• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
25نومبر کو خواتین کے حق میں ہر سال عدم تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے جو لازم ہوگیا ہے۔ یورپ کی نگری بھی دلچسپ نگری ہے، وہ بھی خواتین کے معاملے میں، کہیں تو اہل یورپ کو زمانہ جانتا ہے کہ ان کے بغیر کاروبار زندگی بے حد دشوار ہے، کوئی بازار ان کے وجود کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، یعنی ہر دکان، ہر آفس، ہر محکمہ، ہر قسم کے اداروں پر خواتین ہی چھائی ہیں اور رونق ان ہی کے دم سے قائم ہے، بعض ممالک تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر ہمارے ملک میں خواتین کاروبار زندگی میں شامل نہ ہوں تو ہمارا ملک چل ہی نہیں سکتا، جی ہاں اسکینڈے نیوین ممالک میں ایسا ہی کہا جاتا ہے۔خواتین کے نام سے یورپ کے کئی تاریخی مقامات بھی موسوم ہیں۔ جس کا اندازہ ہمیں ان معلومات کے ذریعے ہوا جو ہماری نظر کے سامنے سے گزریں کہ وائمر سے وینس تک یورپ کے ان تاریخی مقامات کے نام خواتین سے موسوم ہیں، ورنہ تو ہمارے یہاں خواتین کے عالمی ایام کے موقعوں پر ڈھونڈنے سے بھی خواتین کے نام پر صرف چند سڑکیں ہی ایسی ہوں گی جو خواتین کے نام سے موسوم ہیں۔ 2015ء کی ایک ادارے کی میپ باکس نے دنیا کے سات بڑے شہروں لندن، پیرس، دہلی، ممبئی، سان فرانسکو، چنائی اور بنگلور کا اسی مقصد کے لیے جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ27.5فیصد سڑکیں خواتین کے ناموں سے موسوم تھیں۔پیرس میں چند سال پہلے ایک فیمنسٹ گروپ کی جانب سے محض ڈھائی فیصد سڑکوں کے خواتین کے ناموں سے منسوب ہونے کے خلاف احتجاج کے بعد60سڑکوں کے نام تبدیل کیے گئے۔ جو سڑکیں پہلے سے خواتین کے نام سے منسوب تھیں وہ بھی کہتے ہیں کہ مشہور لوگوں کی بیویاں یا بیٹیاں تھیں۔فرانس کی لوئر وادی میں واقع شاتو دے شونوسو نامی مقام اس کا ایک بڑا حصہ کیتھرینے ڈی میڈیچی خاندان کی چشم و چراغ تھیں، پھر وہ بادشاہ ہنیری دوئم سے شادی کے بعد ملکہ بن گئیں۔ اسی طرح قرون وسطیٰ میں بلڈے گارڈ فان پنگن مذہبی رہنما لکھاری موسیقار، فلسفی صوفی تھیں، انہوں نے دریائے رائن کے کنارے دو عمارات تعمیر کرائیں، یہاں عظیم نام ہیں، جن کے نام سے تاریخی جگہات منسوب و موسوم ہیں۔بائے روتھ کی شہزادی ولہمائن شہزادی آنا آمالیا اور وائمر، روز الگسمبرگ اور برلن، ماریہ اسٹورٹ اور لنتھگوو، جین آسٹن اور چاؤ ٹون شہزادی ڈیانا اور لندن ڈیانا سب ہی کے دلوں کی ملکہ تھیں۔ شاہی خاندان کی بہو اور شہزادے ولیم اور پرنس ہیری کی ماں ہیں۔ لندن کے ہائیڈ پارک میں ڈیانا میموریل فاؤنٹین ان ہی کے نام سے منسوب ہے۔ یہ تمام خواتین اپنے میں خاص خصوصیت رکھتی تھیں، اسی لیے ان ہی کے نام سے بہت سے پارک یا دوسری تاریخی عمارات یادگار کے طور پر ان کے نام و کام سے منسوب ہیں اسی طرح پاکستانی تاریخ میں بھی بہت سی نامور خواتین ہیں جنہیں خراج عقیدت پیش کرنے کی ضرورت ہے بڑی بڑی تاریخی جگہوں اور عمارات کی بات نہیں، کوئی طبی مراکز یا سڑک کے نام ہی ہوجائیں تو کچھ فرض پورا ہوجائے۔ خواتین جہاں عظیم ہیں اور عظیم کارنامے بھی انجام دیتی ہیں، وہیں پر وہ معصوم بھی ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے جو ہر سال عدم تشدد کے عالمی دن پر جاری کی جاتی ہے کہ2021ء میں ہر گھنٹے اوسطاً پانچ سے زیادہ خواتین یا لڑکیاں اپنے ہی خاندان کے کسی رکن کے ہاتھوں قتل ہوئیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین کے لیے گھر بھی محفوظ جگہ نہیں ہے۔ رپورٹ یہ بھی یاد دہانی کراتی ہے کہ خواتین کے لیے یہ معاملہ خوفناک ہے کہ ان کے خلاف تشدد دنیا بھر میں انسانی حقوق کی انتہائی عام خلاف ورزیوں میں سے ایک ہے عورت مظالم ہے، یہ اگر کسی جرم میں گرفتار کرلی جائے تو اسے عام پولیس اسٹیشن میں ہی ٹھہرایا جاتا ہے، جہاں ان کے ساتھ ناروا سلوک برتا جاتا ہے، جس کی وجہ سے پولیس میں جانے اور جرائم کی رپورٹ درج کرانے میں ڈری ہوتی ہیں۔ عورت جہاں عظیم ہے، معصوم ہیں، مظلوم ہیں، وہیں پر یہ ظالم و مجرم بھی ہیں۔ یورپی یونین نے یہی رپورٹ کی فہرست جاری کی ہے۔ ا فہرست میں اٹھارہ خواتین شامل ہیں، یہ تمام مجرم کئی سنگین جرائم کا ارتکاب کرچکے ہیں۔ یورو پول کی جاری کردہ خطرناک مجرموں کی لسٹ میں ایک مجرمہ کروشیا ہیں جو منشیات اور انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔ ایک نائیجریا کی خاتون جس کا نام ہے جیسیکا اپڈ سوموان، اس خاتون نے ساٹھ خواتین کو اسمگل کرکے فرانس پہنچایا اور انہیں جبری جسم فروشی پر بھی مجبور کیا۔اسی طرح ایک پولستانی مجرمہ بھی مفرور ہے۔ اس کا نام دودوتاکاز میر ہے۔ یہ2008ء میں ہونے والے قتل کی واردات میں شریک تھی اور عدالت نے اسے25سال قید کی سزا سنائی تھی، وہ اپنی سزا کے شروع ہونے سے پہلے ہی مفرور ہوگئی تھی۔ یورو پول کی خاتون ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ تاثر عام ہے کہ خواتین سنگین جرائم میں ملوث نہیں ہوتیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو فہرست جاری کی گئی ہے ان میں سنگین جرائم میں ملوث خواتین بھی ہیں اور ان جرائم کی شدت بھی مردوں کے مقابلے کی ہے۔ یورو پول نے اس تناظر میں واضح کیا ہے کہ مختلف ریسرچ کے ذریعے محققین نے تسلیم کیا ہے کہ جنس کی تفریق کے بغیر کوئی بھی جرم میں ملوث ہوسکتا ہے اور کسی بھی نوعیت کے جرم میں ہوسکتا ہے۔ یعنی خواتین عظیم ہیں، معصوم ہیں اور ظالم و مجرمب ھی ہیں اور آج کل یہ چرچہ عام ہے کہ خواتین ظالم ہوچلی ہیں۔ 
یورپ سے سے مزید