اردو میں خاص قسم کے حالات و کیفیات اورخاص مواقع کے لیے الگ الگ اور مخصوص الفاظ ہیں جو کسی چیز کی بنیادی خاصیت یا بقولِ پنڈت کیفی ’’ جوہری کیفیت ‘‘ کو آشکار کرتے ہیں۔ صرف جانوروں کے ضمن میں مستعمل الفاظ کو لیجیے۔ مختلف جانوروں کی آوازوں کے لیے اردو میں مختلف الفاظ استعمال ہوتے ہیں ، پھر مختلف جانوروں کے بچوں کے لیے منفرد الفاظ ہیں اور جانوروں کے مسکن کے لیے بھی متنوع الفاظ اردو میں موجود ہیں۔جان ٹی پلیٹس، پنڈت دتاتریہ کیفی ، شان الحق حقی اور بعض دیگر اہل علم نے اس ضمن میں خوب داد ِ تحقیق دی ہے۔ اِنھیِں حضرات کی کتابوں سے استفادہ کرتے ہوئے طالب علموں کی دل چسپی کے خیال سے اس سلسلے میں یہاں کچھ عرض کیا جارہا ہے۔
٭…جانوروں کی آوازیں
اردو میں مختلف جانوروں کی آوازوں کو ظاہر کرنے کے لیے الگ الگ افعال ہیں، جیسے : گھوڑا ہِنہِناتا ہے، گدھا رینکتا ہے(گاف سے رینگنا نہیں بلکہ کاف سے رینکنا)، جھینگر جھَنکارتا ہے (اسے جھنگارنا بھی کہتے ہیں)، موربھی جھنکارتا ہے بلکہ پلیٹس نے ٹِڈے کی آواز کو بھی جھنکارنا لکھا ہے۔ چڑیا چہچہاتی ہے، کتا بھونکتا ہے، مکھی بھنبھناتی ہے، مرغی کُڑکُڑاتی ہے، شیر دھاڑتا ہے، ہاتھی چنگھاڑتا ہے، بھیڑیا غرّاتا ہے، اونٹ بِلبِلاتا ہے (لیکن مستی میں بَغبَغاتا ہے)، کویل کُوکتی ہے، الو ہُوکتا ہے، اژدہا پُھنکارتا ہے، سانپ بھی پھنکارتا ہے،گلہری چٹ چٹاتی ہے، مینڈک ٹر ّاتا ہے، چیِل چِلاّتی ہے، بندر خوخیاتا ہے لیکن پنڈت کیفی نے بندر کی آواز کے لیے’’ گھگیانا ‘‘ لکھا ہے۔
بکری ممیاتی ہے۔ پلیٹس کی لغت نے بکری کی آواز کے دو تلفظ دیے ہیں اور اس کے مطابق مِیم (م ) پر زبر سے بھی یہ لفظ ہے اور زیر سے بھی یعنی اس کا تلفظ مِمیانا بھی ہے اور مَمیانا بھی۔ پلیٹس نے لکھا ہے کہ یہ bleat کے مفہوم میں ہے اوربکری کے علاوہ بھیڑ کی آواز کے لیے بھی آتا ہے۔
گائے رانبھتی ہے،اور یہان نون غنہ ہے ۔ پلیٹس کے مطابق رانبھنا مویشیوں کی آواز کے مفہوم میں ہے۔ لیکن اردو والے بھینس کی آواز کو ڈکرانا کہتے ہیں (ڈال پر زبر کے ساتھ)یعنی بھینس ڈَکراتی ہے۔ پلیٹس کہتا ہے بیل کی آواز کو بھی ڈکرانا کہتے ہیں ۔مجازاً اونچی آواز میں یا بہت تکلیف سے رونے کو بھی ڈکراناکہا جاتا ہے۔ ویسے تو اونچی آواز میں رونے کے لیے اردو میں اور بھی الفاظ ہیں مثلاً بَنکارنا ، لیکن بنکارنا کا ایک اور مفہوم بھی ہے اور وہ یہ کہ جس پر جن بھوت کا اثر ہو یا بد روح آئی ہوئی ہو وہ جس آواز میں بولے اسے بنکارنا کہتے ہیں۔
بعض جانوروں کی آوازوں کو ظاہر کرنے والے الفاظ ان آوازوں کی تقریباً ہو بہو نقل ہیں اور انھیں نقلِ صَوت (یعنی آواز کی نقل ) کہتے ہیں، مثلاً: بلی میائوں میائوں کرتی ہے، مرغا ککڑوں کوں کرتا ہے، کوا کائیں کائیں کرتا ہے، بکری مَیں مَیں کرتی ہے،گدھا ڈھینچوں ڈھینچوں کرتا ہے، چڑیا چوں چوں کرتی ہے،کبوتر غٹرغوں کرتا ہے، بطخ قیں قیں کرتی ہے ، توتا ٹیں ٹیں کرتا ہے،مکھی بھن بھن کرتی ہے،مینڈک ٹر ٹر کرتا ہے، کتا عف عف کرتا ہے، پپہیا ’’پی پی‘‘ کرتا ہے اور ’’پی کہاں ؟پی کہاں ؟‘‘بھی بولتا ہے۔ شاعر حضرات کا کہنا ہے کہ پپیہے کی ’’پی ‘‘ سے مراد پیا یعنی ساجن ہے۔
اکبر الہٰ آبادی کا مصرع ہے:
پپیہے پکارا کیے پی کہاں
شمس الرحمٰن فاروقی کے مطابق پپیہے کی آواز کو ’’ٹیرنا‘‘ کہتے ہیں۔ اور یہ فہرست صرف جانوروں کی آوازوں سے متعلق ہے، دیگر آوازوں کی طویل فہرست اس کے علاوہ ہے۔اس کا ذکر پھر کبھی سہی۔
٭…جانوروں کے مسکن
اردو میں جانوروں کے مسکن کے لیے جو مختلف اور منفرد الفاظ استعمال ہوتے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں : شیر کی کچھار ہوتی ہے، پرندوں کا گھونسلا ہوتا ہے، چوہے کا بِل ہوتا ہے، چیونٹی کا بھی بِل ہوتا ہے، اورسانپ کا بھی بِل ہوتا ہے مگر سانپ کے رہنے کی جگہ کے لیے ایک اور لفظ ’’بانبی ‘‘ بھی ہے ، یاد رہے کہ بانبی میں نون غنہ ہے یعنی اس کا صحیح تلفظ ’’باں ۔بی ‘‘ہوگا۔ڈبلیو ایس فیلن کی لغت میں لکھا ہے کہ اس کا ایک املا بانبئی (تلفظ:باں ۔بَئی) بھی ہے اور فیلن نے لکھا ہے کہ سانپ کے بِل کے علاوہ چیونٹیوں کے بِل کو بھی بانبی کہتے ہیں۔
شہد کی مکھیوں اور بھِڑوں کا چھتّا ہوتا ہے۔ اس کو بعض لوگ چھتا کے بجائے چھتہ لکھتے ہیں ،یعنی آخر میں الف کی جگہ ہائے مختفی (ہ) بھی لکھتے ہیں لیکن الف (یعنی چھتا ) لکھنا بہتر ہے کیونکہ یہ عربی یا فارسی کا لفظ نہیں ہے۔ خرگوش کا بھٹ ہوتا ہے اور فیلن کا کہنا ہے کہ اصل میں بھ پر زبر کے ساتھ بھَٹ ہے مگروہ کہتا ہے کہ اس کا ایک اورتلفظ بھی ہے یعنی بھِٹ (یعنی بھ کے نیچے زیر کے ساتھ)، البتہ فیلن کے مطابق بھ کے نیچے زیر کے ساتھ یعنی بھِٹ دراصل دیہاتی تلفظ ہے۔ فیلن نے بھٹ کو اسم اور مونث لکھا ہے لیکن صحیح مذکر ہے ، یعنی بھٹ ہوتا ہے، ہوتی نہیں ہے۔ اردو لغت بورڈ نے بھی اس کے دو تلفظ بھَٹ اور بھِٹ دیے ہیں اور اسے مذکر لکھا ہے۔ بورڈ نے ساتھ ہی حالیؔ کی سند دی ہے جس سے اس کا مذکر ہونا ظاہر ہے۔ گیدڑ ، لومڑی اور بھیڑیے مسکن کو بھی بھٹ کہتے ہیں۔
گھوڑے کا تھان یا اصطبل ہوتا ہے اور طویلہ( یا طویلا )بھی اصطبل ہی کو کہتے ہیں۔
٭…جانوروں کے بچے
مختلف جانور وں کے بچوں کے بھی اردو میں خاص نام ہیں ، مثلاً کتے کا پِلا ہوتاہے لیکن بلی کا بلونگڑا ہوتا ہے۔ ہرن کے بچے کو ہرنوٹا اور سانپ کے بچے سنپولیا اور سنپولا کہتے ہیں۔ گائے کے بچے کو بچھڑا کہتے ہیں یا اگر مادہ ہو تو بچھڑی۔ لیکن بھینس کا بچہ کٹڑا کہلا تا ہے اور مادہ ہو تو کٹڑی ۔ بکری کے بچے کو میمنا اور بھیڑ کے بچے کو برہ کہتے ہیں۔ اُلو کا پٹھا ہوتا ہے اور ہاتھی کاپاٹھا۔ بلکہ اردو میں ’’ساٹھا پاٹھا‘‘ مشہور ہے ، یعنی ساٹھ سال کا آدمی جو نوجوانوں جیسی توانائی اور صحت رکھتاہواسے ساٹھا پاٹھا کہتے ہیں۔
سُوّر کے بچے کو گھیٹا کہتے ہیں۔گھوڑی کا بچہ بچھیرا ہوتا ہے یا بچھیری۔ مرغی کا چوزہ ہوتا ہے، شان الحق حقی صاحب کے مطابق چوزے کے لیے ایک لفظ ’’چینچلا ‘‘ بھی ہے۔چینچلا میں یائے مجہول ہے اور نون غنہ۔ لیکن پلیٹس کا کہنا ہے کہ کسی بھی پرندے کے بچے کو چینچلا کہتے ہیں۔