• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی بگاڑ، زمین کی چمک ماند پڑگئی

کراچی (نیوز ڈیسک) دسمبر کے مہینے میں دن کے وقت درجہ حرارت کا 28؍ سے 30؍ ڈگری سینٹی گریڈ ہونا ہمارے لیے غیر معمولی بات ہے کیونکہ یہ وہ وقت ہے جب سورج کی تپش میں نمایاں کمی واقع ہو چکی ہوتی ہے تاہم، رواں سال موسم سرما میں گرمی کے کئی ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں اور گزشتہ برسوں کے مقابلے میں رواں سال کئی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ گرم ترین دن کے ریکارڈ ٹوٹے ہیں۔ پھلوں اور پھولوں میں وہ رنگت نہیں رہی اور پرندوں کی دل کو لبھانے والی میٹھی سریلی آواز بھی اب ہمیں بمشکل ہی سنائی دیتی ہے۔ صبح سویرے جو چڑیاں ہمیں نیند سے بیدار کرتی تھیں، وہ چہچہاہٹ اب بمشکل ہی سننے کو ملتی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی، آب و ہوا کے بگاڑ اور تغیرات کی وجہ سے دنیا کے کئی ملکوں میں جہاں سیلاب، ہیٹ ویوز، قحط اور شدید بارشوں کے کئی ریکارڈ ٹوٹے ہیں وہیں روس کے سرد ترین مقام سائبیریا میں بھی برف کے ذخائر جس قدر تیزی سے پگھل رہے ہیں وہ تیزی ماہرین کے اندازوں سے بھی کہیں زیادہ یعنی چار گنا تیز ہے۔ ماضی کی طرح پرندوں کی چہچہاہٹ ویسی ہے اور نہ پھولوں کی رنگت و رعنائی میں وہ دلکشی۔ یہ سب وہ سائیڈ افیکٹس ہیں جو صنعتی ترقی کی دوڑ میں انسان کے ہاتھوں کرۂ ارض کے ماحول اور موسمیات کو ہونے والے نقصان کے نتیجے میں انسانوں کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ ماحولیاتی بگاڑ کے کچھ اثرات تباہ کن ہیں تو کچھ عجیب و غریب۔ سائبیریا میں برفانی دور (پرما فروسٹ) کے دور کی برف پگھلنے کے نتیجے میں ہریالی سے بھرے میدانی علاقے پیدا ہو رہے ہیں۔ کچھ میدان علاقوں میں بڑے بڑے گہرے سوراخ اور گڑھے بھی ملے ہیں جن کےمتعلق سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے برف پگھل گئی اور زیر زمین گیس کے چھوٹے چھوٹے ذخائر گرمی کی حدت سے پھٹ رہے ہیں جس سے یہ سوراخ (گہرے کنویں) جنم لے رہے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کا ایک اور عجیب سائیڈ افیکٹ یہ بھی ہے کہ زمین کی چمک دمک بھی ماند پڑ رہی ہے۔ امریکی ریاست نیو جرسی میں بگ بیئر سولر آبزرویٹری کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ زمین پر سورج کی روشنی پڑنے کے بعد اس کا بیشتر حصہ خلاء میں واپس منعکس ہو جاتا ہے جس کا ایک حصہ چاند کے تاریک حصے پر بھی پڑتا ہے۔ ماضی میں اس منعکس ہونے والی روشنی کی وجہ سے زمین سے چاند کا تاریک حصہ بھی دیکھا جا سکتا تھا۔ زمین سے منعکس ہو کر چاند پر پڑنے والی اس شمسی روشنی کو ’’ارتھ شائن‘‘ یا Albedo کہا جاتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سمندروں کے گرم ہوتے پانیوں کی وجہ سے مشرقی بحر الکاہل (Pacific Ocean) پر بننے والی بادلوں کی تعداد، مقدار اور حجم بہت کم ہو چکا ہے۔ چونکہ یہ بادل ایک آئینے کی طرح کام کرتے ہیں اور سورج کی زمین پر پڑنے والی روشنی کو واپس خلاء میں منعکس کرتے ہیں، لہٰذا دن بہ دن ارتھ شائن میں بھی کمی آ رہی ہے۔ گلوبل وارمنگ کے اثرات صرف انسانوں پر ہی نہیں پڑ رہے بلکہ دیگر حیات بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ مثلاً، کچھ رینگنے والے جانور (Reptiles) ایسے بھی ہیں جن کے انڈوں سے نکلنے والے بچوں کی جنس کا تعین ان انڈوں پر پڑنے والی گرمی سے طے ہوتی ہے۔ آسٹریلیا میں پائی جانے والی چھپکلی کی ایک قسم ’’سینٹرل بیئرڈڈ ڈریگن‘‘ درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے نر سے مادہ میں تبدیل ہو رہے ہیں کیونکہ انڈوں پر درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ان کی جنس تبدیل ہو رہی ہے۔ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس نسل کے نر ڈریگن بتدریج کم ہو جائیں گے کیونکہ درجہ حرارت کتنی اقسام کے جانوروں کے ناپید ہونے کا سبب بنے گا، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے علاوہ، ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندروں کے پانی میں ماحول دشمن کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی آمیزش بڑھنے سے مچھلیوں کے سونگھنے کی صلاحیت ختم ہو رہی ہے۔ شدید موسمی حالات کی وجہ سے اجناس اور فصلوں کو بھی نقصان ہو رہا ہے۔ صرف گندم، مکئی اور کافی جیسی فصلیں ہی دنیا بھر میں متاثر نہیں ہو رہی ہیں، کھانے پینے کی دیگر چیزوں کی پیداوار بھی متاثر ہو رہی ہے۔ مثلاً، امریکی ریاست کیلیفورنیا میں قائم ہوائی فونگ فوڈز ہر سال سرخ مرچ سے بنی سریراچا ساس کی 2؍ کروڑ بوتلیں بناتی ہے۔ تاہم، رواں سال کمپنی نے اپنے صارفین کو خط لکھ کر خبردار کیا کہ امسال سرخ مرچوں کی کم پیداوار کی وجہ سے ساس کی پروڈکشن کم رہے گی۔ موسم سرما میں فرانس کے اسٹورز سے مسٹرڈ ساس کی بوتلیں غائب ہوگئیں، پتہ چلا کہ اس سال کینیڈا میں سرسوں کی پیداوار کم رہی جس کے باعث ساس کی پروڈکشن کم رہی۔ اگست میں فرانسیسی جوہری پاور پلانٹ کو بجلی کی پیداوار اس لئے بند کرنا پڑی کہ جوہری ری ایکٹر کو ٹھنڈا کرنے کیلئے فرانسیسی دریاؤں میں پانی ٹھنڈا نہیں تھا۔ ان تمام مسائل کا حل تلاش تو کیا جا رہا ہے، ماہرین کو بھی معلوم ہے تاہم، اس پر غور نہیں کیا جا رہا۔ اقوام متحدہ کے ماحولیات کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں بھی اس بات پر بحث ہوئی کہ انسانوں کو ان گیسوں کا اخراج کم کرنا ہوگا جو کرۂ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ تاہم، ایسا نہ کرنے کی وجہ سے ہم پہلے ہی اپنے چمکدار اور زندگی سے بھرپور سیارے یعنی کرۂ ارض کی چمک دمک کو ماند کر چکے ہیں۔
اہم خبریں سے مزید