روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن 11 نومبر حسن ناصرکی برسی ہے، حسن ناصر کون تھا یہ آج کے نوجوانوں کو کہاں پتہ ہوگا۔ آج کے نوجوانوں کو تو یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ بنگلہ دیش کیوں بنا تھا اور نہ ہی نوجوان نسل میں ایسا کچھ جاننے کی جستجو رہی ہے، کچھ رفتار زیست نے پیچھے اڑتی گرد میں گم کردیا اور کچھ مورخین نے تاریخ کی ایسی بیخ کنی کی کہ سب دھندلا کے رکھ دیا، اس لئے کوئی بھی مداری برسوں تک عوام کو بے وقوف بناتا رہتا ہے اورنوجوان اس کے حصار طلسم میں اپنا خوشحال مستقبل ڈھونڈتے رہتے ہیں، حسن ناصر کی شہادت ایوبی آمریت کا سیاہ ترین باب ہے، اگر ایسی شہادت کسی آج کے ترقی یافتہ جمہوری ملک میں ہوتی تو اس پر اسمبلیوں میں بل پاس ہوتے، سڑکوں پر احتجاج ہوتا،اخباروں میں اتنا کچھ لکھا جاتا کہ سیاست میں نئے بیانیے متعارف ہو جاتے،عدالتی کمیشن بنتے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، اگر ناصر کی شہادت کو یاد کریں تو مشال خان سے لے کر نذیر عباسی، حمید بلوچ، ناصربلوچ، ایاز سموں کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے، کیا حسن ناصر صرف کا مریڈوں اور سرخوں کا شہیدتھا،یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو نوجوان خود تو اپنی زندگی میں خوشحال پس منظر رکھتا ہو لیکن وہ اپنی اس آسودہ زندگی کو غربت اور افلاس میں گھرے انسانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے وقف کر دے اور اس جدوجہد میں اس استحصال کے ذمہ داروں کی آنکھوں میں آنکھیں ملا کر ان کے مظالم کا ذکر کرے، وہ کسی سرخ یا کامریڈوں کی ملکیت نہیں ہو سکتا بلکہ انسانیت کا فخر ہو سکتا ہے، حسن ناصر ایک اچھا مقرر ہونے کے ساتھ انگریزی پر بھی کمانڈ رکھتا تھا جب وہ بی اے کے لئے نظام کالج میں داخل ہوا تو اس کی اپنے کزن کو کب درانی سے دوستی ہوگئی جو پہلے سے کمیونسٹ خیالات رکھتا تھا، اس نے حسن ناصر کو بھی کمیونسٹ بنا دیا، وہ جیسے جیسے انقلابی فلسفہ پڑھتا گیا انقلابی جدوجہد کی طرف راغب ہوتا گیا حتیٰ ٰکہ اس نے تعلیم ترک کرکے خود کو فل ٹائم انقلاب کے لئے وقف کردیا، جب حکومت اسے تلاش کرنے لگی تو وہ زیرزمین ہوگیا، پھر حیدرآباد چھوڑ کر ممبئی آگیا اور ممبئی پہنچ کر سرمایہ داری کے خاتمے کی جدوجہد میں ڈٹ گیا، جب کامریڈ سجاد ظہیر نے انڈیا چھوڑ کر پاکستان منتقل ہونے کا فیصلہ کیا تاکہ پاکستان میں انقلاب کے لئے کام کیا جائے تو حسن ناصر نے بھی پاکستان ہجرت کرنے کا فیصلہ کر لیا، ان دنوں پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی پر کسی قسم کی پابندی نہیں تھی، اس لئے کمیونسٹ خیالات بھی گلی گلی زیربحث رہنے لگے تھے، ایک تو حسن ناصرگرفتارہوگیا اور سجاد ظہیر پاکستان چھوڑ کر انڈیا آگئے، حکومت نے حسن ناصر کی جیل کی مدت میں اضافہ کردیا جس پر حسن ناصر کی والدہ انڈیا سے پاکستان حسن ناصرکی رہائی کے لئے آئیں اور حسن ناصر کواس شرط پررہا کروانے میں کامیاب ہوئیں کہ اب ایک سال کے لئے کم از کم حسن ناصر پاکستان کی سرزمین پر قدم نہیں رکھے گا، حسن ناصر نے یہ ایک سال کی جلاوطنی انڈیا میں گزاری جب واپس آیا توکمیونسٹ پارٹی نے انہیں اپنا جنرل سیکرٹری بنالیا ، حکومت نے حسن ناصر کودوبارہ سے گرفتار کرنے کے لئے ملک بھر میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کو متحرک کردیا، ناصرزیرزمین جاکر اپنی پارٹی کو منظم کرتے رہے، چھپنے کے لئے کوئی مخصوص جگہ نہیں تھی، کبھی کسی دوست اور عزیز کے گھروں میں تو کبھی قبرستانوں اورجنگلوں میں یا ویرانوں میںراتیں گزارتے تھے، بالآخر وہ دوبارہ گرفتار ہوگئے جہاں ان پر خوب تشدد ہوا، انہیں جیل میں ہی تشدد کر کرکے مار دیا گیا، حسن ناصر کی والدہ نے کوشش کی کہ انہیں اپنے بیٹے کی میت مل جائے جسے وہ حیدرآباد لے جاکر دفن کرسکیں، وہ پاکستان پہنچی تو حکام نے پہلے ہی حسن ناصر کے لئے قبر کھود کر تیار کر رکھی تھی، تابوت لائے تو ناصر کا چہرہ بھی والدہ کونہ دکھایا گیا اور دفن کر دیا گیا، یہی کہا جاتا رہا کہ اس تابوت میں حسن ناصر نہیں تھا بلکہ کسی اور کی لا ش تھی، کیونکہ حکومت نہیں چاہتی تھی کہ کوئی بھی اس کے جسم پر تشدد کے نشانات دیکھ سکے جس کا مطلب یہ تھا کہ حسن ناصر کی لاش غائب کر دی گئی تھی، اس لئے آج تک یہ کسی کو معلوم نہیں کہ حسن ناصر کی قبر کہاں ہے یا وہ کہاں دفن ہے یا ان کے جسد خاکی کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا، حسن ناصر کی اس قربانی کے اعتراف میں آج دنیا بھر میں ترقی پسند حسن ناصر ڈے مناتے ہیں۔ مشہور شاعر حمایت علی شاعر نے حسن ناصر کے بارے میں کہا تھا کہ حسن ناصر اس سال پیدا ہوا جب چےگویرا پیداہواتھا اوربھگت سنگھ کی طرح اسے میرے شہر لاہور میں شہید کیا گیا۔