لندن (مرتضیٰ علی شاہ) سابق وزیراعظم عمران خان اور صحافی ارشد شریف کے قتل کے سازش میں شریک ہونے کے دعویدار تسنیم حیدر اور ان کے وکیل نے قتل کی سازش کے حوالے سے متضاد بیانات دیئے ہیں اور تسنیم حیدر کے وکیل کا بیان تسنیم حیدر کی تردید کرتا ہے۔ قتل کی اس سازش کے حوالے سے سید تسنیم حیدر شاہ نے اپنے وکیل مہتاب انور عزیز کے ساتھ اپنی پریس کانفرنس میں قتل کی مبینہ سازش کے ثبوت کے بارے، جس میں انھوں نے نواز شریف، پاکستان مسلم لیگ (ن) یوکے کے رہنما ناصر بٹ کو ملوث قرار دیا تھا، بات کرتےہوئے تسنیم حیدر اور ان کے وکیل نے ایک دوسرے کی تردید کی، جب ان سے سوال کیا گیا کہ ان کے پیش کردہ ثبوت پر سکاٹ لینڈ یارڈ کے انسداد دہشت گردی یونٹ نے کارروائی کرتے ہوئے انھیں گرفتار کیوں نہیں کیا؟ جبکہ وہ واضح شہادتیں ہونے پر فوری کارروائی کرتا ہے، تسنیم حیدر اور ان کے وکیل مہتاب انور عزیز دونوں نے تسلیم کیا کہ سکاٹ لینڈ یارڈ نے ابھی تک ان لوگوں کے خلاف تسنیم حیدر جن لوگوں پر الزامات لگائے ہیں کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ مہتاب انور عزیز نے تسنیم حیدر کی پہلی پریس کانفرنس کے دوران ان کے ساتھ بیٹھ کر ناصر بٹ اور نواز شریف پر براہ راست قتل کے منصوبے میں شریک ہونے کا الزام لگایا تھا۔ مہتاب انور عزیز نے 5 نومبر کو وزیر آباد میں سابق وزیراعظم عمران خان پر حملے کے بعد نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف شکایت کی تھی اور اس دن انھوں نے میڈیا سے بھی بات کی تھی لیکن پولیس نے ان کی اس پہلی رپورٹ پر کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس حوالے سے کوئی بیان نہیں لیا گیا ہے اور پولیس نے ملزمان سے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔ اس کے بعد مہتاب انور عزیز نے اتوار 20 نومبر کو اپنے دفتر میں تسنیم حیدر سے ایک پریس کانفرنس کرائی، جہاں تسنیم حیدر نے دعویٰ کیا کہ وہ پی ایم ایل (ن) کے ترجمان ہیں اور نواز شریف، ناصر بٹ اور انجم چوہدری پی ایم ایل (ن) کے لندن میں موجود 8 افراد کے ساتھ مل کر عمران اور صحافی ارشد شریف کو، جسے 23 اکتوبر کو کینیا میں قتل کردیا گیا تھا، قتل کرنے کی سازش تیار کی تھی۔ اس وقت تسنیم حیدر نے میڈیا کو بتایا تھا کہ انھوں نے پریس کانفرنس سے پہلے مہتاب انور عزیز کے ذریعہ ثبوت جمعہ 18 نومبر اور ہفتہ 19 نومبر کو سکاٹ لینڈکو پہنچا دیئے ہیں۔ تسنیم حیدر نے یہ بھی کہا تھا کہ مہتاب انور عزیز نے قتل کی سازش کے ثبوت جمعہ 18 نومبر کو پولیس کو پہنچا دیئے ہیں اور پھر انھیں لے کر ہفتہ 19 نومبر کو تھانے گئے تھے، جہاں پولیس کے ساتھ مزید ثبوت شیئر کئے گئے۔ تسنیم حیدر نے اپنے دوسرے بیان میں تسلیم کیا ہے کہ ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے اور انھوں نے پولیس کو نواز شریف اور ناصر بٹ کے خلاف کوئی چیز یا ثبوت نہیں دیئے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ پولیس نے مجھ سے کہا تھا کہ انھیں مجھ سے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے، میں خود زندہ ثبوت ہوں۔ اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہ ایک برٹش پاکستانی کی جانب سے نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف پہلی شکایت اور تسنیم حیدر کی جانب سے نواز شریف اور ناصر بٹ کے خلاف دوسری شکایت میں انھوں نے رابطہ کار کا کردار ادا کیا تھا۔ مہتاب انور عزیز نے منگل 22 نومبر کو اپنی دوسری پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ انھوں نے 3 مواقع 5, 10 اور 19 نومبر کو پولیس کو ثبوت فراہم کئے۔ جب یہ سوال کیا گیا کہ پولیس نے پہلی شکایت کے 3 ہفتے بعد بھی اور قتل کی سازش کی دوسری شکایت پر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی، مہتاب انور عزیز نے کہا تھا کہ یہ ایک پیچیدہ تفتیش ہے، جس میں فارنسک بھی کرانا پڑتی اور پولیس اس کیس پر کام کر رہی ہے لیکن پولیس نے ان دو شکایتوں کے ملزمان سے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔ ناصر بٹ اور انجم چوہدری نے تسنیم حیدر نے جن پر الزام عائد کیا ہے، بدھ کو بتایا کہ وہ تسنیم حیدر کے الزامات پر خود ہی تھانے گئے تھے۔ دونوں نے بتایا کہ پولیس نے ان سے کہا کہ ان کے خلاف کوئی تفتیش نہیں ہو رہی ہے اور پولیس کے پاس ان کے خلاف کچھ نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ تسنیم حیدر اور مہتاب عزیز نے پریس کانفرنس کے دوران جھوٹ بولا ہے۔ ناصر بٹ نے کہا کہ اس نے تسنیم حیدر کے خلاف پولیس کو رپورٹ کردی ہے۔ تسنیم حیدر شاہ اور ان کے وکیل مہتاب انور عزیز کے سول لیگل ایکشن لے رہے ہیں۔ کرمنل لا کے ایک ماہر اور کرائون پراسیکیوشن سروس کی پراسیکیوٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ تسنیم حیدر نے یہ قبول کر کے کہ وہ ایک میٹنگ میں شریک تھے اور عمران خاں کو قتل کرنے پر رضامند تھے، خود کو بری طرح پھنسا لیا ہے اور کرائون پراسیکیوشن سروس کی جانب سے چارج کئے جانے پر انھیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ قانون کے تحت قتل کی سازش ثابت کرنے کیلئے پراسیکیوشن کو یہ دکھانا پڑے گا کہ ملزمان مل کر کام کر رہے تھے، ان کو براہ راست یا حالات کے شواہد کے ساتھ قتل کا ارادہ یا شدید زخمی کرنے کا ارادہ بھی دکھانا پڑے گا۔ پراسیکیوشن کا کام یہ ثابت کرناہوگا کہ ملزمان کسی طرح کے اتفاق رائے یا معاہدے کے تحت مل کر کام کررہے تھے۔ یہ تصو ر بھی کیا جاسکتا ہے لیکن اس کامقصد شدید زخمی کرنا یا ہلاک کرنا ہوسکتا ہے۔