گذشتہ28 دنوں میں ہمارا خاندان یکے بعد دیگرے دو صدمات سے دو چار ہوا۔میری دو بڑی بہنیں یکے بعد دیگرے اللہ کی رحمت میں چلی گئیں۔دونوں کو سب سے بڑی بہن کے پہلو میں دائیں بائیں جگہ ملی۔ یہ زندگی میں بھی ایک دوسرےسے قلبی لگا ؤکے باعث جڑی رہیں اور ان کی اولادوں نے اپنی ماؤں کی باہمی محبت کو دائمی رفاقت بنادیا۔ثابت ہوا کہ تینوں کا خمیر ایک ہی مٹی سے اٹھا تھا کیونکہ مشہور مصرعہ ہے ’’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا ‘‘اور میری تینوں بڑی بہنیں اسی مٹی میں آسود خاک ہو گئیں جہاں سے اللہ نے ان کے لئے کھنکتی تراب منتخب کی تھی۔
ہمارا معاشرہ مردانہ سماج کہلاتا ہے۔ مشاہدے میں آتا ہے کہ خواتین کو عموماً دوسرے درجے کی مخلوق کا درجہ دیا جاتا ہے مگر بحمداللہ میری تینوں بہنوں کو اللہ نے جو جیون ساتھی دیئے ،وہ ان کے مرتے دم تک ان پر مہربان رہے ۔بھائی جان بشیر جاوید ،بھائی جان حمزہ، بھائی جان جاوید سلامت رہیں جنہوں نے بہنوں کی باہمی محبت میں کبھی رخنہ نہیں ڈالا... الحاج محمد اشفاق اور باجی سعیدہ کو رب العزت بابرکت حیاتی دے ، ساری بہنیں اپنے اپنے گھروںکی ہوکر بھی ایک دوسرے سے جڑی رہیں... اللہ کریم نے سب سے بڑی آپا کو اولاد کی نعمت سے محروم رکھا مگر باقی بہنوں کے بیٹے بیٹیوں نے آپا کو اولاد کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا... آپا جی کی ایک آواز پر سب بچے لپکتے ہوئے آتے.... انہیں کینسر کے موذی مرض نے آزار میں مبتلا کیا تو چاروں بہنیں آپا کی بیٹیاں بن کر اپنے بچے بچیوں سمیت ان کی خدمت میں لگی رہیں اور جس دن وہ اللہ کو پیاری ہوئیں تو سب نے یہی کہا کہ آج ہماری ماں مری ہے..... آپا ہم سب چھوٹے بہن بھائیوں کے لئے تھیں بھی والدہ کی طرح..... امی جی تو سادھوخاتون تھیں جنہیں ناجی بھائی ہمیشہ بی بی جی کہہ کر پکارتے تھے.... نذیر ناجی اپنی جوان اولاد کے ساتھ والدین کی قدم بوسی کو حاضر ہوتا تو دونوں بزرگوں سے ڈانٹ ڈپٹ ہی سنتاکہ مصروفیات کے باعث غیر حاضری کا طویل وقفہ انہیں ماں باپ کے سامنے ملزم بنا دیتا تھا اور یہ ملزم جوان اولاد کے سامنے ماں باپ سے بچوں کی طرح سر جھکائے جھڑکیاں کھاتا..... آج ناجی صاحب عالمِ پیری میں سرمد ناجی کی والہانہ محبت و عقیدت سے بھرپور خدمت گزاری کے جس شیریں ثمر سے بہرہ مند ہو رہے ہیں وہ ابا جی اور امی جی سے کڑوی کسیلی سن کر چپ سادھے بیٹھے رہنے کا ہی پھل ہے.... کاش ہماری آج کی نسل کو والدین کی خدمت گزاری کے ان بہشتی ثمرات کے ذائقے کی لذت سے آشنائی حاصل ہو جائے ..... بدھ کے روز سرمد ناجی کے ساتھ میں باجی بالے کے جنازے میں شرکت کے لئے پہنچا تو مرحومہ بہن کے بیٹوں کے دل سے پھوٹتے اندوہ و غم کے سوتے ،ان کے خالہ زاد بھائیوںکی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑیوں کی صورت بہہ رہے تھے... مرحومہ کی بیٹیوں اور بھانجیوں کی حالت ِ غم بیان کرنے کے لیے نہ الفاظ میں دم ہے نہ قلم میں یارا..... ابھی تین ہفتے پہلے ہی تو سارے لوگ باجی رشیدہ کی تدفین کے بعد طویل عرصے سے ڈائلسز پہ جیتی باجی بالے کے پاس جمگھٹالگائے ان کا غم ہلکا کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور وہ تھیں کہ مسلسل ایک ہی جملہ دہرائے جارہی تھیں ’’جانے کی باری میری تھی،چلی رشیدہ گئی ‘‘اور 28 دن بعدآخر کار اس کے پاس چلی ہی گئیں....اتنی خوش قسمت تھیں کہ بیٹے کی رات دن کی خدمت گزاری کے ساتھ پوتے پوتیوں سے بھی جی بھر کے خدمت کروائی ...جنازے سے واپسی پر میں نے گھر میں یکدم آہ و بکا سنی اور باجی کے کمرے میں گیاتو ان کے پوتے پوتیاں ان کے بیڈ پر دادی کے زیراستعمال کپڑوں سے منہ ڈھانپے بے اختیار روئے چلے جا رہے تھے بچوں کی یہ حالتِ غم مرحومہ بہن کی خوش قسمتی پر دال تھی...... لائل پور سے واپسی پر سرمد ناجی راستے بھر اپنے پاپا نذیر ناجی کی اپنی پھوپھیوں کے ساتھ محبت اور ان کی شفقت کے قصے سناتا تو کبھی کبھی شدت جذبات سے اس کی آواز رُندھ جاتی.... وہ اپنے پھوپھی زاد کزنز کے محبت و خلوص بھرے رویے پر اپنی قلبی یگانگت اور الفت کا اظہار کرتا تو مجھے اباجی کی تہجد گزاری کی شب زندہ دار دعاؤں کی قبولیت کا احساس ایک ایسی روحانی سرشاری کی مسرت سے ہمکنار کردیتا جو رات کے اس پچھلے پہر میں مجھے ان کے جائے نماز پر ان کے روبرو بٹھائے ہوئے ہے.......
اللھم فاغفرلنا ولوالدینا ولجمیع ا لمؤ منین والمؤمنت برحمتک یا ارحم الراحمین.. ...آمین ثم آمین یارب العالمین ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)