• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

نواز سے آخری اوور کرانا بابراعظم کو مہنگا پڑ گیا

پاکستان اور بھارت کے میچ کو اعصاب شکن میچ قرار دیا جاتا ہے۔بھارتی کرکٹ ٹیم نے اپنے اعصاب کو کنٹرول میں رکھا اور پاکستان کے خلاف چار وکٹ سے کامیابی حاصل کی۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں اچھا ضرور کھیلی لیکن بہتر انداز سے فنش نہیں کرسکی۔بھارت نے سنسنی خیز مقابلے میں ویرات کوہلی کی یادگار اننگز سے پاکستان کو فتح سے محروم کیا۔ امپائروں کی جانب سے متنازع فری ہٹ اور پاکستانی کپتان بابر اعظم کی طر ف سے آخری اوور اسپنر محمد نواز کو دینے کا فیصلہ بھی پاکستان کی شکست کا سبب بنا۔

ویرات کوہلی نے زندگی کی بہترین ٹی ٹوئنٹی اننگز کھیلتے ہوئے پاکستان کو فتح سے دور کردیا۔ میلبور ن میں90 ہزار سے زائد تماشائیوں نے روایتی حریفوں کے درمیان اعصاب شکن میچ دیکھا۔ بابر اعظم صفر پر آوٹ ہوئے اور شاہین شاہ آفریدی کی بولنگ میں ردھم دکھائی نہ دیا۔ ویرات کوہلی نے53گیندوں نا قا بل شکست 82رنز بنائے۔ ان کی اننگز میں چار چھکے اورچھ چوکے شامل تھے۔

آخری اوور میں بھارت کو جیت کے لئے16رنز درکار تھے۔محمد نواز نے ہاریک پانڈیا کو آوٹ کیا، ویرات کوہلی نے ہاردیک پانڈیا کے ساتھ78 گیندوں پر 113 رنز بنائےاس شراکت نے بھارت کی مشکل جیت کو آسان کردیا۔ حالیہ مہینوں میں پاکستان کی جیت میں بابر اعظم اور محمد رضوان کی بیٹنگ اہم کردار ادا کرتی رہی ہے دونوں جلد آوٹ ہوئے اس کے باوجود افتخار احمد اور شان مسعود نے بولروں کو مقابلے کے لئے اچھا اسکور دیا۔ میلبورن کے میچ سے ایسا لگا کہ شاہین شاہ ابھی فٹ نہیں ہیں اس لئے انہیں سپورٹ دینے کے لئے پاکستان کو ایک اضافی فاسٹ بولر کھلانا چاہیے تھا۔

محمد نواز سے آخری اوور کرانا بھی بابر اعظم کی غلطی تھی۔ویرات کوہلی نے زبردست بیٹنگ کرکے پاکستانی پلان کو ناکام بنادیا۔آصف علی ایک بار پھر ناکام ہوگئے۔ پہلے میچ میں شکست کے بعد اب پاکستان کو دوسرا میچ زمبابوے کے خلاف جمعرات کو پرتھ میں کھیلنا ہے۔ جس انداز میں پاکستان نے ڈٹ کر بھارت کا مقابلہ کیا اس سے امید ہوچلی ہے کہ پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ میں اچھا فنش کرے گی۔

بابر اعظم کہتے ہیں کہ محمد نواز کو آخری اوور کرانے کا فیصلہ اس لیے تھا کہ میں نے مرکزی بولرز کو درمیانی اوورز میں اس لیے بولنگ دی کیونکہ ہمیں اس وقت وکٹوں کی ضرورت تھی لیکن ہمیں وکٹیں نہیں ملیں۔ نواز کے لیے آخری اوور کرانا آسان نہ تھا۔ 

کوہلی اور پانڈیا کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ شاہین کی بولنگ سے مطمئن ہوں اسے کچھ وقت چاہیے۔ اس نے فٹ ہونے کے بعد ٹیم میں واپس آکر اچھی بولنگ کی۔ شکست کے باوجود یہ میچ بہت کلوز رہا ہے۔ آسٹریلین کنڈیشن میں پاکستانی ٹیم فہیم اشرف کی طرح کے آل راونڈر کو مس کررہی ہے جو بیٹنگ بھی اچھی کر لیتے ہیں اگلے میچوں میں محمد وسیم کو شامل کرکے اعتماد دینا ہوگا۔ ایک جانب ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم بھارت کے خلاف میچ کی تیاریوں میں مصروف تھی بھارت کھیل میں سیاست کو ملوث کررہا تھا۔

بھارتی کرکٹ بورڈ کے سیکریٹری اور اے سی سی کے صدر جے شاہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ بھارت پاکستان نہیں جائے گا اورایشیا کپ غیر جانبدار مقام پر کھیلے گا۔ واضح رہے کہ طے شدہ شیڈول کے مطابق اگلا ایشیا کپ پاکستان میں ہونا ہے اور یہ فیصلہ ایشین کرکٹ کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی نے کیا تھا۔ جے شاہ ایشیئن کرکٹ کونسل کے بھی صدر بھی ہیں ، بی سی سی آئی کی سالانہ جنرل میٹنگ میں دوسری مدت کے لیے سیکریٹری منتخب کیا گيا ۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے ترجمان نے کہا ہے کہ یہ بیان ایشین کرکٹ کونسل یا پاکستان کرکٹ بورڈ کی مشاورت کے بغیر دیا گیا۔ 

شیڈول ایشیا کپ کی پاکستان سے منتقلی کا بیان آئی سی سی اور اے سی سی کو تقسیم کرنے کے مترادف ہے۔کرکٹ بورڈ نے واضح کیا کہ جے شاہ ہی کی صدارت میں منعقدہ اے سی سی اجلاس میں ایشیا کپ کی میزبانی پاکستان کے سپرد کی گئی تھی اور تاحال ایشین کرکٹ کونسل کے صدر کے بیان پر اے سی سی سے کوئی باضابطہ وضاحت موصول نہیں ہوئی ہے۔ 2023 میں بھارت میں شیڈول ورلڈکپ اور سنہ 2024 سے 2031 کے دوران بھارت میں شیڈول کئی کرکٹ ایونٹس میں پاکستان کی شرکت پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ترجمان پی سی بی کا کہنا ہے کہ جے شاہ کی جانب سے سوچے سمجھے بغیر دیے گئے اس بیان کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

بھارتی کرکٹ بورڈ کے سیکریٹری اور ایشین کرکٹ کونسل کے صدر جے شاہ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے بیٹے اور بھارتی کرکٹ میں سیاہ سفید کے مالک ہیں ان کی پالیسیوں میں بی جے پی سرکار کی جھلک دکھائی دیتی ہےبھارتی بورڈ میں ان کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔ ان کی موجودگی میں پاکستان اور بھارت کے کرکٹ روابط میں بہتری کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تین دن قبل بھارتی کرکٹ بورڈ کی صدرات سے سابق کپتان سارو گنگولی کو ہاتھ دھونا پڑے لیکن جے شاہ ایک بار پھر بھارتی بورڈ کے سیکریٹری بن گئے۔ سارو گنگولی کی جگہ کرناٹک کے راجر بنی بھارتی بورڈ کے نئے صدر بن گئے، انھیں بی سی سی آئی کی سالانہ جنرل میٹنگ میں دوسری مدت کے لیے سیکریٹری منتخب کیا گيا ہے۔

دوسری جانب بھارت میں اس بات پر بحث جاری ہے کہ جے شاہ کو دوسری مدت کے لیے بی سی سی آئی میں سیکریٹری کیوں منتخب کیا گیا ہے اور گنگولی کو دوسری مدت کیوں نہیں دی گئی ۔حالانکہ وہ بھارتی کرکٹ میں وہ ہیوی ویٹ تصور کئے جاتے ہیں۔ بھارت کو اگلے سال50 اوورز کے ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کی میزبانی کرنا ہے اگر بھارتی حکومت ٹیکس میں چھوٹ نہیں دیتی تو بھارتی کرکٹ بورڈ کو295کروڑ(116ملین ڈالرز) کا نقصان ہوسکتا ہے۔2023کے آئی سی سی ٹورنامنٹ پر ٹیکس سرچارج21.84فیصد ہے۔آئی سی سی کے قوانین کے مطابق میزبان ملک کو اس کے ٹورنامنٹ کو کرانے کے لئے اپنی حکومت سے ٹیکس کی چھوٹ حاصل کرنا ہوتی ہے۔

بھارت کے ٹیکس قوانین اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔ اس لئے میلبورن میں اگلے ماہ ہونے والی آئی سی سی بورڈ کی میٹنگ اہم ہےاگر بھارت نے شرائط پوری نہیں کیں تو اس سے ٹورنامنٹ کی میزبانی واپس بھی لی جاسکتی ہے اور متبادل ملک جنوبی افریقا ہے۔2016کے ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ کے ٹیکس کا کیس اب بھی آئی سی سی ٹریبونل میں زیر سماعت ہے۔ بھارتی حکومت نے چھ سال گذرنے کے باوجودٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ کے لئے193کروڑ (23.5ملین ڈالرز) کی چھوٹ ابھی تک نہیں دی ہے۔

ورلڈ کپ کی میزبانی دو شرائط سے مشروط ہے۔ بھارتی حکومت کو انٹر نیشنل کرکٹ کونسل کو ٹیکس میں چھوٹ کی تحریری یقین دہانی کرانا ہوگی اور تحریری طور پراس بات کی بھی یقین دہانی کرانا ہوگی کہ ٹورنامنٹ میں شریک ملکوں کے کھلاڑیوں، صحافیوں اور شائقین کو بھارت کے ویزے جاری کئے جائیں گے۔ اگر ٹیکس سے استثنی نہیں دیا گیا تو ٹورنامنٹ کھیلنے والے ہر ملک کی آمدنی کے شیئر سے اوسطا پانچ ملین ڈالرز کاٹے جائیں گے آئی سی سی شدت سے دونوں معاملات پر بھارتی حکومت کے خطوط چاہتا ہے۔ بھارت میں ماضی میں بھی ٹیکس کے معاملات سنگین رہے ہیں۔2011کے ورلڈ کپ کے لئے بھارتی بورڈ کے اس وقت کے سربراہ اور سیاست دان شر د پوار نے اپنا اثر و رسو خ استعمال کرتے ہوئے حکومت سے استثنی حاصل کیا تھا۔

ابھی تک بھارتی حکومت نے ٹیکس میں چھوٹ کی یقین دہانی نہیں کرائی ہے۔صحافیوں اور تماشائیوں کے ویزوں کے حوالے سے پاکستانیو ں کو مسائل پیدا ہوسکتے ہیں کیوں کہ پاکستانیوں کو ویزے جاری کرنے کے حوالے سے بھارت کی پالیسی سخت ہے۔2016کے ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ میں صحافیوں کو پولیس رپورٹنگ ویزوں کا اجراء کیا گیا تھا۔ واضع رہے کہ پی سی بی کا کہنا ہے کہ ایشین کرکٹ کونسل کے صدر جے شاہ کے بیان سے 2023 میں بھارت میں شیڈول ورلڈکپ اور 2024 سے 2031 تک بھارت میں شیڈول آئی سی سی کے ایونٹس میں پاکستان کی شرکت پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ اگلے ماہ میلبورن میں آئی سی سی میٹنگ میں رمیز راجا بھارتی بورڈ کی جانب سے ایشیا کپ میں شرکت کے لئے پاکستان آنےسے انکار کا معاملہ اٹھائے گا۔ پاکستان کو اگلے سال ایشیا کپ اور 2025میں آئی سی سی چیمپنز ٹرافی کی میزبانی کرنا ، لیکن بھارتی کرکٹ بورڈ کی پاکستان مخالف دشمنی کھیل کو نقصان پہنچا رہی ہے ایسے میں رمیز راجا کے موقف سے بھارت کو مشکل ہوسکتی ہے سوال یہی ہے کہ رمیز راجا نے جو موقف اختیار کیا ہے اس سے اب یوٹرن نہیں لینا چاہیے۔ بھارت کو اس کی پاکستان مخالف پالیسیوں سے منہ کی کھانا پڑے گی۔ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کی کارکردگی سے رمیز راجا اور پاکستان کا کیس مضبوط ہوگا۔

اسپورٹس سے مزید
کھیل سے مزید