• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرحی نعیم

’’ہاں بھائی ایسا سو ٹ دکھانا کہ سارے کے سارے دیکھتے رہ جائیں‘‘۔ زویا نے کرسی کھینچ کر بیٹھنے سے پہلے ہی سیلز مین کو حکم جاری کیا اور گردن گھما کر دائیں، بائیں، اوپر نیچے رکھے سوٹ دیکھنے لگی ۔’’جی میڈم ہمارے پاس پوری مارکیٹ سے زیادہ ورائٹی ہے۔ آپ بے فکر ہو جائیں‘‘۔ اور پھر جو اس نے سوٹ دکھانے شروع کیے تو زویا کے ساتھ آئی اس کی دوست تنگ آگئی تھی لیکن مجال ہے جو زویا کی نظروں میں کوئی جچا ہو، ہر سوٹ وہ عام سا کہہ کر مسترد کر تی چلی گئی۔ ’’آخر ایسا کیا چاہتی ہو تم؟ کوئی آسمان سے خاص الخاص جوڑا تو اترآنے سے رہا، اب بس ان میں سے کوئی منتخب کرو۔

’’اس نے دھمکایا۔ اس الٹی میٹم دینے پر دکاندار نے بھی شکرگزار نظروں سے اسے دیکھا ‘‘۔’’بس سوٹ ایسا ہو کہ دیکھ کر سارے کالج کی لڑکیاں رشک وحسد سے جل جائیں۔ ‘‘’’اور ان کے جلنے سے تم کو کیا ملے گا۔؟‘‘۔’’ ارے تمھیں نہیں پتا؟‘‘ وہ ہنسی۔ ’’اندر تک ٹھنڈ اتر جائے گی۔ اچھا یہ والا سوٹ پیک کر دیں ۔’’ اس نے آخری جملہ دکاندار سے کہا ۔ آخر کار اسے ایک جوڑا پسند آہی گیا تھا ۔ نوری نے دیکھا سوٹ بلا مبالغہ ایسا تھا کہ نظریں جم کر رہ گئیں تھیں۔ رنگ، ڈیزائن ، کڑھائی، سب ہی عمدہ تھے اور اس اعلیٰ سوٹ کو خریدنے کے لیے جیب پر کتنا بار پڑا ہوگا ، اس کی کس کو پروا تھی۔

بس ایک ہی خواہش سب پر حاوی تھی، کہ مجھ سے بہتر کوئی نہ ہو، پھر سوٹ کے ساتھ میچنگ جیولری ، سینڈل، پرس میں مزید وقت ضائع ہوا، تب کہیں جاکر گھر کی راہ لی گئی ۔ ’’گھر کی تزئین و آرائش ایسی ہو کہ آنے والوں نے ایسا فرنیچر ، پردے، قالین اور سجاوٹی اشیاء ، بس خواب میں یا ٹی وی اسکرین پر ہی دیکھی ہوں ‘‘۔ ’’یوں کہیں کہ آپ بے چارے مہمانوں کو احساس کمتری میں مبتلا کرنا چاہتی ہیں ‘‘۔ وہ موبائل پر تقریب کے خرچہ کا حساب کر رہے تھے ۔ ’’ اوہو! یہ کب کہا میں نے‘‘؟ ’’تو دوسرے لفظوں میں آپ احساس فخر جتانا چاہتی ہیں‘‘۔ ’’یہ سب تو آپ ہی کہہ رہے ہیں ، میں تو بس یونہی۔

’’ان کی ہنسی بے ساختہ تھی‘‘۔ افوہ کیسے میرے دل کی بات جان جاتے ہیں۔ ’’ وہ بڑبڑائیں‘‘ ۔ آخر نئے گھر کی دعوت ہے تو خالی گھر میں تو تقریب نہیں کرنی نا۔۔۔، کچھ نہ کچھ تو سجاوٹ اور انتظامات کرنے پڑتے ہیں ‘‘۔ ’’میرے خیال سے اس سجاوٹ سے قبل ہی قرآن خوانی اور دعوت کرلی جائے ، تو زیادہ اچھا ہے‘‘ ،’’جس میں سر فہرست آپ ہوں گے‘‘۔ بیگم نے ناراضی کا اظہار کیا۔ ’’ جی ہاں ، میں بھی اور آنے والے بھی بلاوجہ کے کمتری کے احساس سے بچ کر کھل کر خوش ہو لیں گے۔ 

آپ کو معلوم تو ہے ہمارے بہت سے قریبی رشتہ دار مالی حیثیت میں ہم سے کمزور ہیں۔ وہ یہ سب دیکھ کر کیا محسوس کریں گے ‘‘؟’’ خوش ہوں گے‘‘ ۔ وہ بے نیازی سے گویا ہوئیں ۔ ’’ یہ تو میں بھی اچھی طرح جانتا ہوں کہ کتنے خوش ہوں گے اور کتنے اسٹریس میں آجائیں گے اور کتنے ہی تجسس میں‘‘۔ ’’آپ کو تو میری خوشی کا احساس ہی نہیں‘‘۔ ’’یہ آپ کی خواہش کا ہی احترام ہے جو مجھے ناپسندیدہ کام بھی کرنے پڑتے ہیں ۔ آخر ہوگا تو وہی نا جو آپ چاہیں گی۔’’ میاں صاحب کے چہرے پر خفگی پھیل گئی تھی‘‘ ۔ہم دنیا کے بازار سے کیا کچھ نہیں خریدتے۔ 

اپنی لامحدود خواہشات کی تسکین کے لیے ہم ہر حد سے بھی گزر جاتے ہیں۔ لیکن کبھی ہم نے سوچا ہے کہ مادّی چیزوں کی خریداری کرتے کرتے ہم دوسروں کی کمزوریوں، جذبات واحساسات کو بھی مجروح کر رہے ہوتے ہیں۔ اپنی خواہشات کی تکمیل میں دوسرے کی آرزوں اور خوشیوں کو بھی روند دیتے ہیں۔ ڈاکٹر عارفہ اپنے بچپن کا ایک واقعہ بیان کرتی ہیں کہ ایک عید پر جب وہ اپنا قیمتی جوڑا پہن کر شام میں اپنی سہیلیوں سے ملنے جانے لگیں تو ان کی والدہ نے انھیں کپڑے تبدیل کرنے کے لیے کہا، جب وجہ دریافت کی تو بڑی نرمی اور پیار سے سمجھایا کہ تمہارا قیمتی جوڑا دیکھ کر کہیں تمہاری سہیلیوں کو اپنا آپ کمتر نہ محسوس ہو، اور تمہارے دل میں رائی برابر بھی بڑائی کا احساس نہ جاگے۔ لہٰذا انھیں اس احساس میں مبتلا نہ کرو کہ کہیں محرومی کا یہ جذبہ انہیں شرمندہ نہ کردے۔ اور سہیلیوں کے درمیان اجنبیت اور فاصلے نہ پیدا ہوں۔ 

لہٰذا انہی کے جیسا بن کر ان سے ملو، یہ ایک ماں کی دور اندیشی اور اعلیٰ درجے کی سوچ و فہم تھا جو انھوں نے اپنی اولاد میں منتقل کیا کہ سب یکساں ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ قیمتی چیزیں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں، اصل چیز انسانی جذبات و کیفیات ہیں۔ انسانوں کے مابین دوستی و تعلقات سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ مادّیت، رشتوں میں حائل ہو کر اسے کمزور کردے۔ ہم جانے ان جانے میں لوگوں کے دل دکھانے ، انہیں پریشان کرنے، تکلیف اور ڈپریشن دیتے ہیں اور بدلے میں خود بھی کئ بیماریاں مفت میں حاصل کر لیتے ہیں، کیوں کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی کو دکھ دے کر بدلے میں راحت حاصل ہو۔ 

ہم اس رنگ ونور کی دنیا سے صرف حسد و جلن ہی نہیں بلکہ خود غرضی، چالاکی، شکوہ، شکوک وشبہات، غصہ، بدگمانیاں، نفرت کی بھی خرید و فروخت کی، جس کے بعد ہم اپنی زندگیوں میں سکون، اطمینان اور فرحت کا انتظار کرتے رہے۔ لیکن یہ کیسے ممکن تھا کہ اتنی ساری منفی اور تکلیف دہ رویّوں کے بعد سکھ ہماری جھولی میں ڈال دیا جائے۔ ہم نے تو جیسے ایثار، ہمدردی، درگزر ، صبر، برداشت جیسے اوصاف اپنی زندگیوں سے یکسر مسترد کردیے، یہی وجہ ہے کہ ہم مسرتوں کو ترس رہے ہیں ،ہر شخص ایک نئی پریشانی میں مبتلا ہے، بیماریاں اور فکر مندیوں نے گویا ہر گھر کا راستہ ہی دیکھ لیا ہے۔

لہٰذا ہمیں متحد ہو کر، اسے اب دوسرا راستہ دکھانا ہے، اور اپنی زندگیوں میں واپس سادگی، شکر گزاری اور سکون لانا ہے، جس کے لیے اپنا طرز حیات بدلنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے پہلے سوچ بدلنے کی کوشش کرنی ہے۔ سوچ و فکر بدلے گی تو خود بخود یہ تبدیلی فعل و عمل میں در آئے گی۔ جو ہماری زندگی کو آسان اور پر سکون بنا دے گی۔