• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حذیفہ احمد

گزشتہ ماہ امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے خلا میں ایک تجربے کے دوران انتہائی مہارت اور کام یابی سےاپنا ایک خلائی جہاز ایک سیارچے سے ٹکرا کر تباہ کر دیا ہے۔ ناسا اس مشن کے ذریعے یہ جاننا چاہتا ہے کہ ایک بڑے حجم کے خلائی پتھر کو زمین سے ٹکرانے سے روکنا کتنا مشکل ہو سکتا ہے۔ خلا میں موجود ایک بڑے پتھر سے خلائی جہاز ٹکرانے کا یہ تجربہ زمین سے تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ کلومیٹر دور کیا گیا ہے، جس سیارچے کو خلائی جہاز نے ہدف بنایا تھا ۔ماہرین کی جانب سے اس کو’’ ڈیمورفوس ‘‘کا نام دیا گیا ہے جب کہ اس مشن کو ’’ڈارٹ مشن‘‘ کہا جاتا ہے۔

امریکی خلائی ایجنسی ناسا کا کہنا ہے کہ اس وقت یہ خلائی پتھر زمین سے ٹکرانے کے راستے یا مدار پر نہیں ہے اور نہ ہی یہ تجربہ اس پتھر کو زمین کی طرف بھیجے گا، جب ناسا کا خلائی جہاز اس سیارچے سے ٹکرایاتواس سارے عمل کی ویڈیو خلائی جہاز میں موجود کیمرے سے عکس بند کی گئی اور یہ اُس وقت تک بنائی گئی جب تک کہ وہ تباہ نہیں ہوگیا۔ اس خلائی جہاز نے اس تمام تجربے اور سیارچے سے ٹکرانے کے سفر کی ہر سیکنڈ کی تصاویر زمین پر بھیجی ہیں۔

ماہرین کے مطابق خلا میں موجود سب سے بڑی ٹیلی اسکوپ جیمز ویب سمیت دیگر خلائی دور بینوں کے ذریعے اس تجربے کو دیکھا گیا۔ ناسا یہ جاننے کی کوشش کررہا ہے کہ خطرناک سیارچے سے زمین کو کیسے بچایا جائے۔ اس کے خیال میں اس کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ خلائی جہاز کو ہی اس سیارچے کے ساتھ ٹکرا دیا جائے۔اس عمل کے پیچھے یہ خیال ہے کہ آپ کو اس سیارچے کی زمین کی جانب بڑھنے کے رُخ کو معمولی سا تبدیل کرنے کے لیے اس کی رفتار کو کم کرنا ہو گا، تاکہ زمین ان کا ہدف نہ بن سکے۔

سائنسدانوں کے ابتدائی حساب کے مطابق اس تجربے میں خلائی جہاز، سیارچے کے مرکز سے صرف 17 میٹر دور جاکر ٹکرایا ہے۔ ناسا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم انسانوںکے لیے ایک نئے دور کا آغاز کررہے ہیں۔ ایک ایسا دور جس میں ہم ممکنہ طور پر اپنے آپ کو کسی خطرناک سیارچے کے اثرات سے بچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کتنی حیرت انگیز بات ہے۔ ہمارے پاس اس سے پہلے کبھی یہ صلاحیت نہیں تھی۔

جان ہاپکنز یونیورسٹی کے اپلائیڈ فزکس لیبارٹری میں ہی مشن سسٹم انجینئر ڈاکٹر ایلینا ایڈمز کا کہناہے کہ یہ مشن اس نظریے کے تجربے کے طور پر کیا گیا ہے کہ 160 میٹرچوڑے ڈیمو فورس نامی سیارچے سے ایک خلائی جہاز تقریباً20 ہزار سے 22 ہزار کلو میٹر کی رفتار سے جاٹکرائے ۔اُمید کی جارہی ہے کہ اس تجربے کے بعد یہ سیارچہ قریبی موجود اپنے سے کافی بڑے ڈیڈیموس نامی سیارچے کے مدار کی جانب روزانہ چند منٹ بڑھنا شروع ہو جائےگا۔

سائنس دانوں کو لگتا ہے کہ جیسے ہی خلائی جہاز 570 کلوگرام وزنی سیارچے سے ٹکرائے گا ۔اس تمام تجربے کی شاندار تصاویر حاصل کی جائیں گی۔ جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے اپلائیڈ فزکس لیبارٹری کی ڈاکٹر نینسی چابوٹ کا اس مشن کی وضاحت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ڈارٹ مشن خلا میں پہلا دفاعی تجربہ ہے ،جس میں ایک خلائی جہاز کو سیارچے سے ٹکرانے کا مظاہرہ کیا جارہا ہے ،تا کہ خلا میں اس سیارچے کی سمت کو تھوڑا سا تبدیل کیا جا سکے۔زمین پر موجود تقریباً دو درجن سے زیادہ خلائی دوربینوں نے اس تجربے کا مشاہدہ کیا اور اب وہ باریکی سے’’ ڈیمورفوس‘‘ اور’’ ڈیڈیموس ‘‘نامی سیارچے کے مداروں کے درمیان فاصلے کا مشاہدہ کریں گی۔

یہ ایک ایسا عمل ہے کہ ضرورت پڑنے پر آپ برسوں پہلے ہی کسی سیارچے کو اس کے مدار سے تھوڑا سا ہٹانے کے لیے ایک جھٹکا دیں، تاکہ مستقبل میں زمین اور وہ سیارچہ آپس میں ٹکرانے سے بچ سکیں۔ اس ڈارٹ مشن سے قبل سائنسدانوں نے بتایا تھا کہ خلائی جہاز کے لیے ڈیمورفوس نامی اس سیارچے کو نشانے بنانا کافی مشکل ہو گا،کیوں کہ ناسا کا خلائی جہاز تقریباً آخری 50 منٹ میں اس سیارچے کے قریب موجود780 میٹر چوڑے ڈیڈیموس سیارچے اور ڈیمورفوس میں تفریق کر کے اپنے اصل ہدف کو نشانہ بنا ئے گا۔

مشن مکمل ہونے کے بعد ان کا کہنا ہے کہ سب کچھ منصوبے کے مطابق ہوا اور ڈارٹ مشن نے ڈیمورفوس نامی سیارچے اور ڈیڈیموس سیارچے میں تفریق کر کے اپنے ہدف کو نشانہ بنایا۔خلائی جہاز میں موجود نیویگیشن سوفٹ ویئر کو اس طر ح تیار کیا گیا کہ خلائی جہاز سفر کرتے ہوئے سیدھا اپنے ہدف کو ہی نشانہ بنائے۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی کے اپلائیڈ فزکس لیبارٹری میں اس مشن کے سربراہ ڈاکٹر اینڈی ریوکن کے مطابق بالکل ایسا ہی ہوا جیسا یہ پروگرام تیار کیا گیا تھا۔

ناسا میں اس ڈارٹ مشن کے سائنسدان ڈاکٹر ٹوم ا سٹاٹلر کا کہنا ہے کہ روشنی کی رفتار جتنی رفتار اور فاصلے کی وجہ سے یہ ممکن نہیں کہ کوئی پائلٹ زمین پر بیٹھ کر اس خلائی جہاز کو کنٹرول کر سکے یا چلاسکے۔انھوں نے مزید کہا کہ ہمیں ایک ایسا سوفٹ ویئر تیار کرنا پڑا ہے جو اس خلائی جہاز سے لی گئی تصاویر کو فوری طور پر جانچ سکے، یہ تعین کر سکے کہ اصل ہدف کون سا ہے اور اپنے ہدف کے تعاقب میں سیدھا راستہ لے سکے۔ اس مشن کے دوران جب خلائی جہاز اس سیارچے کی جانب ٹکراؤکے لیے بڑھ رہا ہو گا تو اس کارروائی اور منظر کی ہر سکینڈ کی تصویر زمین پر بھیجے گا۔ اور ان تصاویر میں پہلے ایک چمکتا نقطہ دکھائے دینے والا سیارچہ ایک دم بڑھ کر پورے منظر پر چھا جائے گا۔ 

اس کے بعد تصاویر آنے کا سلسلہ ایک دم منقطع ہو جائے گا، کیوں کہ اس وقت یہ خلائی جہاز اس سیارچے سے ٹکرا کر تباہ ہو چکا ہو گا۔ اس ڈارٹ مشن میں شامل خلائی جہاز نے چند ماہ قبل اٹلی کا تیارکردہ 14 کلو وزنی سیٹلائٹ بھی خلا میں چھوڑا تھا، جس کا مقصد یہ پتا لگانا ہے کہ جب ڈارٹ سیارچے سے ٹکرا جائے گا تو اس کے بعد کیا ہو گا۔ یہ سیٹلائٹ اس تمام عمل کو ریکارڈ کرے گا۔یہ سیٹلائٹ اس مشن کے دوران تقریباً 50 کلومیٹر دور سے اس تجربے کی تصاویر کھینچے گا اور اگلے چند دنوں کے دوران اس کی تصاویر زمین تک واپس پہنچیں گی۔

اس سیٹلائٹ کو’’ لیسیا کیوب‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور اطالوی خلائی ایجنسی کے سیمون پیروٹا کا کہنا ہے ک،ڈارٹ کے سیارچے سے ٹکرانے کے تقریباً تین منٹ بعد اس مقام سے گزرے گا۔ماہرین کے مطابق تین منٹ کا وقت اس لیے رکھا گیا ہے، کیوںکہ اس وقت تک خلائی جہاز کے ٹکرانے سے سیارچے کو پیش آنے والے اثرات مکمل ہو جائے اور اس ٹکراؤ سے اس کے مدار میں ہونی والی تبدیلی کو وقت مل سکے، کیوںکہ لیسیا کیوب سیٹلائٹ کا دوسرا بڑا اہم کام یہ ہے کہ وہ اس بات کا مشاہدہ کرے کہ خلائی جہاز کے سیارچے سے ٹکرانے کے بعد اس کے مدار میں کتنی تبدیلی آئی اور وہ کس حد تک اپنے مدار سے سرکا ہے۔

اس وقت ڈیمورس نامی سیارچہ تقریباً 11 گھنٹوں اور 55 منٹ میں ڈیڈیموس نامی سیارچے کے گرد اپنا چکر مکمل کرتا ہے۔ توقع ہے کہ اس تجربے سے اس کے مدار میں چکر لگانے کے وقت میں معمولی فرق پڑے گا اور وہ یہ چکر 11 گھنٹوں اور 45 منٹ میں مکمل کر لے گا، تاہم خلائی دوربین کے ذریعے اس پیمائش کی تصدیق اگلے چند ہفتوں اور مہینوں کے دوران ہوگی۔

خلا کے جائزوں اور شماریاتی اعداو و شمار کے مطابق ہم نے خلا میں 95 فی صد ایسے دیوہیکل سیارچوں کی نشاندہی کی ہے جو اگر زمین کے ساتھ ٹکرا جائیں تو زمین پر انسانی زندگی مکمل طور پر ختم کر سکتے ہیں (مگر وہ ایسا نہیں کر سکتے، ان کے مدار کا حساب لگایا گیا ہے وہ زمین کے قریب نہیں آسکتے۔) لیکن ان کے باوجود خلا میں ایسے بہت سے چھوٹے سیارچے موجود ہیں جو زمین سے ٹکرانے کے بعد تباہی مچا سکتے ہیں چاہیے وہ علاقائی یا کسی ایک مخصوص شہر کی سطح پر ہی کیوں نہ ہو۔

سائنس دانوں کے مطابق اگر ڈیمورفوس جیسا سیارچہ زمین سے ٹکرائے جائے (جو کہ نہیں ٹکرائے گا) تو یہ ایک کلومیٹر چوڑا اور سیکڑوں میٹر گہرا گڑھا بنا سکتا ہے اور اس ٹکراؤ کے نتیجہ میں آنے والے جھٹکے سے اس کے قریبی علاقوں پر شدید اثر پڑ سکتا ہے۔ آج سے چار برس بعد یورپی خلائی ایجنسی کے پاس تین خلائی جہاز ہو گے جن کو مشترکہ طور پر ہیرا مشن کا نام دیا جائے گا اور وہ ڈیڈیموس اور ڈیمورفوس پر اس تجربے کے بعد کے حالات پر تحقیق کریں گے۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید