• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیرِ اعظم کو ملک چلانا نہ آئے تو کیا عدلیہ چلائے گی؟ جسٹس منصور

جسٹس منصور علی شاہ—فائل فوٹو
جسٹس منصور علی شاہ—فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان میں نیب ترامیم کے خلاف پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے عمران خان کے وکیل سے استفسار کیا کہ وزیرِ اعظم کو ملک چلانا نہ آئے تو کیا عدلیہ ملک چلائے گی؟

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ نے عمران خان کی درخواست کی سماعت کی۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ غیر قانونی آمدن پر نیب کا اختیار بھی ترامیم میں ختم کر دیا گیا، ایمنسٹی اسکیم صرف کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے ہوتی ہے، نیب ترامیم سے پہلے نیب کو ایمنسٹی اسکیم میں غیر قانونی آمدن پر کارروائی کا اختیار تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ غیر قانونی آمدن کے احتساب کے دیگر قوانین بھی موجود ہیں، سسٹم بریک ہو جائے تو سخت قانون بھی مؤثر نہیں رہتا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ نیب کی سستی پر سپریم کورٹ نے کرپشن کے معاملات کی تحقیقات کرائی، سپریم کورٹ نے فیک اکاؤنٹس کے معاملے کی تحقیقات جے آئی ٹی سے کروائی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سب کچھ عدلیہ نے کرنا ہے تو کیا یہ ایگزیکٹو کے اختیار پر تجاوز نہیں ہو گا؟ کیا ایگزیکٹو کی ناکامی پر عدلیہ سپر رول ادا کر سکتی ہے؟

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ آرمی چیف کی تقرری کے معاملے پر عدالت نے قانون سازی کا حکم دیا تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ وزیرِ اعظم کو ملک چلانا نہ آئے تو کیا عدلیہ ملک چلائے گی؟

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ بنیادی حقوق کا تحفظ عدلیہ کی ذمے داری ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کوئی کہے کہ حکومت مشکوک اور وزیرِ اعظم متنازع ہے تو عدلیہ حکومت چلائے گی؟ اس چیز کو کہیں تو روکنا ہو گا، کیا بنیادی حقوق کے تحفظ میں اختیارات کی تقسیم کی لکیر عدلیہ عبور کر سکتی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ عدلیہ ایگزیکٹیو کے اختیار پر تجاوز نہیں کر سکتی، عدالت اگزیکٹیو کو اپنی ذمے داری پوری کرنے کا کہہ سکتی ہے، عدلیہ ایگزیکٹیو کا اختیار استعمال نہیں کر سکتی، سوموٹو کا اختیار بڑے احتیاط سے استعمال کرنا پڑتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدلیہ نے انتظامیہ کے کئی اقدامات کو کالعدم قرار دیا، اس حوالے سے کئی عدالتی فیصلے بھی موجود ہیں، نیب ترامیم سے کئی شقوں کو نکال دیا گیا ہے، آپ کا مؤکل کہتا ہے کہ نکالی گئی شقیں دوبارہ بحال کی جائیں، یہ صورتِ حال ماضی سے مختلف اور منفرد ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نیب ترامیم بنیادی حقوق سے تصادم پر کالعدم ہو بھی جائیں تو پرانا قانون کیسے بحال ہو گا؟

عدالتِ عظمیٰ نے نیب ترامیم کے خلاف کیس کی سماعت 14 نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔

قومی خبریں سے مزید