• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’کڈنی ہل پارک‘ زمین سے 219فٹ کی بلندی پر قائم

کراچی میں یوں تو بہت سارے پارک تعمیر کئے گئے ہیں جن میں 130 ایکڑ رقبے پر مشتمل باغ ابن قاسم کلفٹن کو وسعت کے لحاظ سے انفرادیت حاصل ہے، جب کہ امیر خسرو پارک، آنٹی پارک، عزیز بھٹی پارک، ہل پارک، تعلیمی باغ، نثار شہید پارک، سفاری پارک اور سرسید پارک، کلفٹن بیچ ویو پارک، جھیل پارک کا، مشہور پارکوں میں شمار کیا جاتا ہے، احمد علی پارک کڈنی ہل کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ وہ کراچی کے سب سے بلند ترین مقام پر تعمیر کیا گیا ہے، جوزمین سے 219 فٹ بلندی پر واقع ہے، اس پارک کی تعمیر کے لئے ادارہ ترقیات کراچی نے 1964 میں فیصلہ کیا، ماسٹر پلان کی روشنی میں نومبر 1966 میں اس کے لئے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کیا تاکہ یہ جگہ تفریح زون کے طور پر ’’ فلک نما‘‘ اسکیم کے تحت مختص کی جاسکے۔

ستمبر 1969 کو اس قطعہ اراضی کو محفوظ کرنے کے لئے کے ایم سی نے بائونڈری وال کی تعمیر شروع کی تو وزرات تعمیرات وفاقی حکومت نے اس پر اعتراض کیا کہ یہ جگہ وفاقی حکومت کے زیر انتظام ہے اور کے ایم سی کو ہدایت کی گئی کہ وہ کام روک دیں، کے ایم سی صدر پاکستان سے اس معاملے میں مداخلت کی درخواست کی جس کا نوٹس لیتے ہوئے 3 فروری 1982 کو یہ حکم جاری کیا گیا کہ اس جگہ پر کڈنی ہل پارک ہی تعمیر کیا جائے گا اور مکانات بنانے کے لئے جو پلاٹ الاٹ کئے گئے تھے انہیں منسوخ کیا جائے، 4 فروری 1983 کو ہونے والی میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس قطعہ اراضی کو جو 62 ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے پارک تعمیر کرنے کے لئے کے ایم سی کے حوالے کیا جائے، لیکن 10 سال تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔

پھر 1974 میں اس جگہ کو بلدیہ عظمیٰ کراچی کے حوالے کردیا گیا تاکہ یہاں ایک منفرد اور دلکش پارک تعمیر کیا جاسکے، لیکن بلدیہ عظمیٰ کراچی بھی کئی وجوہات کی بنا پرپارک کی تعمیر کا آغاز نہیں کرسکی، آہستہ آہستہ لینڈ مافیا نے اس جگہ پر قبضہ کرنا شروع کردیا او رپارک کی زمین پر بینگلوز تعمیر ہوتے چلے گئے ، یوں پارک بنانے کا تصور ہی ختم ہو کر رہ گیا تھا، کڈنی ہل پارک کی تعمیر ستمبر 2019 میں عدالت عظمیٰ کے حکم پر شروع کی گئی اور کے ایم سی نے تمام تجاوزات کو ختم کرکے اصلی حالت میں بحال کرنا شروع کیا تاکہ یہاں فوری طور پر پارک کی تعمیر شروع کی جائے، اس حکم کی تعمیل میں اس وقت کے میونسپل کمشنر ڈاکٹر سیف الرحمن نے تعمیر کا آغاز کیا تو انہیں کئی مسائل درپیش آئے اس مقام پر پختہ گھروں کے علاوہ ہوٹلز، مسافر خانے، بھینسوں کے باڑے بنا دیئے گئے تھے ،کچرا چننے والوں نے اس مقام کو اپنا مرکز بنایا ہوا تھا فیکٹریوں کا فضلا یہاں ڈالا جاتا تھا ،یہ جگہ کئی دوسرے مقاصد کے لئے بھی استعمال ہو رہی تھی۔

اکتوبر 2019 میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ سب سے پہلے اس جگہ کا جغرافیائی مطالعہ کرایا جائے تاکہ صحیح صورتحال واضح ہوسکے، اس مطالعے کے ذریعہ کڈنی ہل سے گزرنے والی پانی اور سیوریج کی لائنوں، بجلی کے کھمبوں، ٹیلیفون کی تاروں اور دیگر یوٹیلیٹی سروس فراہم کرنے والے اداروں کے بارے میں بھی معلومات حاصل کی گئی جبکہ پارک میں پہلے سے موجود درختوں اور پارک کی درست بلند ترین سطح اور گہرائی کا مطالعہ بھی کیا گیا ،تاکہ پارک کی ڈیزائنگ کے وقت ان تمام باتوں کو پیش نظر رکھا جائے جس کے ذریعہ ایک بہترین پارک کی منصوبہ بندی ممکن ہوسکے، جغرافیائی مطالعہ مکمل ہونے کے بعد پارک کی تعمیر کا آغاز کیا گیا ،سب سے پہلے تجاوزات کو ختم کیا گیا یہ ایک مشکل ترین مرحلہ تھا کیونکہ یہاں لوگوں نے ایک طویل عرصے سے قبضہ کیا ہوا تھا، مختلف بنگلوں کے ساتھ ساتھ چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں کارخانے اور ہوٹلز تعمیر کئے ہوئے تھے، جسے ختم کرنا ضروری تھا، بڑے پیمانے پر تجاوزات سے خاتمے کے بعد پارک کی زمین کو بھاری مشینری کے ذریعہ ہموار کیا گیا۔ 

وہاں پر موجود ایسے خود رو پودوں، درختوں اور جھاڑیوں کو صاف کیا گیا جو پارک کے لئے نامناسب تھے، مختلف اقسام کے پودے لگائے گئے ہیں سبز اور کھتی رنگ والے پودوں کی قطاریں بنائی گئی، یہاں کی سخت زمین پر پودوں کا اگنا پھر ان کی دیکھ بھال اور پرورش ایک انتہائی مشکل مرحلہ تھا لیکن مسلسل کوشش اور جدوجہد سے پودوں کی افزائش شروع ہوئی اور یہ پودے اب تناور درخت کا روپ اختیار کرچکے ہیں، کڈنی ہل کی تعمیر میں مختلف سماجی اور فلاحی شخصیات نے بھی بھرپور تعاون کیا، اور پار ک کے لئے کئی ہزار پودے فراہم کئے، حال ہی میں فوزیہ وہاب فروٹس گارڈن تعمیر کیا گیا ہے جس میں چیکو، بادام، کیلے اورآم کے درخت لگائے گئے ہیں جبکہ شکر قندی اور دیگر پھلوں کے بھی پودے ا س پارک کا حصہ ہیں، گھاس کے قطعات کے ذریعہ پارک کو دیدہ زیب بنایا گیا ہے یہاں آنے والے شہریوں کے لئے جگہ جگہ بینچز لگائے گئے ہیں۔ 

اس پارک سے اگر شہر پر نظر ڈائی جائے تو چاروں اطراف کی عمارتیں واضح نظر آتی ہیں اور شہر کا طائرانہ تجزیہ کیا جاسکتا ہے، ایک جانب مزار قائد کا نظارہ کرسکتے ہیں ، دوسری جانب ساحل سمندر اور بحریہ آئیکون کی بلند ترین عمارت نظر آتی ہے، مشرق کی جانب سوک سینٹر ، ریڈیو پاکستان کی نئی عمارت ، سوئی سدرن گیس کمپنی کا مرکزی دفتر اور دیگر عمارتیں ہیں، ایئر پورٹ ، شارع فیصل، پی ایف بیس مسرور بھی یہاں سے نمایاں نظر آتا ہے۔

اب تک یہاں 55 سے زائد اقسام کے 2 لاکھ سے زائد پھولدار، پھلدار اور سایہ دار درخت لگائے جاچکے ہیں، پارک میں پختہ راہداریاں اور دو واکنگ ٹریل بھی بنائے گئے ہیں ایک کا نام ’’کوکن ٹریل‘‘ اور دوسرے کا ’’ دھوراجی ٹریل‘‘ رکھا گیا ہے تاکہ علاقے کی نشاندہی بھی ہوسکے، اس کے علاوہ یہاں بارہ مختلف ٹریل بنائی گئی ہیں، ان راستوں کو پاکستان کے مختلف پہاڑوں، دریائوں، جھیلوں، درختوں، پھلوں، جنگلات اور ریگستانوں کے ناموں سے منسوب کیا گیا ہے اور ہر طرح کی رکاوٹیں دور کرکے انہیں دلکش بنایا گیا ہے، یہ 12 ٹریل ایک دوسرے سے منسلک ہیں ان کے نام نانگا پربت، سیف المکوک، ہنگول، قراقرم، املتاس، چھانگا مانگا، مینگروز، راکا پوشی، جیسمین، لال سوہارنا اور سکھ چین ہیں۔

یہ اونچائی پر واقع ایک پرفضا مقام ہے ، یہ جگہ پتھریلی ہونے کے باعث پودوں کی پرورش کے لئے انتہائی مشکل ہے لیکن کڈنی ہل کے باغبانوں کی محنت کے آگے نا ممکن نہیں، دردرخت اورپودے لگاتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ کراچی کے روایتی اور قدیم پودے ہوں جو کراچی کی پہچان ہے، ان پودوں میں نیم، ناریل، جنگل جلیبی، پپیتا، جامن، امرود، مورنگا، بوگن ویلا، گل مہر شامل ہیں، پہلے سے موجود کیکر کے درختوں کو چھانٹ کر انہیں چھتریوں کی شکل دی گئی ہے، جو کڈنی ہل کی خوبصورتی میں مزید اضافے کا سبب ہے، اتنے سا رے درختوں کی موجودگی میں اب یہاں پرندوں نے بھی اپنا مسکن بنالیا ہے اور اکثر صبح کے اوقات میں مختلف پرندوں کی دلکش آوازیں سنائی دیتی ہیں، جو آنے والے شہریوں کو اپنے سحر میں مبتلا کردیتی ہے، پارک میں دو خوبصورت تالاب ہیں جن میں کنول کے پھول ڈالے گئے ہیں، تاکہ تالاب حسین منظر پیش کریں، رات کے اوقات میں یہاں سے شہر کا منظر انتہائی حسین نظر آتا ہے ہر طرف جگمگاتی روشنیاں دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ کراچی واقعی روشنیوں، رنگوں اور امنگوں کا شہر ہے، جو دلکش بھی ہے اور دل آویز بھی۔

یہاں ایک مسجد بھی ہے ، شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی نے اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا، کڈنی ہل کی زمین پر ایک مزار بھی ہے جہاں مریدین حاضری دیتے ہیں ، پارک کی تعمیر کی ڈیزائنگ کرتے وقت اس مزار کو اپنی جگہ قائم رہنے دیا گیا ہے۔

21 مارچ 2022 کو ایڈمنسٹریٹر کراچی بیرسٹر مرتضی وہاب نے سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام سے منسوب آبشار کا سنگ بنیاد رکھا ا ورپارک میں روشنی کے لئے 24 لائٹ ٹاورز نصب کئے، جس پر 96 فلڈ لائٹس لگائی گئی ہیں، آبشار کے بالکل سامنے ایک گارڈن تعمیر کیا گیا ہے جس میں بیٹھ کر شہری بلندی سے گرنے والے پانی کا انتہائی دل آویز منظر دیکھ سکیں گے، آبشار کا خصوصی ڈیزائن تعمیر کیا گیا ، یہ آبشار 200 فٹ لمبی اور 25 فٹ اونچی ہے، اس پارک کو کراچی کا سر سبز و شاداب خطہ بنایا گیا ہے۔

اب یہاں ایسے درختوں کو بھی منتقل کیا جارہا ہے جو کراچی میں بس ریپڈ ٹرانسپورٹ کے راستوں میں لگے ہوئے تھے انہیں وہاں سے با حفاظت نکال کر دوسرے پارکوں کے ساتھ ساتھ منتقل کیا گیا ، جس کے باعث یہاں درختوں کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا ہے، وزیر اعلیٰ سندھ نے اگست کے دوسرے ہفتے میں کڈنی ہل کے دورے کے موقع پر یہ ہدایت کی کہ پارک کے راستوں میں پختہ سڑکیں بنانے کے بجائے اینٹوں کی سڑکیں بنائی جائیں تاکہ اینٹوں سے بنی سڑکیں پارک کی خوبصورتی میں اضافے کا سبب بنیں۔ 

کراچی کے بہت کم شہریوں کو اس مقام سے متعلق معلوم ہے کہ یہ کڈنی ہل پارک کہاں پر واقع ہے، کڈنی ہل جانے کے لئے آپ مختلف راستوں کا استعمال کرسکتے ہیں، ایک راستہ کوکن گرائونڈ حیدر علی روڈ سے اوپر کی جانب کڈنی ہل جاتا ہے، دوسرا راستہ رنگون والا ہال سے ذرا آگے بائیں جانب مڑنے کے بعد جاتا ہے، جبکہ تیسرا راستہ غازی صلاح الدین روڈ سی پی برار سوسائٹی سے بھی جاتا ہے۔

یہ خوبصورت، دلکش، دل آویز اور شہر کے حسین نظاروں سے مزین پارک آپ کی آمد کا منتظر ہے، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس پارک میں آنے کے لئے داخلہ بالکل مفت ہے جبکہ آپ اپنی ذاتی گاڑی کے ذریعہ بھی اس پارک کی سیر کرسکتے ہیں۔