’’امریکا کے معروف جریدے ’’ٹائم میگزین‘‘ فنانشل ٹائمز اور ’’فوربز‘‘ نے 2022ء میں دنیا کی طاقت ور، با اثر شخصیات کی فہرست جاری کی ہے۔ ’’ٹائم میگزین‘‘ نے یوکرینی صدر، ولادیمیر زیلینسگی کو 2022ء کی بہترین اور با اثر شخصیت (پرسن آف دی ایئر) اور جاپان کے مقتول صدر کو سال کی اہم شخصیت قرار دیا ہے، فہرست کے مطابق یوکرینی صدر طاقت ور شخصیات میں پہلے نمبر پر ہیں۔
جب کہ جاپان کے مقتول صدر، شینزو اے بے دوسرے نمبر پر، چین کے صدر شی جن پنگ تیسرے، روس کے صدر چوتھے اور امریکا کا پانچواں نمبر ہے۔ 2021ء میں امریکا کے صدر دوسرے اور چین کے صدر کا تیسرا نمبر تھا۔ بین الاقوامی جائزوں کے مطابق جوبا اثر شخصیات منظر عام پر رہیں ان میں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی 2021ء میں چوتھے نمبر سے 2022ء میں گیارہویں نمبر پر ہیں۔ ذیل میں ٹاپ ’’15‘‘ شخصیات کے بارے میں مختصراً ملاحظہ کریں۔‘‘
٭ ٭ ٭
شی جن پنگ …
شی جن پنگ، 2012 سے چین کی کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل، چین کی مسلح افواج کے سربراہ، پیولیٹ بیورو کے چیئرمین اور2013ء سے صدر ہیں۔ امکان ہے کہ وہ آئندہ صدارتی مدت کے ختم ہونے کے بعد تاحیات صدر نامزد ہو جائیں گے۔وہ سب سے طاقتور رہنما ہیں۔
شی جن پنگ 1953ء میں چین میں پیدا ہوئے۔ طالب علمی کے دور سے ہی کمیونسٹ نظریات کے پُرجوش حامی تھے۔ نوّے کے عشرے کے آخر میں اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا اورصدر بننے تک اہم عہدوں پر فائز رہے۔
فطرتاً خاموش طبع، ہنس مُکھ مگر کم گو واقع ہوئے ہیں۔ مطالعہ کا بہت شوق رکھتے ہیں،گوناگوں مصروفیات کے باوجود گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ اپنی لائبریری میں گزارتے ہیں۔ چینی رہنما کو عالمی تاریخ، سیاسی حالات اور نئی نئی سائنسی ایجادات کے حوالے سے جاننے کا شوق ہے۔
وہ کبھی کبھی ٹینس کھیلتےاورپیراکی کرتےہیں، اس کا انہیں شوق ہے۔ شی جن کے دور کے دس برسوں میں چین نے ہر شعبہ میں بہت ترقّی کی ،انہوں نے دفاعی طور پر بھی بہت ترقّی کی ہے۔ چین کی اس وقت سب سے زیادہ بڑی برّی فوج ہے، کہا جاتا ہے کہ 24 لاکھ سپاہی ہیں۔ چین نے اپنے بحری اور فضائی افواج کو مزید ترقّی یافتہ بنانے کا بیڑہ اُٹھایا ہے۔ ان کے دور میں پاکستان اور چین مزید قریب آئے ہیں۔
روسی صدر ولادی میر پیوتن
صدر ولادی میر پیوتن نہایت متحرک، ہنس مُکھ اور مذاکرات کے ماہر ہیں۔ انہیں شطرنج ، ٹینس کھیلنے اور سائیکلنگ کرنے کا شوق ہے۔ وہ اکثر شام کو سائیکل پر نوجوانوں سے ملنے کسی فٹبال اورباسکٹ بال گراؤنڈ میں پہنچ جاتے ہیں ،جہاں وہ نوجوانوں کے ساتھ کچھ دیر گزارنا پسند کرتے ہیں۔
پیوتن 1952ء میں روس میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد روس بلکہ سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی ’’کے بی جی‘‘ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے ،کچھ مدت بعد وہ ڈپٹی ڈائریکٹر بن گئے،مگر پھر وہ عملی سیاست میں آ گئے، مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے،کچھ عرصہ ملک کے وزیراعظم کے فرائض بھی سرانجام دیئے۔ پیوتن 2012ء سے روس کے صدر ہیں۔ انہوں نے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد روس میں جدیدترین اسلحہ سازی پر زیادہ زور دیا۔
کہا جاتا ہے کہ روس کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کا سب سے زیادہ ذخیرہ ہے۔ آج کل روس یوکرین جنگ کی وجہ سے صدر پیوتن سے مغربی ممالک بہت ناراض ہیں، مگر صدر پیوتن اپنے طور پر مطمئن ہیں۔ یوکرین کی جنگ میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال ہونے کے امکانات کے اعلان پر پوری دُنیا میں ہلچل سی مچ گئی۔ یوکرین کی جنگ طویل ہوگئی ہے، جس کا صدر پیوتن کو اندازہ نہ تھا۔ روسی صدر ،روس کو ستّر اور اَسّی کے سابق سوویت یونین کے دور کی طرح دُنیا کی سُپر پاور دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ بڑی طاقت اورطاقتور رہنما ہیں۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن…
امریکی صدر جو بائیڈن 1942ء میں امریکہ میں پیدا ہوئے، ان کے والد استعمال شدہ کاروں کی فروخت کا کاروبار کرتے تھے۔ بائیڈن نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد استعمال شدہ کاروں کا کاروبار شروع کیا، بعدازاں وہ اپنے علاقے سے سینیٹر منتخب ہوئے اور مسلسل الیکشن جیت کر 36 برس تک سینیٹر منتخب ہوئے، اس دوران مختلف کمیٹیوں کے سربراہ بھی رہے۔ ڈیموکریٹ رہنما، باراک اوباما صدر منتخب ہوئے تو بائیڈن کو آٹھ سال تک نائب صدر بنائے رکھا۔ اوباما کے بعد پارٹی نے جوبائیڈن کو صدارتی اُمیدوار کا ٹکٹ دیدیا۔
بائیڈن نہایت تجربہ کار پارلیمنٹیرین تھے ،اپنے تجربہ کی بنیاد پر وہ الیکشن جیت کر سب سے زیادہ معمر صدر بن گئے۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں بھول جانے کی عادت ہے، بیمار بھی رہتے ہیں مگر کام کر رہے ہیں۔ یوں بھی امریکی سیاست کا زیادہ بار پینٹاگون سنبھالتی ہے۔
صدر محض دستخط کرنے تک محدود ہوتا ہے۔ خاص طور پر تمام خارجی امور اور خارجہ پالیسی کو پینٹاگون دیکھتا ہے۔ کملا ہیرس امریکہ کی نائب صدر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کملا ہیرس ،وائٹ ہائوس کے معاملات دیکھ رہی ہیں۔ امریکہ کے حالیہ مڈٹرم الیکشن میں ری پبلیکن پارٹی نے زائد نشستیں جیت لی ہیں۔ اس حوالے سے قوی امکان ہے کہ آئندہ صدر امریکہ ریپبلیکن ہو ۔
ایلن مسک…
ایلن مسلک 1971ء کو جنوبی افریقہ میں پیدا ہوا۔ امریکہ میں تعلیم مکمل کی اور پنسلوانیہ یونیورسٹی سے اعلیٰ سندھ حاصل کی۔ بعدازاں ایلن نے ملازمت کے بجائے کاروبار شروع کرتے ہوئے ٹوئیٹر کمپنی کا سودا کرنے کا پروگرام بنایا اور چند دوستوں کے ساتھ 44 بلین ڈالر میں ٹوئیٹر کمپنی خریدکراس کو مزید ترقّی سے ہمکنار کیا۔ ایلن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دھن کا ہی نہیں ارادے کا بھی پکا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ٹوئیٹر کے ذریعہ وہ انسانیت کی خدمت کرنا چاہتا ہے۔
ایلن مسک کے والد گراہم مسک جنوبی افریقہ میں فلاح و بہبود کے معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ ایلن ہر اتوار کو صبح اپنی اہلیہ کے ہمراہ چرچ جاتا ہے۔ بعض غریب اسکولوں اور شفاخانوں کو امداد فراہم کرتا ہے۔ ٹوئیٹر کمپنی کی خریداری کے بعد وہ انسانی فلاح کے کام بڑے پیمانے پر شروع کر رہا ہے۔
ایلن مسک کی،ایکس خلائی سفر کمپنی ہے۔ اب تک وہ دو درجن افراد کو اپنی کمپنی کے ذریعہ خلاء میں چند گھنٹوں کے سفر کروا چکا ہے۔ ہر چند کہ اس کا زیادہ خرچہ آتا ہے،پھر بھی ایلن اپنی خلائی کمپنی سے بھی منافع کما رہا ہے۔ ایلن نے انجینئرنگ کی سند حاصل کی ہے اس لئے وہ خلائی سفر کو مزید دلچسپ بنانے کے لئے پروگرامنگ کر رہا ہے۔ امریکہ ،مہم جو افراد کے کھلا میدان ہے۔
جیف بیزوز …
جیف بیزوز، امریکہ کی بڑی کاروباری شخصیت ہیں۔ انہوں نے مختلف بڑے کاروباری اداروں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ وہ جنوری 1965ء میں امریکہ میں پیدا ہوئے۔ پرسٹن یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ فوربس کے مطابق وہ ایک سو سترہ بلین ڈالرمالیت کی املاک اور نقد رقم کے مالک اورایمیزون کمپنی کے سربراہ ہیں۔ وہ عالمی میڈیا کی ایک اہم شخصیت اور سرمایہ کار مانے جاتے ہیں۔
جیف بیزوز کے حوالے سے کہا جاتا ہے،کہ وہ ایک نرم دل اور انسانی فلاح پر یقین رکھنے والے فرد ہیں۔ گزشتہ دنوں جب طوفان سے جزیرہ ہوائی کے باشندوں کے گھر بار تباہ ہوگئے تھے تو سب سے پہلے جیف نے ان سب کی مدد کی، اس کے علاوہ امریکہ میں بے گھر لوگوں کو چھت فراہم کرنے کے لئے بھی ان کا ادارہ کام کرتا ہے۔ جیف کے ساتھ فلاحی امور میں ان کی اہلیہ میکنزی اسکاٹ بھی ان کا پورا پورا ساتھ دیتی ہیں۔
1994ء میں جیف بیزوز اور ان کی اہلیہ نے اپنی اپنی ملازمتیں ترک کر کے ایک گیرج کرایہ پر حاصل کر کےکاروبار شروع کیا۔ ایمیزون آن لائن سے سروس دیتی اور کتابیں، ویڈیوز بچوں کے کارٹون ویڈیو، موویز آن لائن فروخت کرتی ہے۔ گزرے دس برسوں میں ایمیزون کمپنی نے اربوں ڈالر کا سودا فروخت کیا اور بڑا منافع کمایا۔
جیف کو اپنی طالب علمی کے زمانے میں یونیورسٹی کے احباب کے میل جول سے اندازہ ہوگیا تھا کہ آن لائن سروس سے بہت کام کئے جا سکتے ہیں۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ سرمایہ اہم ہے مگر اس سے اہم آئیڈیا ہے۔ آئیڈیا اصل کام کرتا ہے ،سرمایہ اس کو سپورٹ کرکے آگے بڑھاتا ہے۔ امریکہ بھر میں ایمیزون باہر بھی اپنا کام کررہی ہے،ساتھ نام بھی پیدا کر رہی ہے۔ اس ضمن میں جیف کی اہلیہ میکنزی اسکاٹ کا بھی اہم کردار ہے۔
جیف امریکہ کے بیش تر پسماندہ علاقوں میں رہنے والوں کے لئے کتابیں وغیرہ فراہم کرتے رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کتابیں پڑھنے، مطالعہ کرنے سے ذہن کھلتا ہے، اس لئے تعلیم، تحقیق مطالعہ، مشاہدہ اور عقل کا استعمال ضروری ہے۔ ماضی پر دھیان نہ دو حال کو خوشحال بنائو۔
ولیم ہنری بل گیٹس …
ولیم ہنری بل گیٹس چند برس قبل دُنیا کے امیرترین فرد کہلاتے تھے،اب یعنی ۲۰۲۲ میں وہ امیر ترین افراد کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ بل گیٹس معروف ادارے مائیکرو سوفٹ کے مالک ہیں۔ انڈور گیمز تیار کر کے کمپنی کو بہت شہرت ملی۔کاروبارکے ساتھ بہت سے دیگر سوفٹ ویئر تیار کیے، اس کے بعد مائیکرو سوفٹ نے دُنیا بھر میں اپنی ساکھ قائم کر لی۔
بل گیٹس حساس ذہن اور انسانی فلاح کا بھی جذبہ رکھتے ہیں ،جوکم کاروباری شخصیات میں پایا جاتا ہے۔ انہوں نے بہت بڑا فلاحی ادارہ بھی قائم کیا ہے، جو دُنیا میں مہلک وبائی امراض کے خاتمے پر تحقیق کررہا ہے۔ یہ ادارہ دُنیا میں ناخواندگی اور پسماندگی کے خاتمے کے لئے بھی کوششیں کررہا ہے۔
بل گیٹس کے فلاحی ادارے نے پاکستان اور افغانستان میں پولیو کی بیماری کے خلاف جدوجہد شروع کی ہے،اب تک اس خطّے میں چار کروڑ سے زائد بچوں کو پولیو کے قطرے پلا چکا ہے۔ اس کی کارکردگی سے متاثر ہو کر چند اور مخیر شخصیات نےتعاون کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر بچے کو پولیو جیسی بیماری سے محفوظ رکھنے کے لئے پولیو کے قطرے پلانا ضروری ہے۔
پوپ فرانسس …
پوپ فرانسس عیسائی رومن کیتھولک فرقے کے سب سے بڑے رُوحانی پیشوا ہیں۔ وہ یونیورسٹی سے اعلیٰ اسناد حاصل کر چکے ہیں۔ پوپ کو دُنیا کے طاقتور ترین افراد میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ سائنسی سماجی اور مذہبی اسکالر ہیں۔عالمی حالات اور سماجیات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اٹلی میں واقع ایک مقام ،ویٹی کن میں کیتھولک فرقے کا بہت بڑا چرچ ہے ،اس کے ساتھ ان کی رہائش گاہ ہے۔
سابق امریکی صدر، باراک اوباما کے دور میں انہوں نے صدر سے کرّۂ اَرض پر ہونے والے مہیب منفی اثرات کے حوالے سے گہری تشویش کا اظہار کیا۔ صدر امریکہ نے جوابا کہا کہ، وہ اس صورت حال سے آگاہ ہیں، موسمی تغیرات کی وجہ سے کرّۂ اَرض پر خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ صدر اوباما طیارے میں پوپ فرانسس کوقطب شمالی کی طرف لے گئے اور انہیں دُنیا کے شمالی برفانی خطّےکا معائنہ کرایا ،جہاں دیوہیکل برفانی پہاڑ اور تودے ہوتے تھے، اب وہاں پہاڑی چٹانیں دکھائی دے رہی ہیں۔
آدھی سے زیادہ برف گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پگھل کر سمندر میں بہہ گئی ہے اور سمندر کی سطح میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اس صورت حال میں پوپ فرانسس نے دُنیا کے تمام اہم کلیسائوں کو خط لکھ کر گلوبل وارمنگ کی تشویش ناک صورت حال سے آگا کیا۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے قطب شمالی اور اطراف کے برفانی پہاڑوں کی برف پگھل جانے کی وجہ سے شمالی بحر اوقیانوس سے چلنے والی طوفانی ہوائیں شمالی ریاستوں میں شدید بارش اور برفانی طوفانوں کا سبب بن رہی ہیں۔ اس کے لیے پوپ ہر اتوار کو تمام کلیسائوں میں دُعا کراتے ہیں۔
ولی عہد محمد بن سلمان …
ولی عہد شہزادہ محمد سلمان سعودی عرب کے سب سے طاقتور رہنما اور عالمی سطح پر ۱۰ ویں نمبر پر ہیں۔ شہزادہ محمد سلمان نے کنگ سعود یونیورسٹی سے قانون کی اعلیٰ سندھ حاصل کی۔ وہ سعودی عرب میں بیش تر اصلاحات کے حامی ہیں ۔ ان کا وژن وسیع تر ہے۔ وہ کہتے ہیں یہاں معاشرت بہت قدیم ہے اس میں اصلاحات کی ضرورت ہے تا کہ ملک دُنیا کے ساتھ ساتھ قدم ملا کر چلے۔ وہ عورتوں کے حقوق کے بھی حامی ہیں۔ معاشرتی طور پر بھی وہ اہم اصلاحات کر رہے ہیں۔
گزشتہ سال امریکہ، برطانیہ اور بھارت کے موسیقی طائفے سعودی عرب میں پروگرام کر چکے ہیں۔ ان کا اگلا قدم یہ ہے کہ ملک کے نصاب میں بنیادی تبدیلیاں لائی جائیں۔ واضح رہے کہ الجبرا، جیومیٹری، طبیعات، کیمیا کا نصاب یا تو پرانا ہے یا تعلیمی اداروں میں ممنوع ہے۔ اس حوالے سے بعض سعودی دانشور علماء ،شہزادہ محمد سلمان کے شدید مخالف ہیں مگر نوجوان ان کو پسند کرتے ہیں۔ شہزادہ سلمان نے بڑے نجی اداروں میں کام کیا ،بعدازاں وہ اپنے والد کے صلاح کار معاون کے عہدے پر فائز ہوئے۔ انہیں گھڑ سواری، پیراکی اور باکسنگ سے شغف ہے وہ تعلیم عام کرنے، تحقیقی سائنسی اداروں کے قیام کی حمایت کرتے ہیں۔
گزشتہ ساٹھ ستّر سال سے سعودی عرب اورپاکستان کے مابین برادرانہ بنیاد پر تعلقات مثالی رہے ہیں۔ ولی عہد شہزادہ محمد سلمان نے جو ملک کے وزیر دفاع بھی ہیں داعش کے بڑھتے دہشت گرد اقدام کو کائونٹر کرنے لئے اسلامی ملکوں کا اتحاد قائم کیا۔ ان کا وژن بہت ہائی ہے اس حوالے سے ولی عہد محمد سلمان نے اطراف کے تمام ممالک سے اپنے تعلقات قائم کئے جس میں اسرائیل بھی شامل ہے۔
جاری حالات پھر ایران اور سعودی عرب کے مابین قدرے کشیدگی پیدا ہوئی ہے ،مگر ولی عہد شہزادہ محمد سلمان نوجوان اور متحرک ہیں۔ لوگ اُمید کرتے ہیں کہ وہ حالات پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ 2022ء میں ولی عہد کو وزیراعظم کے عہدے پر بھی فائز کیا گیا ہے۔ وژن 2030ء ان کے لئے اہم ہے، جس کے تحت وہ سعودی عرب کو ایک جدید مملکت بنانا چاہتے ہیں۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی…
جنتا پارٹی کے سربراہ نریندر مودی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہونے سے پہلے گجرات کے وزیراعلیٰ بھی رہے اوربطور وزیراعلیٰ انہیں وہاں بیش تر تنازعات سے گزرنا پڑا۔ نریندر مودی اپنا ایک وژن رکھتے ہیں جس کے تحت وہ کام کر رہے ہیں۔ بھارت میں صوبہ گجرات اہم صوبہ ہے، وہاں ان کی سیاسی سرگرمیاں زیادہ رہی ہیں۔ بھارت کے معروف رہنما مثلاً مہاتما گاندھی، سردار ولبھ بھائی پٹیل اور نریندر مودی ان سب کا تعلق گجرات سے ہے۔ اس کے علاوہ دیگر اہم شخصیات بھی اس صوبے سے تعلق رکھتی ہیں۔ گجرات کے لوگ بزنس میں نمایاں ہیں۔
نریندر مودی بحیثیت ایک فرد کہا جاتا ہے کہ ٹھنڈے مزاج کےحا مل ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے دُنیا کے بیشتر ممالک کا دورہ کر کے بھارت کے امیج کو بہتر بنانے کی خاص کوششیں کی ہیں۔ وہ روس اور یوکرین کے مابین جنگ بند کرانے کی بھی کوششیں کر رہے ہیں، بعض بھارتی سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہنا ہے کہ ایک طرف روس ہے جبکہ یوکرین کی طرف امریکہ ،یورپی یونین ہے ایسے میں مودی کیوں بھڑ کے چھتے میں ہاتھ ڈال رہے ہیں۔ اس سے بھارت کو کیا حاصل ہوگا امریکہ مزید بھارت سے ناراض ہو جائے گا مگر نریندر مودی کی پالیسی کچھ ایسی ہی دکھائی دیتی ہے۔
مارک زکربرگ…
مارک 1985ء میں نیویارک میں پیدا ہوئے۔ ہاورڈ یونیورسٹی سے اعلیٰ سند حاصل کی اور پھر ملازمت کے بجائے چند احباب کے ساتھ کمپیوٹر پروگرامنگ کا سلسلہ شروع کیا ۔ سب سے پہلے فیس بُک دُنیا میں متعارف کرائی۔ کمپنی نے ساکھ بنائی اور انہوں نے کمپنی کے شیئرز فروخت کرنے شروع کر دیئے۔ چھ سال بعد مارک کا نام امریکہ کے بڑے کاروباری رسائل میں شائع ہونے لگا۔
فیس بُک، سوشل میڈیا کا ایک اہم ستون بن کر اُبھرا مگر بعض افراد نے فیس بُک کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ بلاشبہ فیس بُک بہت مقبول میڈیا لائن ہے۔ تاہم ترقّی یافتہ ممالک کے بیش تر بااثر افراد کے اس معاملہ میں بہت سے تحفظات ہیں مگر تمام معاملات کے باوجود مارک زکربرگ دُنیا کی طاقتور شخصیات کی اہم ترین فہرست میں شمار ہوتے ہیں۔
اہم تجارتی اداروں اور شماریاتی اداروں کے مطابق فیس بُک کے دُنیا میں اثاثوں کی لاگت پچاس ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔ اس وقت فیس بُک میں پانچ ہزار سے زائد ملازمین کام کر رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس پر دُنیا کی ساٹھ فیصد آبادی کے اکائونٹ موجود ہیں اور ان میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
لیری پیج …
لیری پیج 1973ء میں امریکہ کے ایک کاروباری خاندان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے انٹرنیٹ ایجاد کر کےاس کو دُنیا بھر میں پھیلا دیا۔ لیری معروف کمپنی گوگل کے سربراہ ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس دان ہیں اس لئے انٹرنیٹ کا سلسلہ شروع کیا۔ گوگل کو پروموٹ کرنے کے بعد لیری پچاسی ارب ڈالر کے مالک بن گئے۔
گوگل بنانے کا خیال انہیں یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتے وقت دوستوں سے بات چیت کے دوران آیا،بعدازاں اس آئیڈیے کو انہوں نے حقیقت میں تبدیل کر دیا۔ سرچ انجن تیار کر دکھایا۔ لیری پیج کے مطابق، انہیں بچپن میں کمپیوٹر سائنس میگزین اور سائنس فکشن سے لگائو تھا۔ ان کے بڑے بھائی کو بھی سائنس سے بہت دلچسپی تھی وہ بھی انہیں بہت کچھ بتایا کرتے تھے۔ انہوں نے مشی گن یونیورسٹی سے کمپیوٹر انجینئرنگ میں سند حاصل کی۔ بعدازاں اسٹین فورڈ یونیورسسٹی سےکمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔
جون 2000ء تک گوگل استعمال کرنے والوں کی تعداد ایک ارب تک پہنچ گئی۔ لیری پیج نے اپنے تمام ملازمین کو مطلع کیا کہ میرے اُصولوں کے مطابق کسی کو افسرشاہی دکھانے کی ضرورت نہیں، آئیڈیا بہت اہم ہوتا ہے۔ گزرے دس برسوں میں لیری نے گوگل کمپنی میں بعض بڑی تبدیلیاں کیں۔ ان کے نزدیک، اہم چیز سوال کرنا ہےاور ’’نہیں‘‘ کہنا جرأت کا کام ہے۔
اگر تم کسی کو کسی کام سے روک دو گے تو وہ دُوسرا راستہ اختیار کر لے گا۔ ’’نہیں‘‘ کہنے میں، منع کر دینے میں ایک جرأت ہے۔ دُنیا میں اکثر حکومتیں گوگل سے خائف ہیں۔ لیری کے نزدیک بات کرنے،تبادلہ خیالات کرنے،عوام کی بنیادی آزادی ہے، حکومت یا کسی ادارے کو عوام سے یہ حق چھیننےکا حق نہیں ہے۔
لیری نے ایک انٹرویو میں کہا، میرے ملازمین خوش اورخوشحال ہیں۔ اب میری خواہش ہے کہ میں مریخ پر جائوں اور وہاں انسانیت کو فروغ دوں۔
کم جونگ ان
شمالی کوریا کے صدر کم جونگ اِن کمیونسٹ پارٹی جو ورکرز پارٹی کہلاتی ہے،کے چیئرمین ہیں۔ 2011ء میں والد کے انتقال کے بعد برسراقتدار آئے ۔ان کے دادا کم ال سنگ اپنے دور کے معروف اور انقلابی رہنما تھے جو جنگ میں کوریا کے دو حصوں میں بٹوارہ کے بعد شمالی کوریا کے صدر بنے تھے۔
کم جونگ اِن کے لئے کہا جاتا ہے ،اُصول پسند، سخت گیر اور شدید مغرب مخالف رہنما ہیں۔ وہ اب تک ایک درجن کے قریب دور مار بیلسٹک میزائلوں کے کامیاب تجربات کر چکے ہیں جو شمالی بحر اوقیانوس اور بحرالکاہل میں گرتے ہیں،یہ علاقہ امریکہ کی سرحد کے قریب تر ہے۔ اب تک پانچ امریکی صدور شمالی کوریا آ کر مذاکرات کر چکے ہیں مگر مذاکرات کی میز پر کسی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکے۔ شمالی کوریا پر امریکہ کی طرف سے سخت اقتصادی اور سماجی سیاسی پابندیاں عائد ہیں مگر تاحال بیلسٹک میزائلوں کے تجربات کرنے سے باز نہیں رہے ہیں۔
کم جونگ اِن سب سے زیادہ توجہ فوج پر مرکوز کرتے ہیں۔ مسلح افراد میں ڈیڑھ لاکھ خواتین بھی شامل ہیں۔ ملک کے معاشی اور انتظامی حالات بہت مایوس کن بتائے جاتے ہیں۔ مغربی مبصرین کہتے ہیں اگر شمالی کوریا اپنی دفاعی پالیسی تبدیل کر لے تو وہ بھی جنوبی کوریا کی طرح ترقّی کر سکتا اور خوشحال ہو سکتا ہے۔ ہزاروں شمالی کوریا کے مزدور کاریگر چوری چھپے جنوبی کوریا میں جا کر محنت مزدوری کرتے ہیں کیونکہ شمالی کوریا میں پسماندگی اور بے روزگاری بہت زیادہ ہے۔کم جونگ اِن دفاعی اُمور کو فوقیت دیتے ہیں۔
رجب طیب اردگان …
ترکی کے صدر اورمرد آہن طیب اردگان طالب علمی کے دور میں اسلامی اسٹوڈنٹ یونین کے سرگرم رہنما رہے، اس حوالے سے وہ آج اسلامی دُنیا کا ایک عظیم رہنما مانے جاتے ہیں۔ وہ اسلامی جمہوری روایات کا فروغ چاہتے ہیں۔ طیب اردگان کا مستحکم ارادہ اورمشن ہے کہ ،سال 2023ء میں سلطنت عثمانیہ کے احیاء کی جدوجہد شروع کریں گے،تاہم وہ یورپی یونین میں شمولیت کی خواہش رکھتے ہیں مگر بعض یورپی ممالک ترکی کو یورپ کا حصہ تسلیم نہیں کرتے، اس وجہ سے ترکی کو یورپی یونین کی رُکنیت نہیں دی گئی۔
طیب اردگان سنجیدہ دُنیا کی سیاست پر نظر رکھنے والی شخصیت ہیں، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جو کہتے ہیں اس پر اَٹل رہتے ہیں۔ اسلامی دُنیا میں بعض رہنما حیران ہوتے ہیں کہ آئندہ برس وہ کس طرح سلطنت عثمانیہ کا احیاء چاہتے ہیں۔ صدر طیب اردگان کا مؤقف ہے کہ 1923ء میں یورپی قوتوں نے سلطنت عثمانیہ کو ایک سو سال کے لئے منتشر کرنے کا معاہدہ کیا تھا جو 2023ء میں ختم ہو رہا ہے۔ ترکی میں سابق کرد سلطنت کا ایک حصہ برطانیہ نے ترکی میں شامل کیا تھا۔ کردوں کو چار حصوں میں تقسیم کر کے انہیں عراق، شام، ترکی اور ایران میں شامل کیا تھا۔ ترک کردوں کے بھی خلاف ہیں۔
سال کی اہم شخصیت جاپان کے مقتول وزیرعظم، شینزوایبے
معروف جریدہ ٹائم میگزین نے سال 2022ء کی اہم شخصیت جاپان کے سابق مقتول وزیراعظم شنیزو ایبے کو قراردیا۔ شینزوایبے کو جولائی 2022ء میں ان کی انتخابی مہم کے دوران ایک جاپانی نوجوان نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
شینزو ایبے 1964ء میں ٹوکیو میں پیدا ہوئے تھے۔ وہاں کے مشنری اسکول اور یونیورسٹی سے سند حاصل کی۔ وہ نوجوانی سے جاپان کی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن رہے اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔ جاپان کے طویل المدت وزیراعظم کے طور پر بھی اپنی شہرت رکھتے تھے۔ پہلی بار سال 2006ء میں ایک سال اور سال 2015 تا 2022 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ انہوں نے جاپان کی تاریخ اور سیاسی حالات پرچند کتابیں اور مقالات بھی لکھے جو شائع ہوتے رہے ہیں۔
شینزو ایبے لبرل خیالات رکھتے تھے اورکلیسائوں کے اتحاد نامی تحریک کے حامی تھے جو 1940ء سے کلیسائوں کے اتحاد کی تحریک چلائی گئی تھی۔ ہر چند اس تحریک کا اب زور ٹوٹ چکا مگر قاتل کے بیان کے مطابق شینزو ایبے اس تحریک کے حامی تھے اور مسلک کا پرچار بھی کرتے تھے۔ اس لئے میں نے انہیں ہلاک کردیا۔ شینزو ایبے کے دور میں جاپان میں جمہوریت اور جاپان کے دوستوں کے ساتھ تعلقات بہت مثالی رہے ان کے جنازے میں دنیا کے بیش تر سربراہان، وزراء، سفارت کار بڑی تعداد میں شریک ہوئے ۔ جاپان نے ایک لائق محب وطن رہنما کھو دیا۔
سال کی بہترین شخصیت یوکرین کے صدر، ولادیمر زیلنکی
یوکرین کے صدر ولادیمرزیلنکی کوسال 2022 سال کی شخصیت قراردیا جارہاہے۔ زیلنکی جنوری 1978ء کویوکرین میں پیدا ہوئے۔ مئی 2019ء سے یوکرین کے صدر ہیں۔ ٹائم میگزین نے انہیں 2022 کی شخصیت یعنی پرسن آف دی ایئر قرار دیا ہے۔ 26 دسمبر کے ٹائم میگزین کے سرورق پر ان کی تصویر شائع کی ہے۔ روس نے یوکرین پر حملہ تب کیاجب زیلنکی نیٹو اور یورپی یونین سے اپنے ملک کی مشرقی سرحد پر نیٹو کے میزائل نصب کرنے کے لیے بڑی امداد لینے کے مسئلے پر مذاکرات کررہے تھے۔
روس یہ برداشت کرنے پر راضی نہ تھا کہ یوکرین کی مشرقی سرحد پر جوروس سے ملی ہوئی ہے وہاں نیٹو کے میزائل نصب کئے جائیں اس ضمن میں یوکرین نے روس سے مذاکرات بھی نہیں کئے اس پر روس نے یوکرین پر اچانک حملہ کردیا یہ جنگ چھ ماہ سے زائد عرصہ سے جاری ہے۔ روس نے یوکرین کے چار شہروں پر قبضہ ہے اور بندرگاہ کریما کا محاصرہ بھی کرلیا ہے۔ روس کے اس انتہائی اقدام کے سبب پانچ لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوگئے۔ یوکرین تباہ حال ہے دوسری طرف نیٹو ممالک اور امریکہ یوکرین کو بڑے پیمانے پر ہتھیار اور امداد دے رہے ہیں۔
صدر زیلنکی اپنی ضد پر روسی صدر پیوتن اپنی ضد پر ڈٹے ہوئے ہیں اس میں یوکرین کے بے قصور عوام پس رہے ہیں۔ مغربی ممالک کو ایک موقعہ ہاتھ آگیا ہے کہ روس اور نیٹو کی اس پروکسی وار کو مزید طول دیں اور روس کو یہاں مزہ چکھائیں ایسے میں روس کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اور روس ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دے رہا ہے۔ روسی صدر پیوتن قدرے ضدی رہنما ہیں اگر ایسا ہوا تو دنیا کو سخت خطرات کا سامنا کرناپڑے گا۔ زیلنکی سے عوام تباہ ہوں گے ۔