اسلام آباد(نمائندہ جنگ)سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کی نیب قوانین میں ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ دیکھنا ہوگا کہ نیب قانون میں ترامیم بنیادی حقوق سے متصادم ہیں یا نہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ میں قومی احتساب (ترمیمی)آرڈیننس 2022 کے خلاف پی ٹی آئی کے سربراہ ،عمران خان کی جانب سے دائر کی گئی آئینی درخواست کی سماعت کے دوران آبزرویشن دی ہے کہ نیب قانون کے سیکشن 9اے5میں حالیہ ترمیم کے بعد نیب ملزم سے نہیں پوچھ سکتاہے کہ اس نے یہ اثاثے کیسے بنائے ہیں؟چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سوموار کے روز کیس کی سماعت کی تو درخواست گزارکے وکیل خواجہ حارث احمد نے نیب کی کارکردگی رپورٹ کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے بتایاکہ 2019میں پلی بارگین کی رقم اور ریکوری میں 6 ارب کا فرق ہے،سال 2020میں 17.2 ارب کی پلی بارگین معاہدے ہوئے جس میں سے صرف آٹھ اعشاریہ دو ارب روپیہ ہی ریکوری ہوسکی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ نیب آرڈیننس میں ترمیم کے بعد تمام بقایا رقم نیب ریکور نہیں کر سکے گا۔قسطیں ادا نہ کرنے پر معاملہ ٹرائل کورٹ میں چلاجائے گا اور دائرہ اختیار نہ ہونے پر کیس ہی ختم ہوجائے گا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ کیا ترمیم سے پہلے نیب کو رقم ریکور ہو رہی تھی؟،کیا 2018کے بقایاجات 2021تک کلیئر ہوچکے تھے؟ انہوںنے کہا کہ لگتا ہے ترامیم سے پہلے بھی نیب ریکوری نہیں کر رہا تھا؟جس پر فاضل وکیل نے بتایا کہ اس حوالے سے نیب حکام ہی بہتر بتا سکتے ہیں ،لیکن نیب کو طے شدہ شیڈول کے تحت اقساط مل رہی تھیں۔