذکر سوویت یونین کی دل چسپی بڑھا سکتا ہے۔ لیکن انہوں نے ایف بی آئی کے تفتیش کاروں کو بتایا کہ تاب کار مواد کے پھٹنے کا کوالی ٹیٹیو آئیڈیاسب سے اہم انکشاف ہے اور یہ سوویت جوہری سائنس دانوں کے لیے اہم معلومات ہو سکتی ہیں۔ واضح رہے کہ وہیلر پہلے بھی کئی مرتبہ سرکاری دستاویزات کے بارے میں لاپروائی برت چکے تھے، لیکن کسی کو بھی کبھی شک نہیں ہوا تھا کہ وہ سوویت جاسوس ہو سکتے ہیں۔

جب نومنتخب صدر آئزن ہاور کو ایک ماہ بعد اپنی قومی سلامتی کونسل میں دستاویز کی گم شدگی کا انکشاف کرنے کا کام سونپا گیاتو ان میں سے زیادہ تر کو یقین تھا کہ یہ سوویت یونین ہی کے ایجنٹوں کا کام ہے۔ یہ یقین سب سے زیادہ نائب صدر رچرڈ نکسن کو تھا۔ انھوں نے ایف بی آئی پر زور دیا کہ جے سی اے ای کے ہر رکن سے تفتیش کی جائے۔

انہوں نے کھلے دل سے اس کا اعتراف کیا تھا کہ وہ خوف زدہ تھے اور انہیں کچھ پتا نہیں تھا کہ اب کیا کرنا ہے۔ انہیں اس بات پر بھی حیرت تھی کہ وہیلر کے پاس موجود دستاویز کوٹاپ سیکرٹ کے بجائےسیکرٹ کا غلط لیبل کیوں لگایا گیا تھا اور کسی مسلح گارڈ کے بجائے کیوں اسے صرف ایک مصدقہ میل کے ذریعے پرنسٹن میں یونیورسٹی کے پروفیسر کے دفتر بھیجا گیا تھا۔صدر نے ایک مرتبہ غصے میں کہا کہ سیکورٹی کی اس تباہ کن خلاف ورزی کے ذمے دار جے سی اے ای کے اہل کار اگر فوج میں ہوتے توانہیں گولی مار دی جاتی۔ المختصر، یہ تلاش بے نتیجہ ختم ہو گئی۔ لیکن اس کے صرف سات ماہ بعد، اگست 1953 میں، سوویت یونین نے شمال مشرقی قازقستان میں اپنے پروٹو ٹائپ ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا۔ وہیلرکو صرف اٹامک انرجی کمیٹی کے چیئرمین گورڈن ڈین نے بس جھاڑ پلائی۔ وہ ہائیڈروجن بم پراجیکٹ کے لیے سرمایہ تھے اس لیے انہیں برطرف نہیں کیا جا سکتا تھا۔

حال کا واقعہ

لیکن یہ امریکاکے اہم رازوں کی چوری یا گم شدگی کا کا کوئی آخری واقعہ نہیں تھا۔ امریکا کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔حال ہی میں وہاں بحریہ کا ایک انجینئر جوناتھن ٹوب جوہری راز فروخت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے گرفتار ہوا ہے۔ عدالتی دستاویزات کے مطابق جس ملک کے بارے میں جوناتھن ٹوب سمجھ رہا تھا کہ وہ اسے راز فروخت کر رہا ہے ، وہ دراصل ایف بی آئی کے ساتھ تعاون کر رہا تھا، یہاں تک کہ اس ملک نے اپنے واشنگٹن کے سفارت خانے پر جھنڈا بھی لگایا ہوا تھا۔ 

امریکی محکمہ انصاف کے مطابق بحریہ کے ایک انجینئر نے وفاقی عدالت میں اعتراف کیا ہے کہ اس نےجوہری آب دوزوں کے راز ایک غیر ملکی طاقت کو فروخت کرنے کی کوشش کی تھی۔ تینتالیس سالہ جوناتھن ٹوب نے اپنی اہلیہ ڈیانا ٹوب کے ساتھ گرفتاری کے چار ماہ سے زیادہ عرصے کے بعد ایک وفاقی جج کے سامنے یہ اعتراف جرم کیا۔

 
جوناتھن اور ڈیانا ٹوبے
جوناتھن اور ڈیانا ٹوبے

جرم تسلیم کرنے کے بدلےمیں اسے ساڑھےبارہ سے ساڑھے سترہ برس تک قید کی سزا سنائے جانے کی توقع ہے۔ اس کی اہلیہ ڈیانا، جو ایک استاد ہے،اپنی بے گناہی کے موقف پر ڈٹی ہوئی ہے اور اس نے اپنے دو نوعمر بچوں کی دیکھ بھال کے لیے اپنی رہائی کی کوشش کی ہے، لیکن اس کے شوہر کا جرم تسلیم کرلینا اسے بھی مجرم گردانتا ہے۔ عدالتی دستاویز کے مطابق ڈیانا ٹوب جان بوجھ کر اور رضاکارانہ طور پر ایک غیر ملکی قوم کو فائدہ پہنچانے کے ارادے سے کسی دوسرے شخص کو خفیہ مواد پہنچانے کی سازش کا حصہ بنی اور اس سازش کو آگے بڑھانے کے لیے متعدد کھلی کارروائیوں کا ارتکاب کیا، جس میں ایک نگرانی کرنے والے کے طور پر کام کرنا بھی شامل ہے۔اگرچہ عدالت نے یہ نہیں بتایا کہ جوڑے نے کس ملک کو معلومات فروخت کرنے کی کوشش کی تھی، تاہم دستاویز سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ملک امریکاکا اتحادی ہے جس کی زبان انگریزی نہیں ہے۔

یاد رہے کہ امریکی ایٹمی آب دوزیں گزشتہ ستمبر میں ایک سفارتی بحران کا مرکز تھیں جب آسٹریلیا نے امریکا اور برطانیہ کے ساتھ اسٹریٹیجک شراکت داری کا اعلان کرنے کے لیے فرانس کے ساتھ ایک میگا ڈیل منسوخ کر دی تھی۔امریکی محکمہ انصاف نے اپنے بیان میں کہاہے کہ ٹوب 2012 سے ورجینیا کلاس آب دوزوں کے ری ایکٹر کے ڈیزائن پر کام کر رہا تھا، جو امریکی بیڑے میں حملہ آور آب دوزوں کی تازہ ترین جنریشن ہے۔ 

اپریل 2020میں اس نے پیٹسبرگ، پنسلوانیا میں رابطہ قایم کرنے کے لیے دستاویزات اور ہدایات کے ابتدائی سیٹ کے ساتھ ایک پیکج بیرون ملک بھیجا تھا، جس پر واپسی کا پتا درج تھا۔امریکی محکمہ انصاف کے مطابق وہ پیکج ممنوعہ ڈیٹا کے ایک نمونے اور مزید ممنوعہ مواد کی خریداری کے لیے خفیہ تعلق قایم کرنے کی ہدایات پر مشتمل تھا۔ ٹوب نے ایسے فرد کے ساتھ خفیہ ای میل کے ذریعے خط و کتابت شروع کی جس کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ وہ غیر ملکی حکومت کا نمائندہ ہے، لیکن حقیقت میں وہ ایف بی آئی کا خفیہ ایجنٹ تھا۔

بچھائے گئے جال میں پوری طرح پھنسانےکے لیے کئی مہینوں کے دوران ٹوب کو دسیوں ہزار ڈالرز کی کرپٹو کرنسی میں بڑھا بڑھا کر ادائیگیاں کی گئیں اور اس نے چوری شدہ رازوں پر مشتمل ایس ڈی (میموری) کارڈز کو مونگ پھلی کے مکھن سے بنے (پینٹ بٹر) سینڈوچ کے اندر رکھ کر یا پھر چیونگم کے پیکٹ میں اور پٹیوں کے ریپر میں چھپا کر فراہم کیا۔ عدالتی دستاویزات کے مطابق جس ملک کے بارے میں ٹوب سمجھ رہے تھے کہ وہ اسے راز فروخت کر رہے ہیں، وہ ایف بی آئی کے ساتھ تعاون کر رہا تھا، یہاں تک کہ ٹوب کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے اس ملک نے اپنے واشنگٹن کے سفارت خانے پر جھنڈا بھی لگایا تھا۔