• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:خواجہ محمد سلیمان۔۔۔ برمنگھم
برطانیہ میں جو کشمیری بستے ہیں ان میں سے اکثریت کا تعلق ضلع میر پور اور کوٹلی سے ہے اور اب ان کی چوتھی نسل پروان چڑھ رہی ہے۔ برطانیہ کے ہر شہر میں ان کی کثیر تعداد موجود ہے یہ میرپوری کس طرح برطانیہ آئے اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے1947سے پہلے ضلع میرپور صوبہ جموں میں آتا تھا ہندو ڈوگروں کے راج جو ایک سو سال تک رہا میرپور کی مسلم آبادی کی اکثریت جو شہر اور مختلف دیہاتوں میں آباد تھی تعلیم سے محروم تھی خاص کر دینی تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی۔ زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی کرکے گزارہ کرتے تھے تعلیم کی محرومی کی وجہ سے نوکریاں ملنا مشکل تھا لیکن اس کے باوجود بھی بعض لوگوں نے تعلیم کے میدان میں کوشش کی برصغیر پر برطانیہ راج کر رہا تھا اکثر اس ضلعکے لوگ بحری جہازوں کی نوکریاں کرنے کے لئے بمبئی کا رخ کرتے تھے اور اس طرح کچھ لوگ برطانیہ پہنچے۔ بہت سارے لوگ دوسری جنگ عظیم کے بعد کامن ویلتھ سکیم کے تحت نوکریاں کی تلاش میں یہاں آئے اس طرح منگلا ڈیم جب بنا تو ضلع میرپور کے باسی بہت ساری زرعی زمین سے محروم ہو گئے اس وجہ سے بھی ہزاروں کی تعداد میں یہاں آئے 1970میں امیگریشن کے قانون میں سختی کی وجہ سےاس تعداد میں کافی کمی آئی پھر مینگیتروں کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے پہلے جو لوگ آئے وہ زیادہ تر مزدور ی کرنے کے لئے آئے ان کے ساتھ فیملیز کم تھیں لیکن بعد میں خاندانوں کے خاندان یہاں آگئے اب وہ پوری طرح برطانوی زندگی میں مل جل گئے ہیں خاص کر نوجوان نسل تو اپنے آپ کو پاکستانی یا کشمیری کم کہلاتی ہے لیکن ایک بات جو اکثر دیکھنے میں آئی ہے کہ بے شک یہ نوجوان پیدا یہاں ہوئے ہیں ان کی زبان اب انگلش ہے یہ یہاں کےا سکولوں اور کالجوں میں گئے ہیں ان کے پاس ڈگریا ں ہیں لیکن برطانوی معاشرہ ان کو اپنا تسلیم کرنے کے لئے تیا ر نہیں ہے آج بھی ان کو نسلی تعصب اور اسلامو فوبیا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ قانون کی نظر میں یہ برطانوی شہری ہیں لیکن چونکہ ان کا رنگ سفید نہیں اور یہ یورپین نہیں ہیں اور نہ ہی برطانیہ کا تاریخی پس منظرمیں ان کا حصہ ہے اس لئے یہ اس معاشرے میں اجنبی محسوس کئے جاتے ہیں یہ ملک کبھی ان کو ایشیائی ا ور اب مسلم پہچان دیتا ہے بعض لوگوں نے تگ ودو کرکے کشمیری شناخت بھی منوائی ہے۔ جو بزرگ میرپور سے پہلے آئے تھے انہوں نے بڑی مشکل سے اس ملک میں محنت مزدوری کرکے ٹھکانا بنایا پہلے زیادہ تر مرد حضرات تھے پھر فیملیز آئیں اب خاندانوں کے خاندان یہاں رہ رہے ہیں ان تارکین وطن کی وجہ سے ضلع میرپور میں کافی خوشحالی آئی ہے لیکن اگر منظم اور پلاننگ سے کام کیا جاتاتو شاید یہ خطہ زیادہ تعمیر وترقی کرتا زیادہ سرمایہ کاری پراپٹی میں کی گئی ہے جس سے لوگوں کی رہاشی سہولتوں بہتر ہوئیں لیکن اگر انڈسٹری میں سرمایہ کاری کی جاتی جس سے مقامی لوگوں کو روزگار مہیا ہوتے تو زیادہ بہتر تھا۔ اس میں آزاد کشمیر حکومت کا بھی قصور ہے جس نے ایسے کوئی منصوبے نہیں بنائے جس سے اس علاقے میں بیرون ممالک میں رہنے والے سرمایہ کاری کرتے کچھ لوگوں نے اپنے ذرئع سے کوشش کی لیکن کرپٹ سسٹم سے تنگ آکروہ کام آگے نہ بڑھ سکا۔برطانیہ میں اکثر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ میرپوری سیدھے سادہ لوگ ہیں ان کی اس سادگی سے سیاست دان اوربعض مذہبی رہنما نا جائز فائدہ اٹھاتے ہیں اس میں کافی حد تک سچائی ہے لیکن یہ باتیں بھی اکثر سنی ہیں کہ دیہاتوں کے لوگ سادھے ہوتے ہیں اس لئے جب وہ شہروں میں جاتے ہیں تو وہاں پر چالاک لوگ ان کو ٹھگنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی اس دنیا میں دھوکہ دھی سے لوگوں کو بے وقوف بنا کر لوٹ رہا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں بڑا چالاک اور ہوشیار ہوں تو اس جیسا احمق کوئی نہیں اس لئے کہ وہ اس فانی دنیا کے لئے اپنی ہمیشہ کی آخرت تباہ کررہا ہے لیکن موجودہ زمانے میں انسان آخرت کا کب سوچتے ہیں وہ اس دنیا کے مزے لوٹنے میں مست ہیں ہم روز ان کا حشر دیکھتے ہیں جو ایسی حرکات کرتے ہیں لیکن انسان کم ہی عبرت حاصل کرتا ہے ہرآدمی کو اپنا شہر اپنا علاقہ اچھا لگتا ہے۔ یہ ایک قدرتی امرہے یہاں برطانیہ میں ایک ہی نسل کے سفید فام انگریز مختلف شہروں میں رہتے ہیں ایک ہی ملک کے باشندے اپنے شہروں کی فٹ ٹیم کو سپورٹ کرتے ہیں اور پھر دوسرے شہر کی ٹیم اور اس کے سپورٹروں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور میچ کے بعد لڑائی اور فسادات ہوتے ہیں ہر سال ان دوقسم کے شایقین کو علیحدہ رکھنے کے لئے ملین آف پونڈز خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ایسا نہیں ہونا چا ہئے اپنے شہر کو پسند ضرور کیا جائے لیکن دوسروں کے ساتھ نفرت اور تعصب نہیں رکھنا چاہئے۔ منگلا ڈیم کی وجہ سے پرانا میرپور اور اس سے ملحقہ گائوں پانی میں ڈوب گئے ظاہر ہے کہ اس طرح ہونا ایک تکلیف دہ عمل ہے کیونکہ لوگوں کی وبستگیاں اپنے گائوں محلے کے ساتھ ہوتی ہیں لیکن یہ دنیا کا نظام تغیر وتبدیلی پر مبنی ہے بے شک پرانا شہر ڈوب گیا ہے لیکن اس کی جگہ ایک نیا میرپور شہرآباد ہوگیا ہے جس کی وجہ سے اس شہر کے باسیوں کو بہتر سہولتیں میسر ہیں بعض لوگوں نے منگلا ڈیم کے حوالے سے پاکستان اور کشمیریوں کے درمیان نفرتیں پھیلانے کی کوشش کی لیکن ان کی ان کاوشوں کو کوئی حمایت نہیں ملی لیکن یہ بات ضروری ہے کہ ڈیم کے حوالے سے جو لوگ اجڑے ہیں ان کی دیکھ بال کرنا سب کی ذمہ داری ہے خاص کر غریب لوگوں کی بحالی کے لئے امداد جاری رہنی چاہئے ۔نئے میرپور سے لیکر ڈڈیا ل تک نئی بستیاں آباد ہوئی ہیں سڑکوں کاجال بچھا ہے گائوں گائوں تک پانی کی سہولتیں پہنچی ہیں ان کی قدر کرنا چاہئے یہاں برطانیہ میں ایک کیمپین چل رہی ہے کہ میرپور میں ایک ائیر پورٹ ہونا چاہئے حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر کو اس پر توجہ دینی چاہئے تاکہ مزید تارکین وطن کو سہولتیں میسر ہوں اور میرپور اور ترقی کرے۔
یورپ سے سے مزید