• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

ایک تصحیح چاہی تھی

میرے خیال میں ایڈیٹر، سنڈے میگزین ہونا ایک اعزاز ہے، جو آپ کو قدرت نے عطا کیا ہے۔ عرض ہے کہ میں اِس میگزین کے ہر صفحے کا قاری ہوں اور چھوٹے، بڑے تمام لکھاریوں کا احترام اپنا ادبی فرض سمجھتا ہوں۔ اس میگزین کا آخری صفحہ جو ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے نام سے موسوم ہے اور جس کے آخری حصّے میں آپ کا ارشاد درج ہوتا ہے کہ ’’قارئین کرام! یہ صفحہ آپ کےخطوط سے مرصّع ہائیڈ پارک ہے۔ اس میں آپ کُھل کر لاگ لپیٹ کے بغیر اپنی رائے کا اظہار کریں‘‘ لہٰذا بڑی صاف گوئی سےعرض کی جسارت کررہاہوں کہ 25ستمبر کے شمارے میں تجمّل حسین مرزا نے آپ سے ایک تصحیح چاہی تھی کہ ’’درست املا کیا ہے، طوہاً و کرہاً یا طوعاً و کرھاً؟‘‘جواب میں آپ نے بِنا تصدیق طوہاًو کرہاً کو درست قرار دے دیا، حالاں کہ قرآنِ پاک میں (جو ہم سب کے لیے بفضل تعالیٰ سند ہے) سورئہ آل عمران کی آیت نمبر 82میں لفظ ’’طوعاً و کرھاً‘‘ موجود ہے۔ تو کیا اِس کے بعد کسی شک کی کوئی گنجائش رہ جاتی ہے۔ (سیّد آفتاب عالم)

ج:جی، آپ سو فی صد درست فرما رہے ہیں۔ ہم اپنی اس غلطی بلکہ کوتاہی پر بےحد شرمندہ ہیں۔ بےشک، حوالۂ قرآن کے بعد تو کسی سند کی کوئی گنجائش رہ جاتی ہے اور نہ ہی کوئی عذر قابل قبول۔ ہم آپ ہی سے نہیں، تمام قارئین اور تجمّل مرزا صاحب سے بھی معذرت خواہ ہیں کہ ایک غلط فہمی کے نتیجے میں ہم نے اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے غلطی پر غلطی کی۔

قدر و قیمت بڑھادی ہے

خداوندتعالیٰ کی ذات سے اُمید کرتی ہوں کہ آپ اورآپ کی ٹیم خیریت سےہوگی۔ ’’پاک، چین دوستی زندہ باد‘‘ کے عنوان سے ہمارا خط چَھپا، بےحد خوشی ہوئی، آپ کا بہت شُکریہ۔ اب آتے ہیں تازہ جریدے کی طرف۔ سب سے پہلےمحمود میاں نجمی کے سلسلے ’’مکّہ مکرّمہ:ماضی و حال کے آئینے میں‘‘ کی بات۔ ماشاءاللہ کیا سیر حاصل مضمون ہے۔ قسط کےاختتام پر اگلی قسط کے انتظار کا تجسّس بہت بڑھ جاتا ہے۔ ’’رپورٹ‘‘ میں ڈاکٹر معین الدّین عقیل کے نجی کُتب خانے سے متعلق پڑھا، اچھا لگا۔ حالاں کہ کراچی کے ذاتی کُتب خانے تو آئے دن تباہ و برباد ہی ہورہے ہیں۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی ’’عورت، حجاب اور سماجی رویّے‘‘ کے عنوان سے خصوصی تحریر لائیں اور خُوب ہی لائیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں نادیہ ناز غوری نے بھی ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ کی مناسبت سے بہترین تحریر لکھی۔ اور’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ہماری اپنی نرجس ملک کی تحریر بمع حجاب شوٹ سیدھی دل میں اُتری۔ ہرہر لفظ، گویا موتی پرویا ہوا تھا۔ واقعی، آپ صاحبِ علم بھی ہیں اور آپ کو لکھنے کا فن بھی خُوب آتا ہے۔ منور مرزا ’’عالمی افق‘‘ میں کورونا کے بعد کی دنیا سے متعلق ہماری معلومات میں اضافہ کررہے تھے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر زبیدہ مسعود نے بھی شان دار معلوماتی مضمون لکھا۔ ’’پولی سیسٹک اووری سینڈروم‘‘ سے متعلق اس سے اچھی تحریر پہلے کبھی نہیں پڑھی۔ ڈاکٹر امن اعوان نے بھی فزیوتھراپی پر اچھی روشنی ڈالی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں قانتہ رابعہ کے ’’واپسی کا سفر‘‘ کا جواب نہ تھا۔ ’’میرا آنچل ہے، حیا کا پرچم‘‘ ڈاکٹر عزیزہ انجم کی چھوٹی سی کاوش اَن مول تھی۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کی تینوں کہانیاں لاجواب تھیں۔ ’’نئی کتابیں‘‘ میں اخترسعیدی کے تبصروں کی تو کیا ہی بات ہے۔ بندہ کتاب خریدنے کی جستجو میں لگ جاتاہے۔ اور اب آتے ہی، اپنے پیارے صفحے کی طرف، جو ہر بار ہی دل کو چُھو سا جاتا ہے اور اُس وقت تو اور بھی حسین لگتا ہے، جب اُس میں ہمارا خط بھی شامل ہو۔ ارے ہاں، عرفان جاوید کے ’’آدمی‘‘ اور سلمیٰ اعوان کے’’دل کو چِین کاہےسفر درپیش‘‘ کا ذکر تو رہ ہی گیا ہے، بلاشبہ دونوں نے شمارے کی قدرو قیمت بڑھادی ہے۔ (خالدہ سمیع، کراچی)

ج:یہ تو آپ سو فی صد درست کہہ رہی ہیں۔ ’’آدمی‘‘ اور ’’جہانِ دیگر‘‘ سلسلوں نے جریدے کا خاصا مان بڑھایا، اور اِس کا اندازہ ہمیں لوگوں کی شمارے میں بڑھتی دل چسپی اور تعریف و توصیف سے ہوا۔

کئی آدمیوں سے ملاقات

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی کی تحریر’’مکّہ مکرّمہ:ماضی و حال کے آئینے میں‘‘ پڑھ کر معلومات میں بہت اضافہ ہورہا ہے۔ ڈاکٹر معین الدّین عقیل کی کُتب خانوں پر رپورٹ بھی پڑھنے سےتعلق رکھتی تھی۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں شفق رفیع کی تحریر کا جواب نہ تھا، خصوصاً محمود شام کا اندازِ بیان بہت پسند آیا۔ ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ پرسرِورق اور سینٹر اسپریڈ کی فوٹوگرافی کمال تھی اور آپ کی دل کش تحریر کے تو کیا ہی کہنے۔ عرفان جاوید اپنے ’’آدمی‘‘ کے ساتھ موجود ہیں۔ اِس ’’آدمی‘‘ نے تو ہم آدمیوں کی کئی آدمیوں سے ملاقات کروادی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ’’واپسی کا سفر‘‘ کمال تحریر تھی۔ ڈاکٹر عزیزہ انجم کی ’’میرا آنچل‘‘ بھی بہت پسند آئی۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ سلسلے کا جواب نہیں، اور اس بار ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ میں اقصیٰ منور ملک کا خط ایک عُمدہ خط تھا، جو واقعی اس ہفتے کی چِٹھی بننے کے لائق تھا۔ اگلے شمارے کے ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں عامر مرتضیٰ نے بانئ پاکستان پر بہت ہی خُوب صُورت مضمون تحریر کیا۔ پڑھ کر دل خوش ہوگیا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی مکّہ کا احوال انتہائی عُمدگی سے گوش گزار کررہے ہیں۔ شفق رفیع تو ہمیشہ ہی بہت منفرد اور خُوب صُورت تحریر لے کر آتی ہیں۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں ’’کھا گیا سب کو ناگہاں پانی‘‘ فکر انگیز تحریر تھی۔ عرفان جاوید کے ’’آدمی‘‘ نے سب کو دیوانہ کر رکھا ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ کےتینوں مضامین پسند آئے، تو ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے تینوں واقعات بھی لاجواب تھے۔ محمّد ہمایوں ظفر بہت اچھے انداز میں واقعات مرتّب کررہے ہیں اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں سلیم راجہ کو ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ کی مسند مبارک ہو۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

مزید گہرا، مضبوط

’’سنڈے میگزین‘‘ کے ساتھ ہر اتوار ایک نئے ہی انداز سے طلوع ہوتی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ ہر شمارہ، اپنی مثال آپ ہوتا ہے۔ مَیں ایک طویل عرصے سے جریدے کا بہت بڑا مدّاح ہوں اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ تعلق مزید گہرا اور مضبوط ہی ہوا ہے۔ (شری مُرلی چند جی، گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)

کیا لاجواب، جواب دیا

ہیرے کی کنی جیسی حسین ڈاکٹر ’’مِس پاکستان یونیورسل‘‘ کا تاج پہنے سرِورق پر رونق افروز تھیں، بہت اچھا لگا۔ ’’حالات وواقعات‘‘ میں بین الاقوامی، قومی اور عسکری وسیاسی امور کے منجھے ہوئے تجزیہ نگار، منورمرزا کاتجزیہ لائقِ مطالعہ تھا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی نے مسلمانوں کے قبلۂ اوّل اور روحانی مرکز ’’مکّہ مکرّمہ‘‘ کی ارتقائی منازل سے متعلق بہترین معلومات فراہم کیں۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر یاسمین شیخ فنگس، داد اور ڈاکٹر شاہ جہاں کھتری کیل مہاسوں کے حوالے سے اہم طبّی معلومات لائے۔ ’’انٹرویو‘‘ میں روف ظفر کی خطّاط عرفان احمد خان سے گفتگو اچھی تھی۔ اور ’’جہانِ دیگر‘‘ میں سلمیٰ آپا نے تو چِین کا چپّا چپّا گھما ڈالا۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں اختر سعیدی معتبر صحافی، نابغۂ روزگار ہستی خالد علیگ کی زندگی اور کلام کے حوالے سے رقم طراز تھے۔ ’’آدمی‘‘ بلاشبہ عرفان جاوید کا شاہ کار ہے۔ پیارا گھر، اِک رشتہ، اِک کہانی آور ڈائجسٹ کی تمام تحریریں سبق آموز تھیں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ابنِ آس کی بپتا پڑھ کر بہت متاثر ہوئے اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں اسما دمڑ کے لیے آپ کا جواب، لاجواب تھا۔ کیا شان دار بات کی کہ ’’دوسروں کو دیکھ کر آہیں بھرنے کی بجائے خود پڑھ لکھ کے اُن کے مقام تک پہنچنے کی کوشش کرو۔ اِک دنیا دیکھنے کی خواہش پرکیا موقوف، تمہارا ہر ارمان اور حسرت پوری ہوسکتی ہے۔‘‘ واہ، کیا موٹیویشن ہے۔ بس، ہم آپ کے ایسے ہی جوابات کےتو گرویدہ ہیں۔ (مبارک علی ثاقب، راول پنڈی)

ج: دیکھ لیں، جن لیکچرز کے یہ موٹیویشنل اسپیکرز ہزاروں روپے لیتے ہیں، ہم وہ گیان یوں ہی بانٹے پھرتے ہیں۔ ہاہاہا……

اچھے لوگ تلاش کرنے کی صلاحیت

ماہ اگست کے آخری دو شمارے پڑھے، اچھے لگے۔ آدمی میں ’’بَڈی ماموں‘‘ کا کردار پورا ہوا۔ مگر یہ کیا، وہ لاس ویگاس چھوڑ کر مالدیپ میں رُوپوش ہوگئے۔ ویسے عرفان جاوید کے یہ کردار نئی نسل کے لیے کچھ زیادہ مثالی نہیں تھے، بلکہ ڈر ہے، کہیں نسل نو اِن سے متاثر ہو کر بےراہ روی کی شکار نہ ہو جائے۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں سلمیٰ اعوان کے دل کو چِین کا سفر تو خُوب راس آگیا، پتا نہیں دل کا چین بھی پاسکیں یا نہیں۔ اُدھر منور مرزا نے تائیوان کا سفر شروع کیا ہوا ہے، چین کے تحمّل سے امریکا کی تشویش کا پڑھ کر حیرت ہوئی کہ کبھی کسی کے تحمّل سےبھی کسی کواضطراب ہو اہے۔ ’’اشاعت ِ خصوصی‘‘ میں ’’ تعبیر خواب‘‘ ملی تو ساتھ ہی ہجرت کا کرب بھی ملا۔ خوش بخت شجاعت اور عالیہ کاشف کی خوش گپیاں لُطف دے گئیں۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں شفق رفیع کی زبانی وزرائے اعظم کے مختصر حالات پڑھے۔ حد ہے ویسے، اس مُلک میں ایک بھی وزیر اعظم آئینی مدّت پوری نہ کرسکا۔ ڈاکٹر یاسمین شیخ نے سورائسز پر شان دار مضمون لکھا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی ’’ڈگڈگی‘‘بھی پسند آئی۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے واقعات واقعتاً ناقابلِ فراموش تھے۔ ہم صبح پرستوں کی، یہ ریت پرانی ہے.....ہاتھوں میں قلم رکھنا، یاہاتھ قلم رکھنا۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں اختر سعیدی نے خالد علیگ کو بےمثال خراجِ عقیدت پیش کیا۔’’ انٹرویو‘‘ میں عرفان احمدخان کی عجب داستان پڑھی۔ بلاشبہ رئوف ظفر اچھے لوگ تلاش کرنے کی صؒلاحیت رکھتے ہیں۔ ’’سرچمشہ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں شام جی اور ابنِ آس کی کہانی زبردست تھی۔ واقعی، اگر شام جی، حوصلہ نہ دیتے، تو آج دنیائے اُردو ایک اچھے لکھاری سے محروم ہوتی۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کی کہانیاں بہت مزے دار تھیں۔ اور ڈائجسٹ، نئی کتابیں اور آپ کا صفحہ تو عرصے سے پسندیدہ سلسلوں میں شمارہوتے ہیں۔ (ڈاکٹر محمّد حمزہ خان،ڈاھا، لاہور)

ناقابلِ اشاعت کے کھاتے میں…!!

آج سے تقریباً پانچ ماہ پیش تر بندے نے آپ کو دو واقعات بھیجے تھے، مگر آپ نے اُن میں سے ایک کو ناقابلِ اشاعت کے زمرے میں ڈال دیا اور دوسرا بھی اب تک شایع نہیں کیا، تو مہربانی فرماکر اگر وہ بھی آپ کے معیار کے مطابق نہیں ہے، تو ناقابلِ اشاعت کے کھاتے ہی میں ڈال دیں تاکہ بندہ مطمئن ہوجائے۔ ویسے چند اور واقعات بھیج رہا ہوں۔ قابلِ اشاعت لگیں، تو شایع کردیجیے گا۔ (سائیں تاج دین بٹ، عدیل ٹاون، بھائی والا،فیصل آباد)

ج: ایسی بھی کیا جلدی ہے آپ کو۔ فہرستیں بنتی رہتی ہیں اور نام بھی وقتاً فوقتاً شامل ہوتے رہتے ہیں۔ جو تحریر مناسب ہوگی، شایع کردی جائے گی، نہیں تو ناقابلِ اشاعت کی فہرست تو موجود ہی ہے۔

                                                فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

سرِورق کی’’ گلاب زادی‘‘ کو حجاب میں دیکھتے ہوئے آگے بڑھے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی مکّے کے ماضی و حال کی تاریخ کی دوسری قسط لائے، معلومات میں کافی اضافہ ہوا۔ ’’رپورٹ‘‘ میں ڈاکٹر معین الدین عقیل نجی کتب خانوں کی زبوں حالی پر شکوہ کُناں تھے، جس قوم کا کتاب سے رشتہ ٹوٹ جائے، اُس کی ترقی کی راہیں مسدود ہوجاتی ہیں۔ امریکا، یورپ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اتنی ترقی کے باوجود کتب بینی کے شوقین ہیں۔ آئے روز بیسٹ سیلرز بُکس کے ریکارڈ ٹوٹتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی ’’حجاب ڈے‘‘ کی مناسبت سے فکر انگیز مضمون لائیں۔ ’’پیاراگھر‘‘ میں نادیہ ناز غوری نے ’’حجاب، عِصمت وعفّت کی زکوٰۃ‘‘ کے عنوان سے بہترین تحریر لکھی۔ بلاشبہ یہ حجاب عورت کی کئی سنگین بردار پہرے داروں سے زیادہ حفاظت کرتا ہے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں جنگ ستمبر کے حوالے سے شفق رفیع مُلک کے نام وَر دانش وروں، سیاست دانوں کےمشاہدے، مطالعے کے ذریعے قوم کے پشتیبانوں کو بہترین خراجِ تحسین وعقیدت پیش کر رہی تھیں۔ ہمیں بھی یاد ہے، ہم نے 65ء کی جنگ کے دوران (جب آتش جوان تھا)، کس طرح راتوں کو سول ڈیفینس کے رضا کاروں کے ساتھ اہم ترین مقامات پر پہرہ دیا۔ واللہ، قوم کا کیا مورال تھا۔ اُن سترہ دنوں کی جنگ میں مُلک میں جرائم کی شرح صفر پر آگئی تھی۔ اے کاش! وہ جذبہ برقرار رہتا، تو آج ہماری تاریخ مختلف ہوتی۔ ’’سینٹراسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹر صاحبہ کی تحریر، سبحان اللہ کیا عُمدہ رائٹ اَپ تحریر کیا۔ ویسے آپ کی گلاب زادی کاچہرہ تو کُھلاہی تھا، ہاں جسم ضرور ڈھانپ رکھا تھا۔ عالمی افق میں منور مرزا کورونا کے بعدکی دنیا کے انقلابی فیصلوں پر تبصرہ کر رہے تھے، اور کیا ہی اچھا کر رہے تھے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘میں ڈاکٹرزبیدہ مسعودپولی سیسٹک اووری سینڈروم کی علامات، احتیاط اور علاج کے ضمن میں مٖفید معلومات لائیں، تو ڈاکٹر امن اعوان نے بھی فزیوتھراپی کی افادیت خُوب بیان کی۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں سلمیٰ اعوان کو چِین کا سفر ہے درپیش اور جس طرح انہوں نے قریے قریے کا احوال عُمدگی سے رقم کیا، بلاشبہ اُن ہی کا خاصّہ ہے۔ عرفان جاوید کے ’’آدمی‘‘ کی باتیں تو ایسی دل چسپ ہوتی ہیں کہ قسط ختم ہونے کاپتا ہی نہیں چلتا۔ قانتہ رابعہ، گوجرہ سے آپ کے ٹیم کے لیے ایک بہترین اضافہ ثابت ہو رہی ہیں۔’’میرا آنچل ہے حیا کا پرچم‘‘ ڈاکٹر عزیزہ انجم کی نظم بےحد متاثر کُن تھی۔ ہم تو ڈاکٹر صاحبہ کو اچھی نثرنگار ہی سمجھتے تھے،موصوفہ تو بہترین شاعرہ بھی ہیں۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں تمام ہی کہانیاں خُوب صُورتی سے لکھی اور مرتّب کی جاتی ہیں۔ نئی کتابیں پر اختر سعیدی اپنے منفرد و مدبّرانہ انداز میں خُوب تبصرہ فرماتے ہیں اور ہمارے صفحے پر ’’اس ہفتے کی چِٹھی‘‘ اقصیٰ منور ملک کے نام رہی۔ باقی لکھاری بھی اچھی کاوشیں لائے۔ ہاں، ایک تحریر میں ’’دھوکا‘‘ کے بجائے ’’دوھکا‘‘ لکھا تھا، کیا صحیح تلفّظ یہی ہے۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)

ج: یہ توحد ہی ہوگئی ہے۔ آخری سطر پڑھ کے ایک لمحے کوسوچا کہ آپ کی چِٹھی کو’’اس ہفتے کی چِٹھی‘‘ نہیں ہونا چاہیے کہ آپ کو لفظ ’’دھوکا‘‘ کا صحیح تلفّظ بھی نہیں معلوم، پھر مجبوراً مسند پہ بٹھانا ہی پڑا کہ اس ہفتے اس سے بہتر کوئی اور چِٹھی آئی بھی نہیں۔ ویسے آپ کی اطلاع کے لیےعرض ہے،چوں کہ جریدے کا مواد پہلے کمپوز ہوتا ہے، پھر پروف کیا جاتا ہے، تو کچھ غلطیاں رہ ہی جاتی ہیں کہ بہرحال ہم سب انسان ہیں۔ گرچہ کاپی پریس بھیجنے سےپہلےآخری لمحے تک کوشش رہتی ہے کہ معمولی سے معمولی غلطی بھی درست کرلی جائے، لیکن انسان کا کامل ہونا ممکن ہی نہیں۔

گوشہ برقی خطوط

*  ارے… آپ نے میری ای میل شایع کردی۔ قسم سے یقین ہی نہیں آرہا تھا۔ گھر میں سب کو پکڑ پکڑ کر دکھائی۔ پُراسرار کہانیوں کی تجویز تو محض ایک بہانہ تھی۔ دلی خواہش تو یہی تھی کہ کسی طرح ای میل شایع ہوجائے۔ ہاں، آج ایک درخواست کرنی ہے، عمیرہ احمد کا کوئی ناول شروع کردیں۔ کوئی سا بھی ناول شروع کردیں گی، ہم خوش ہوجائیں گے۔ مجھے تو اُن کا ہر ناول ہی پسند ہے۔ ایک بات اور، مَیں ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں سب سے پہلے خادم ملک کا خط ڈھونڈتی ہوں۔ اُن کے بےجا اعتراضات اور آپ کے کرارے جوابات پڑھ کے مزہ آجاتا ہے۔ (آمنہ انور)

ج: کسی مطبوعہ تحریر کی دوبارہ اشاعت ہماری ادارتی پالیسی کے خلاف ہے۔ ہم طبع زاد تحریروں کی اشاعت کے پابند ہیں۔ سو، عمیرہ احمد کا کوئی بھی شایع شدہ ناول ہمارے یہاں دوبارہ شایع نہیں ہو سکتا۔ رہی بات، خادم ملک کے خطوط کی، تو جب آتے ہیں، ہم شایع کر ہی دیتے ہیں۔ اب وہ نہ لکھیں، تو اُن کی طرف سے ہم خود تو خط لکھنے سے رہے۔

* مَیں تاریخی مواد پر تحقیقی کام کرتا ہوں، خصوصاً برصغیر کی تاریخ سے متعلق۔ حال ہی میں میری ایک تاریخی، تحقیقی کتاب بھی شایع ہوئی ہے، جس کی دو جِلدیں آپ کے دفتر کے استقبالیےپر دےکرآیا ہوں۔نیز، آپ سے ایک درخواست بھی کرنی تھی کہ کیا آپ میرا تعارف کسی ایسے متعلقہ فرد سے کروا سکتی ہیں کہ جو پرانے اخبارات کی اسیکنڈ کاپیز تک میری رسائی ممکن بنا سکے۔ مجھے اپنے تحقیقی کاموں کے سلسلے میں ایسے اخبارات کی ضرورت رہتی ہے۔ آپ کے ادارے کے تینوں بلاکس کے استقبالیوں پر آکر درخواست کی، لیکن کسی نے رہنمائی نہیں کی۔ (محمّد مشہود قاسمی)

ج: آپ کی کتاب کی دونوں جِلدیں وصول ہوگئی تھیں بلکہ اُس پر تفصیلاً تبصرہ بھی شایع کردیا گیا ہے۔ پرانے اخبارات کے لیے ہمارے یہاں ایک شعبہ ’’ریسرچ اینڈ ریفرنس سیکشن‘‘ کے نام سے موجود ہے۔ آپ کے موبائل نمبر پر متعلقہ شعبے کے انچارج کا نمبر بھیج دیا ہے، اگر پھر بھی رابطے میں کوئی مشکل ہو تو آپ ہمارے دفتر کے استقبالیے پر آکے ہم سے بذریعہ آفس ایکسٹینشن رابطہ کرلیں۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk