• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تکبیرِ اولیٰ کا ثواب اور رکوع میں شامل ہونے پر رکعت کا ملنا

تفہیم المسائل

سوال: تکبیر ِ اولیٰ کا ثواب پہلی رکعت میں کسی بھی وقت شامل ہونے پر پاسکتا ہے یا صرف اُسی کو ملے گا، جو تکبیر پڑھے جانے کے وقت سے جماعت میں شامل ہے؟ (محمد رمیز ، کراچی )

جواب: اقامت کے بعد امام کا ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر نیت باندھنا تکبیرِ تحریمہ اور تکبیرِ اولیٰ کہلاتا ہے،’’ تکبیرِ تحریمہ‘‘ بیک وقت نماز کی شرائط میں بھی شامل ہے اور نماز کا رکن بھی ہے۔ اسے ’’تحریمہ‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ جب بندہ ٔ مومن ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر نماز میں داخل ہوتا ہے، تو وہ بعض ایسے امور (جیسے کھانا ، پینا ،کلام کرنا، چلنا پھرنا وغیرہ) جو اس کے لیے عام حالات میں حلال ہوتے ہیں ،نماز سے فراغت تک حرام ہوجاتے ہیں۔

امام مالکؒ فرماتے ہیں، مجھے یہ روایت پہنچی ہے: ’’ حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے تھے: جسے رکوع مل گیا، اسےسجدہ بھی مل گیا اور جس کی قراء ت فوت ہوگئی، (اگر چہ اسے رکوع مل گیا ہو )وہ خیر کثیر سے محروم ہوگیا، (مؤطا امام مالک:23)‘‘۔ یعنی رکوع مل گیا، تو رکعت مل گئی، لیکن سورۃ الفاتحہ کے چھوٹ جانے سے وہ خیر کثیر سے محروم رہا۔(۲) ترجمہ:’’ جس نے امام کو رکوع میں پایا ، پس امام کے سر اٹھانے سے پہلے (اس کے ساتھ ) رکوع کیا ،اس نے اُس رکعت کو پالیا‘‘۔(سُنن الکبریٰ للبیہقی :2580)

اگرچہ فقہی اعتبار سے پہلی رکعت کے رکوع میں امام کے ساتھ شامل ہونے پر پوری رکعت مل جاتی ہے اوراس میں معنوی اعتبار سے تکبیر تحریمہ یا تکبیرِ اُولیٰ بھی شامل ہے اور ظاہر ہے پوری رکعت کا ثواب بھی ملے گا ، لیکن تکبیرِ اُولیٰ سے امام کے ساتھ جماعت میں شامل ہونے کا اجر یقیناً زائد ہے ،یہی وجہ ہے کہ اَحادیثِ مبارکہ میں اس کی بہت فضیلت آئی ہے اور اس کا حتی الامکان اہتمام کرنا چاہیے۔ 

علامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں:’’ پس تکبیرِ اولیٰ کی فضیلت ملنے کے وقت میں اختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ جس کو پہلی رکعت مل گئی ، اُسے تکبیرِ اولیٰ کی فضیلت کا ثواب حاصل ہوجائے گا ، حصر کے باب ابو یوسف میں اسی طرح لکھا ہے، (فتاویٰ عالمگیری ، جلد1،ص:69) ‘‘ ۔ البتہ اعلیٰ درجے کی بات یہ ہے کہ مقتدی تکبیر تحریمہ کے وقت حاضر ہو اور امام کی تکبیر تحریمہ کے فوراً بعد مقتدی بھی تکبیر تحریمہ کہہ کر نماز میں شامل ہوجائے۔ (جاری ہے)

اقراء سے مزید