• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
رشی سوناک برطانیہ کے وزیراعظم بن گئے ہیں، ان کے وزیراعظم بننے پر دلچسپ زاویئے سے ایک پروگرام میں گفتگو سنی، رشی سوناک کی اہلیہ اکشاتا نارائن مورتھی بہت امیر خاتون ہیں، ارب پتیوں کی بیٹی ہیں، ان کے والد ملٹی نیشنل آئی کمپنی INFOS کے مالک ہیں۔ مورتھی اس کمپنی کے صرف ایک فیصد کی حصے دار ہیں، جہاں سے اسے صرف گزشتہ برس 12 ملین ڈالر منافع کا حصہ ملا، باقی ذرائع سے جو روزانہ، ہفتہ وار اور ماہانہ رقم کی بارش ہوتی ہے وہ علیحدہ ہے۔ رشی سوناک کا خاندان اچھی خوشحال کلاس سے تو ہے لیکن اپنی بیوی اور سسرال کی طرح ارب پتی قطعی طور پر نہیں ہے، ارب پتیوں کا داماد بننا جب کہ کوئی طبقاتی مقابلہ نہ ہونے کے برابر ہو خاصا احساس کمتری کاسبب بن سکتاہے، ارب پتی بننا تو رشی کے اختیار میں نہیں البتہ تعلیم اور سیاسی سوچ اور سیاست میں اعلیٰ مقام ہی اسے سسرال کے ہم پلہ بنا سکتا ہے ،اس لئے رشی نے سردھڑ کی بازی لگا کر وزارت عظمیٰ تک پہنچنے کی کامیاب کوشش کی ہے، اب اسے ارب پتی سسرال یا ان کی لاڈلی یعنی رشی کی بیوی حیثیت کا کوئی طعنہ دینے کے قابل نہیں رہے، ہے تو چھوٹی سی بات لیکن دلچسپ ہے، رشی سوناک نے برطانیہ کے سب سے Elitist ادارے سے تعلیم حاصل کی، ونچسٹر کالج کی سالانہ فیس تقریباً 50ہزار پونڈ ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی سےفلسفہ، سیاسیات اور اکنامکس میں ڈگریاں لے چکے ہیں۔ اکشاتا نارائن مورتھی جو کہ رشی سے صر ف عمر میں ایک ماہ بڑی ہیں، کی 2009ء میں رشی سوناک سے شادی ہوئی، اکشاتا انڈین بزنس لیڈی، فیشن ڈیزائنر اوربڑی وراثت پر بیٹھیں ایک سرمایہ دار خاتون ہیں ، ان کے والدین 1960ء کی دہائی میں ایسٹ افریقہ سے برطانیہ آکر آباد ہوئے، والد ڈاکٹر (GP) تھے اور والدہ اپنی فارمیسی چلاتی تھیں، رشی سوناک نے پارلیمنٹ میں آنے سے پہلے ہی اپنے نام کی جائیداد بیوی کے نام کر دی تھی، اکشاتا انڈین پاسپورٹ ہونے کی وجہ سے اپنی وراثت اور آمدنی کا ٹیکس یہاں برطانیہ میں نہیں ادا کرتی تھیں، انہیں Non Domiciled Status کہتے ہیں جس کی وجہ سے برطانیہ میں ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہو جاتا ہے، یہاں برطانیہ میں بہت سی بڑی کمپنیاں یہ کام کرتی رہتی ہیں، آف شور ہونے یا بیرون ڈومیسائل سے ٹیکس میں چھوٹ مل جاتی ہے، رشی سوناک نے ویسے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کا کوئی ورکنگ کلاس کادوست نہیں ہے، یہ دوستیاں بھی دراصل سب طبقاتی برابری میں ہی ہوتی ہیں، اس وقت رشی سوناک اور ان کی بیوی کے اثاثے ملا کر 810 ملین ڈالر ہیں جو کہ بظاہر کنگ چارلس III کی دولت سے تقریباً ڈبل ہے، ویسے برطانیہ کی تاریخ میں 200 سال قبل ایڈورڈ سٹنلے نامی وزیراعظم گزرا ہے جو کہ 1852-1866ء کے عرصے میں وزیراعظم تھا۔ اسے رشی سوناک سے پہلے برطانیہ کا امیر ترین وزیراعظم کہا جاتا تھا جس کے اثاثے آج کے حساب سے 444 ملین پاؤنڈ تھے۔ لیکن اب رشی سوناک برطانوی تاریخ کاسب سے امیر، کم عمر،غیر عیسائی اوررنگدار وزیراعظم ہے، یہ تمام اعزازات رشی سوناک کومنفرد حیثیت دیتے ہیں، جب کسی کو ارب پتی مان لیا جائے توپھر اس کی جائیدادوں کا کیاشمارکرنا جو کچھ بھی ہوگا ملینز میں ہی ہوگا، ان تمام چیزوں کا ذکر کرنے کا مقصد دراصل رشی سوناک کا طبقاتی پس منظرسمجھنا تھا تاکہ رشی سوناک کی بطور وزیراعظم سیاست اور پالیسی سازی کے احکامات کو سمجھا جا سکے کیونکہ اس وقت برطانیہ کی اقتصادیات شدید بحرانی کیفیت میں ہے۔ رشی سوناک نے آئندہ کافی مشکل فیصلے لینے کا بھی اعلان کیا ہے یعنی عوام پر ابھی مزید مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ آنے والا ہے۔ یوں تو رشی سوناک کو کوویڈ کے دوران بطور وزیرخزانہ فرلو اسکیم کے اجرا پر بہت سراہا جا رہا ہے، اس نے فرلو اسکیم کا اجرا کرکے بے شمار کاروبار تباہ ہونے سے بچا لیے، ورکرز اور ملازمین کو کئی مہینے گھربیٹھے پوری پوری تنخواہ دے کر بے روزگار ہونے سے بچا لیا، گوکہ اس اسکیم میں کئی ارب پاؤنڈ فراڈ کی نذر ہوگئے یا ان کاتاحال کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ دراصل بہت سی کمپنیوں نے حکومت سے اس اسکیم کے تحت رقوم لے کر کاروباربندکر دیئے یا کئی ملک سے فرار ہوگئے، سرمایہ داری نظام میں اس قسم کے بینکنگ نظام میں ایسے فراڈ معمول کی بات ہے، تاہم اس وقت برطانیہ میں انرجی کے بحران نے ساڑھے چھ کروڑ عوام کے مستقبل کوانتہائی غیر یقینی کرکے رکھ دیا ہے، رشی سوناک کی حکومت بھی یوکرین کی جنگ کو کامیاب منطقی انجام تک پہنچانے کا اعادہ کر رہی ہے جس سے موجودہ معاشی بحران حل ہوتا نظر نہیں آتا،راقم کے خیال میں تو اس وقت جب کہ صرف سات ہفتوں کے عرصے میں ٹوری حکومت تین وزرائے اعظم تبدیل کر چکی ہے، اسے فوری انتخابات کا اعلان کرنا چاہئے تاکہ پورے مینڈیٹ کے ساتھ نئی حکومت وجود میں آئے اور ایسے اہم فیصلے کرسکے جو موجودہ معاشی بحران سے عوام کونکال سکیں اور آئندہ برسوں میں کساد بازاری کی پیش گوئیوں کوجھٹلا سکیں، کنزرویٹو کے علاوہ دیگر تمام سیاسی جماعتیں بھی اس وقت نئے انتخابات کا انعقاد ہی چاہتی ہیں۔
یورپ سے سے مزید