• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس نئے عالمی نظام میں، تیز رفتار سماجی و اقتصادی ترقی کی کلید قوموں کی اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مصنوعات ( اعلیٰ منافع بخش) اشیا کی تیاری اور برآمد کرنے کی صلاحیت میں مضمر ہے۔پاکستان میں یکے بعد دیگرے آنیوالی حکومتیں اس سادہ مگر طاقتور حکمت عملی کا ادراک کرنے میں ناکام رہی ہیںاسی لئے ہم بے شمار کمزور پالیسیوں میں الجھ گئے ہیں جو ایک حکومت سے دوسری حکومت میں منتقل ہو رہی ہیں اور ہم اسی دلدل میں پھنسے ہوئےہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج بنگلہ دیش جیسے ممالک بھی ہم سے بہت آگے نکل گئے ہیں جبکہ ہم اپنا راستہ کھو بیٹھے ہیں۔

لہٰذا، آگے بڑھنے کا واحد راستہ، دستیاب محدود فنڈز اورقیمتی وسائل ہمارےطلبا پرپر مثبت طریقے سے خرچ کرنے میں مضمر ہے۔ضروری ہے کہ ہم تعلیم،سائنس اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کی صنعتوں پر بھر پورسرمایہ کاری کریں اور اپنی قوم کو چوتھے صنعتی انقلاب کیلئے تیار کر یں کیونکہ صرف اسی طرح ہم ابھرتے ہوئے پانچویں صنعتی انقلاب کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ بھارت کی مثال سامنےہے۔ وہ خوش قسمت تھا کہ جواہر لال نہرو نے قوم کی ابتدائی ترقی کے ادوار میں اس کی رہنمائی کی۔ اسلئے بھارت نے معیاری تعلیم پر اور اعلیٰ معیار کے انڈین انسٹی ٹیوٹس آف ٹیکنالوجی (IITs) کی تعمیر پر سب سے زیادہ زور دیا جو آج دنیا کے بہترین اداروں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان عمدہ اداروں میں داخلے مرکزی طور پر ہوتے ہیں جس کیلئے لاکھوں ذہین طلباء محدود جگہوں پر داخلے کیلئےمقابلہ کرتے ہیں۔ بھارت میں اس وقت 23آئی آئی ٹی (IITs) ادارے ہیں۔ پرانے چھ آئی آئی ٹی (IITs)پہلے ہی بھارتی معیشت کو400ارب ڈالرسے زیادہ کا منافع کما کر دے رہے ہیں۔اعلیٰ معیار کے انجینئرنگ گریجویٹس کی وجہ سے بھارت نے کئی اہم صنعتی واعلیٰ ٹیکنالوجی کے شعبوں میں اپنا ایک مقام بنا لیاہے۔صنعت کو فائدہ پہنچانے کی ایک مثال ٹاٹا موٹرزکی ہے۔ ہندوستانی آٹوموبائل بنانے والی یہ اعلیٰ کمپنی جواہر لال نہرو کی رہنمائی میں تقسیم کے فوراً بعد قائم کی گئی تھی، اس نے 1954 میں موٹر گاڑیاں بنانے کی بہت بڑی کمپنی ڈیملر- بینز اے جی کے تعاون سے اپنی پہلی تجارتی گاڑی تیار کی تھی۔ ڈیملر بینز سے جدید ترین تکنیکی معلومات حاصل کرنے کے بعداس نے غیر ملکی بیساکھیوں کو پھینکنے اور اپنےقدموں پر چلنے کا فیصلہ کیا۔ جسکی وجہ سے غیر ملکی تعاون 1969ءمیں ختم ہو گیا۔ پاکستان کے آٹوموبائل ’’مینوفیکچرر‘‘کے برعکس جو دراصل’’ اسمبلرز‘‘ ہیں ، مینوفیکچرز نہیں ہیں ،یہ کمپنی مکمل بنیادی تیاری کرنے لگی ہے۔ یہی نہیں بلکہ، گاڑیوں کے تمام پرزوں اور دیگر حصوں کو مکمل مقامی طور پر تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ اس گروپ نے پچھلے سال اپنے مختلف منصوبوں بشمول انجینئرنگ سامان، آٹوموبائل،کپڑا سازی وغیرہ سے 103ارب ڈالرکی سالانہ فروخت کی اطلاع دی۔ پچھلے 30 سالوں میں اس گروپ کی ترقی سے ہم بہت سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔اب دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے:ایک وہ ممالک جو معیاری تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور اعلی ٹیکنالوجی کے حصول اور جدت کو فروغ دینے کیلئے ضروری اقدامات کر رہے ہیں، اور دوسرے وہ ممالک جو کہ کم آمدنی والی معیشتوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ افسوس کہ پاکستان کا تعلق ان دوسرےممالک سے ہے جو حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔ ٹیکنالوجی میں ترقی یا منتقلی کیلئے ملک کو انتہائی ہنر مند کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے جو دستیاب ٹیکنالوجیوں کو تیار کرنے، اپنانے اور مناسب طریقے سےاستعمال کر نے میں ماہر ہوں ۔ اس کیلئے ہمیں موجودہ تکنیکی تربیتی مراکز کو جدید طرز پر لانے، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کی طرز پر سائنس اور انجینئرنگ کی اعلیٰ سطح کی اطلاقی جامعات کے قیام اور مکمل انجینئرنگ تحقیقی جامعات میں بڑی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس ایک ہزار سے زیادہ فنی تربیتی مراکز ہیں جنہیں اعلیٰ بین الاقوامی اداروں سے منسلک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں اعلیٰ معیار تک پہنچایا جا سکے۔ نئی جدید ٹیکنالوجیوںمیں ترقی کے لئے، ہمیں معروف غیر ملکی شراکت داروں سےمل کر موجودہ انجینئرنگ جامعات، اور تحقیق و ترقی کے ادارے قائم کرنے یا اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے، جیسا کہ بھارت نے اپنے IITs کے معاملے میں کیا تھا۔

بھارت کاسائنس اور ٹیکنالوجی کا بجٹ تقریباً 150 ارب ہندوستانی روپے ہے، جو تقریباً400 ارب پاکستانی روپے کے برابر ہے۔ جبکہ پاکستان کی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کا بجٹ صرف 4 ارب روپےہے(یعنی سو گنا کم ہے)۔ 6گنا آبادی کے فرق کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ کم از کم 65 ارب پاکستانی روپے ہونا چاہئے تھا۔ اسی طرح جامعات کااوسطاًتحقیقی بجٹ تقریباً1.5 کروڑ (70ہزار ڈالر) روپےسالانہ ہےجس میںآلات اور کیمیائی اجزا کی خریداری انکی مرمت اور تحقیقی ملازمین کی تنخواہیںبھی شامل ہیں، جو کہ محض افسوسناک صورتحال ہے۔گزشتہ دہائی کے دوران تحقیقی فنڈز اور مطلوبہ بنیادی ڈھانچے کی کمی نے تحقیق کو روک دیا ہے اور آہستہ آہستہ زیادہ تر جامعات کو ناقص معیار کے کالجوں میں تبدیل کر دیا ہے،سوائے چند ایک جامعات کےجیسےNUST، COMSATS، UETs وغیرہ قابل ذکر ہیں جو کسی نہ کسی طرح اپنا مقام قائم رکھنے میں کامیاب رہی ہیں۔تحقیق اور ترقی میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری بھی پاکستان میں عملی طور پر نہ ہونے کے برابر ہے۔ عالمی سطح پر مقابلہ کرنےکے لئے نجی کمپنیوں کو بامعنی تحقیق اور ترقی کی کوششیں کرنے کی ترغیب دینے کے لئے، حکومت کو نجی شعبے کو بڑی مراعات کی پیشکش کرنی چاہئے۔ تحقیق میں سرمایہ کاری کیلئے ٹیکس میں چھوٹ، کلیدی ٹیکنالوجیوں میں کارکنوں کی غیر ملکی تربیت کیلئے بڑے پیمانے پر سرکاری گرانٹس کی فراہمی، آلات اور تربیت کیلئےگرانٹس کے ذریعے نجی صنعتوں میں لیبارٹریوں کو مضبوط بنانا، اور طویل مدتی ٹیکس میں چھوٹ کے ذریعے اعلیٰ ٹیکنالوجی کے شعبوں میں نئے کاروباری منصوبوں کو فروغ دیناشامل ہیں ۔ یہ میں نے اس وقت کیا جب میں 2003 میں وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی تھا جب پہلی بار آئی ٹی انڈسٹری کو 15 سال کی ٹیکس چھوٹ دی گئی تھی۔اگر پاکستان کو غربت اور محرومی کی اس گہری کھائی سے نکلنا ہے جس میں وہ دھنس چکا ہے، تو ہمیں اپنی سمت بدلنی ہوگی اور اس مضمون میں بیان کردہ تجاویزپر عمل درآمد کرنا ہوگا۔

تازہ ترین