• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ٹی20 ورلڈ کپ: کھلاڑیوں کی کارکردگی نے تیاریوں کو بے نقاب کردیا

ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے آغاز سے قبل شاید کسی کو یہ توقع ہی نہیں تھی کہ پاکستانی ٹیم کو سیمی فائنل کھیلنے کے لالے پڑ جائیں گے۔ بھارت کے ہاتھوں آخری گیند پر چار وکٹ سے شکست اور پھر زمبابوے کے خلاف بھی جیتا ہوا میچ ایک رن سے ہارنے کے بعد شائقین کرکٹ سکتے میں آگئے ہیں۔ اب پاکستانی کرکٹ ٹیم دوسری ٹیموں کے رحم کرم پر ہے۔بنگلہ دیش اور جنوبی افریقا کے خلاف میچ جیتنے ہیں، نیدر لینڈ کے خلاف اس نے فتح حاصل کرلی، تاہم مایوس شائقین ٹیم میں تبدیلی کی دھائی دے رہے ہیں۔

سابق ٹیسٹ فاسٹ بولر عاقب جاوید نے چیف سلیکٹر محمد وسیم کی تبدیلی کا مطالبہ کردیا،جبکہ کچھ جذباتی پاکستانی بابر اعظم کو قیادت سے ہٹانے کی باتیں کررہے ہیں۔ کہنے والے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کا ورلڈ کپ ختم ہوگیا، سابق فاسٹ بولر شعیب اختر کہتے ہیں کہ سب سے شائستہ انداز میں بھی اسے شرمناک ہار کہا جائے گا۔ اگر زمبابوے ہے تو خود ہی ہو جائے سب کچھ؟ نہیں، خود نہیں ہوتا، کرنا پڑتا ہے۔اوسط ذہنیت، اوسط نتائج۔ یہ حقیقت ہے، اس کا سامنا کریں، شعیب کی طرح دیگر سابق کرکٹر بھی موجودہ کارکردگی پر ٹیم سے ناراض ہیں۔

اس صورت حال میں پاکستان کے لئے سیمی فائنل کھیلنا ناممکن نہیں، مشکل ضرور ہے۔ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں زمبابوے کے خلاف کانٹے کے مقابلے میں شکست نے پاکستانی شائقین کو حیران اور پریشان کر دیا ہے ،وہ مسلسل اس سوال کے گرد بحث کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ آیا اس کے بعد بھی پاکستان کے لیے ٹورنامنٹ میں واپسی کے کوئی امکان ہیں۔ پہلے میلبورن میں بھارت کے خلاف شکست اور پھر پرتھ میں زمبابوے کی ایک رن سے فتح نے ان اعداد و شمار کو مزید نمایاں کر دیا ہے کہ پاکستان نے آج تک آسٹریلیا میں ایک بھی ٹی ٹوینٹی انٹرنیشنل میچ نہیں جیتا۔

بھارت کے د یئے گئے زخم ابھی شائقین کے دلوں میں تازہ تھے کہ اب ایک اور شکست نے پاکستانی ٹیم اور کھلاڑیوں کی کارکردگی پر تبصروں کا سلسلہ تیز کر دیا۔تکنیکی اعتبار سے پاکستان ابھی ٹورنامنٹ سے باہر نہیں ہوا لیکن بظاہر اب گروپ ٹو میں اس کے ٹاپ دو ٹیموں میں آنے اور سیمی فائنل تک رسائی کے امکان معدوم ہوگئے۔ ایشیا کپ ،انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز، نیوزی لینڈ کے تین قومی ٹورنامنٹ اور اب ورلڈ کپ سےقبل بار بار توجہ مڈل آرڈر بیٹنگ کے مسائل کی جانب دلائی گئی، لیکن ہیڈ کوچ ثقلین مشتا ق اور کپتان بابر اعظم نے مشوروں کو ہوا میں اڑا دیا۔ 

پاکستانی بیٹنگ کا بوجھ بابر اعظم اور محمد رضوان کے کاندھوں پر تھا جب یہ دونوں جلد آوٹ ہوئےتو مڈل آرڈر بری طرح لڑکھڑائی ، افتخار احمد،آصف علی،حیدر علی ،خوش دل شاہ ،شاداب خان کی غیر مستقل مزاج کارکردگی نے اب ٹیم کو ورلڈ کپ کے آغا ز ہی میں مشکل میں ڈال دیا ہے۔ شان مسعود کارکردگی ضرور دکھا رہے ہیں لیکن وہ میچ فنش نہیں کر پارہے ہیں۔ زمبابوے کے خلاف شان مسعود نے ہیرو بننے کا موقع گنوادیا اس سے قبل بھی انہوں نے تین نصف سنچریاں ان میچوں میں بنائیں تھیں لیکن پاکستان کی ٹیم ہاری تھی۔کرکٹ ٹیم گیم ہے اور یہ کس طرح ممکن ہے دو تین کھلاڑی بار بار میچ جتوائیں۔زمبابوے کے خلاف شرم ناک شکست نان ریگولر اسپنر سکندر رضا کی تین وکٹوں کی وجہ سے ہوئی۔زمبابوے کے غیر معروف بولروں نے پاکستانی بیٹنگ سورمائوں کو تگنی کا ناچ نچا دیا۔ 

زمبابوے نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے جارحانہ آغاز کیا مگر حارث رؤف نے بریک تھرو دلا کر ان کے بلے بازوں کو بیک فٹ پر دھکیل دیا۔محمد وسیم نے تین وکٹیں حاصل کیں اور شاداب کی دو وکٹوں کی بدولت زمبابوے کی ٹیم 20 اوورز میں آٹھ وکٹوں کے نقصان پر محض 130 رنز بنا سکی۔اس سے یہ تاثر ملا کہ 131 رنز کا ہدف تو ماڈرن کرکٹ میں حاصل کرنا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں۔ پاکستانی شائقین کی نظریں بابر اعظم اور محمد رضوان پر ٹکی ہوئی تھیں جنھوں نے بھارت کے خلاف ا سکور بورڈ پر کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا تھا۔ اس میچ میں بھی پاکستان کی یہ جوڑی ناکام رہی اور تمام امیدوں کا دار و مدار مڈل آرڈر کی غیر یقینی سے وابستہ ہوگیا۔ نگاراوا اور مزربانی نے آغاز سے ہی پاکستانی بیٹرز کو دباؤ میں رکھا۔

افتخار احمدکی وکٹ گِرنے کے بعد شان مسعود اور شاداب خان نے 52 رنز کی شراکت سے ٹیم کوسہارا دیا۔ تاہم شاداب سکندر رضا کو ایک چھکا لگانے کے بعد اگلی ہی گیند پر باؤنڈری پر کیچ آؤٹ ہوگئے جس کے بعد حیدر علی پہلی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوکر پویلین لوٹ گئے۔ حیدر کی حالیہ کارکردگی سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی وکٹ ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں۔ آخری اوور میں 11 رنز درکار تھے جن میں سے آٹھ رنز تو محمد وسیم نے پہلی تین گیندوں پر ہی بنا لیے تھے۔ تاہم ایک ڈاٹ گیند کے بعد نواز کی وکٹ گِر گئی اور آخری گیند پر شاہین دوسرا رن بنانے کی کوشش میں رن آؤٹ ہوگئے۔

پاکستان نے گذشتہ سال ورلڈ کپ کا سیمی فائنل کھیلا تھاچند دن پہلے نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں تین قومی ٹورنامنٹ جیتاتھا۔ لیکن ہاف فٹ شاہین شاہ آفریدی اور نامکمل فٹ فخر زمان کی موجودگی میں پاکستان کا سیمی فائنل میں جانا ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فارمیٹ کچھ یوں ہے کہ 12 ٹیموں کو دو گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے۔گروپ ون میں نیوزی لینڈ تین پوائنٹس کے ساتھ سرفہرست ہے اور یوں گروپ میں پہلی دو پوزیشنز (یعنی جو ٹیمیں سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرسکتی ہیں) کی دوڑ کافی حد تک برقرار ہے۔ گروپ ٹو میں پاکستان کے لیے جگہ تنگ ہو گئی ہے۔بھارت اس گروپ میں اپنے دونوں میچز جیتنے کے بعد پہلے نمبر پر ہے جبکہ جنوبی افریقا اور زمبابوے تین، تین پوائنٹس کے ساتھ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبروں پر ہیں۔

جنوبی افریقا اور زمبابوے کا میچ بارش کی وجہ سے منسوخ ہوگیا تھا اور دونوں ٹیموں کو ایک، ایک پوائنٹ ملا تھا۔ جنوبی افریقہ نے بنگلہ دیش کے خلاف میچ 104 رنز کے بڑے مارجن سے جیتالہٰذا اس کا رن ریٹ بہتر ہے۔بنگلہ دیش نے نیدرلینڈز کے خلاف اپنا میچ جیتا تھا لہٰذا یہ دو پوائنٹس کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔ مگر پاکستان نے اب تک دونوں میچوں میں شکست کھائی ہے اور یوں یہ پانچویں نمبر پر ہے۔اگر اس صورتحال میں پاکستان کو سیمی فائنل تک پہنچنا ہے تو اسے ایک جملے میں کچھ یوں بیان کیا جا سکتا ہے: پاکستان اور بھارت اپنے تمام بقیہ میچز جیت جائیں۔ مگر بات اس سے زیادہ پیچیدہ ہے اور ٹورنامنٹ میں اب بھی کچھ میچز کے دوران بارش اور اپ سیٹس کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ 

سیمی فائنل تک رسائی کے لیے یہ ہونا ضروری ہے۔زمبابوے کم از کم اپنے دو میچ ہار جائےجنوبی افریقا اور بھارت ، پاکستان کے خلاف اپنے میچز ہار جائیں۔پاکستان کو کسی ہمسایہ ایشین ٹیم (بھارت یا بنگلہ دیش) کی مدد درکار ہوگی ۔مگر چھ پوائنٹس حاصل کرنا بھی شاید سیمی فائنل تک رسائی کے لیے ناکافی ثابت ہوں کیونکہ عین ممکن ہے کہ گروپ میں مزید اپ سیٹس دیکھنے کو ملیں یا بارش کی وجہ سے میچز متاثر ہوں۔ یہ ممکن ہے کہ پھر سے کسی میچ میں بارش کی وجہ سے ٹیموں کو ایک، ایک پوائنٹ ملے اور پوائنٹس برابر ہونے کی صورت میں بات رن ریٹ تک پہنچ جائے۔اس وقت آسٹریلیا کے موسم کی پیشگوئی بہت مشکل ہے۔ 

پاکستان اور بھارت کا میچ بارش کی وجہ سے منسوخ ہونے کا امکان تھا مگر ہم نے مکمل میچ ہوتا دیکھا۔ دوسرے مواقع پر بارش ہوئی جبکہ اس کی پیشگوئی کم تھی۔آئی سی سی کی ویب سائٹ کے مطابق سیمی فائنل تک رسائی کے لیے کپتان بابر اعظم کو اپنے تینوں بقیہ میچز جیتنا ہوں گے۔ تاہم اب معاملہ صرف پاکستان کے ہاتھ میں نہیں۔ اگر بھارت، زمبابوے یا جنوبی افریقا میں سے صرف دو ٹیمیں اپنے بقیہ تین میچوں میں سے دو میچ جیت جائیں تو ان کے چھ سے زیادہ پوائنٹس ہوجائیں گے۔پاکستان اب تینوں میچ جیتنے پر بھی زیادہ سے زیادہ چھ پوائنٹس حاصل کر سکتا ہے۔آئی سی سی کے مطابق ’نیٹ رن ریٹ بھی ایک فیکٹر ہوسکتا ہے، پاکستان کو بقیہ تین میں سے کم از کم ایک میچ میں بڑے مارجن کی فتح سبقت دلا سکتی ہے۔ 

بھارت کے میچ کا سب نے مزہ لیا اور سب نے تعریف کی لیکن گذشتہ ورلڈ کپ میں پانچ لگاتار میچ جیتنے والی پاکستانی ٹیم اگر زمبابوے کے خلاف 130رنز نہ بناسکے اور میچ ہارجائے تو پھر ٹیم کی کارکردگی پر سوالات تو بنتے ہیں۔سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے زمبابوے کے کرکٹر سکندر رضا کے لیے یہ سال انتہائی کامیاب ثابت ہوا ہے جس میں وہ ایک کے بعد ایک قابل ذکر کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہے ہیں،پاکستان کے خلاف ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میچ میں ایک رن کی ڈرامائی جیت کو وہ اپنے کیریئر کا سب سے یادگار لحمہ قرار دیتے ہیں۔ 

اس میچ میں سکندر رضا بیٹنگ میں قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے لیکن بولنگ میں شان مسعود، حیدر علی اور شاداب خان کی اہم وکٹیں لے کر کھیل کا پانسہ پلٹنے میں کامیاب ہو گئے۔ زمبابوے نے محض دوسری مرتبہ پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں شکست دی ہے۔ اس سے قبل 2021 میں ہرارے میں بھی اس نے ایک کم ا سکور 118 کا دفاع کرتے ہوئے پاکستان کو صرف 99 رنز پر آؤٹ کر کے میچ 19 رنز سے جیتا تھا۔سکندر رضا کہتے ہیں میں جب سے زمبابوے کی کرکٹ ٹیم کا حصہ بنا ہوں یہ جیت میرے کیریئر کی سب سے بڑی اور یادگار فتح ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ورلڈ کپ ہے اس سے بڑا ایونٹ کوئی اور نہیں ہو سکتا اور پھر سب سے اہم بات کہ سامنے پاکستان کی شکل میں ایک بڑی ٹیم تھی جس کےخلاف ایک کم اسکور کا کامیابی سے دفاع کرتے ہوئے صرف ایک رن کے فرق سے کامیابی حاصل کرنا کبھی نہ بھولنے والی بات ہے۔سکندر رضا کی انکساری دیکھ کر حیرانگی ہوتی ہے دوسری جانب افتخار احمد نے بھارت کے خلاف پچاس رنز بناکر ناقدین کو آڑے ہاتھوں لیا اور اگلے میچ میں وہ بری طرح ناکام ہوگئے۔ 

بابر اعظم کا کہنا ہے کہ اس نتیجے کی میں توقع نہیں کر رہا تھا۔ بیٹنگ نے مایوس کیا ہے۔ میرے اور رضوان کے آؤٹ ہونے کے بعد بیٹنگ لائن سنبھل نہ سکی۔ ہم ساتھ بیٹھیں گے اور اپنی غلطیوں سے سیکھیں گے تاکہ اگلے میچ میں بہتر کارکردگی دکھا سکیں۔ یہ درست ہے کہ ہماری سیمی فائنل تک رسائی مشکل ہو رہی ہے، ہم اگلے میچوں میں اچھا کھیلنے کی کوشش کریں گے۔حقائق یہی بتاتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم نے اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا اور ٹیم شدید دبائو میں ہے۔ بابر اعظم الیون کو اپنی کارکردگی کے ساتھ دیگر کی کارکردگی پر بھی انحصار کرنا ہوگا۔یعنی ایک بار پھر ٹیم پاکستان اگر اور مگر کی آس پر ہے۔

پاکستان ٹیم کیلئے سب سے پہلا ہدف تو یہ ہے کہ اس کو اب ہارنا نہیں ، اگلے میچز میں اسے جنوبی افریقا اور بنگلہ دیش کو شکست دینی ہوگی ۔ اگر کہیں بھی کچھ اوپر نیچے ہوا تو سمجھے کام ختم ۔ پاکستان کے تمام اگر مگر کا کافی حد تک انحصار بھارت اور جنوبی افریقا کے درمیان میچ پر ہوگا، اگر اس میچ میں بھارت جیتا تو پاکستان کیلئے امید کی کرن زیادہ روشن رہے گی لیکن اگر جنوبی افریقا نے بھارت کو شکست دی پھر پاکستان کو امید لگانا پڑے گی کہ نیدرلینڈز جنوبی افریقا کے خلاف اپ سیٹ کردے اور بھارت کو بھی زمبابوے سے شکست ہوجائے ۔ پاکستان کی ٹاپ فور تک رسائی کیلئے مداح تو دعا کررہے ہیں لیکن دعا کے ساتھ دوا کی بھی ضرورت ہے۔

اسپورٹس سے مزید
کھیل سے مزید