• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بڑے پیمانے پر بدعنوانی کے نتیجے میں پاکستان آج عملی طور پر معاشی دیوالیہ پن کی حالت میں پہنچ چکا ہے، اگرچہ سرکاری طور پر اس کا اعتراف نہیں کیا گیا ۔ بینکوں نے لیٹر آف کریڈٹ (Letter of Credit) کھولنا بند کر دئیے ہیں اور ملک بھر کی صنعتیں ٹھپ ہو رہی ہیں کیونکہ خام مال درآمد نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی بڑی وجہ نظام کی خرابی ہے جس میں افسر شاہی، سیاست دان اور ’’دوسرے‘‘ بدعنوان لوگ جی بھر کر ملک کو لوٹتے ہیں اور آزاد پھر تے ہیں کیونکہ ملک کا فرسودہ نظام ان لوگوں کے مقابلے میں بہت کمزور ہے۔پاکستان تین بڑےاہم مسائل سے دوچار ہے: ایک ناقص نظام تعلیم جس نے بڑے پیمانے پر ناخواندگی کو فروغ دیا، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کےڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے ۔ دوسرا مسئلہ انصاف کی عدم دستیابی ہے اور تیسرا جاگیردار سیاستدانوں کا ملکی سیاست اور نظام پر تسلط۔پاکستان کی ترقی کیلئے پہلی اور سب سے اہم ضرورت ایک ایماندار اور تکنیکی طور پر قابل قیادت ہے جو جدیدٹیکنالوجی پر مبنی مضبوط علمی معیشت کی ترقی کو سمجھتی ہو اور ترجیح دینے کی اہل ہو۔ صرف ایسی قیادت اور حکومت ہی تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی (Innovation) پر بھرپور توجہ دے سکتی ہےاور پاکستان کی راہ کو تبدیل کرکے علم پر مبنی معیشت کی طرف منتقل کر سکتی ہے۔

پاکستان نوجوانوں کی ایک بڑی آبادی سے مالا مال ہے۔ ہماری 225 ملین کی آبادی کا تقریباً 70فیصدنو جوانوں پر مشتمل ہے۔ انہی میں ہمارا مستقبل مضمر ہے ۔ ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور ملکی ترقی کی سمت درست کرنے کیلئے ہمیں کئی ایشیائی ممالک کی کامیابیوں کا جائزہ لینا ہوگا۔ سنگاپور کی مثال لے لیں ، یہ55لاکھ کی آبادی کا ایک چھوٹا سا ملک ہے جو انتہائی کم قدرتی وسائل سے آراستہ تھا لیکن بہترین قیادت نے اسے آج کن بلندیوں پر پہنچا دیا۔ 1959میں جب لی کوان یو کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا تو سنگاپور کی آبادی صرف 16 لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ انہوں نے بطور وزیر اعظم ماہر وزراء کی ٹیم پر مشتمل ایک قابل اور دیانتدار کابینہ تشکیل دی، تربیت یافتہ افرادی قوت کی دستیابی کو یقینی بنایا اور غیر ملکی سرمایہ کاروںکو راغب کرنے کیلئے بہترین انتظامی ڈھانچہ تیار کیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ کسی الف لیلیٰ کی کہانی سے کم نہیں ۔ سنگاپور کی ترقیاتی پالیسی نے درآمدی متبادل پالیسی کو تبدیل کر کے اعلیٰ ٹیکنالوجی (اعلیٰ و قیمتی ) اشیا کی تیاری اور برآمدکیلئے وقف کر دیا ۔ 1965 سے 1978کے 13سال کے مختصر عرصے میں صنعتی شعبے کی جی ڈی پی 1965 میں 14 فیصد سے بڑھ کر 1978 میں 24فیصد ہو گئی۔ اسی عرصے کے دوران معیشت کی اوسط شرح پیداوار 10فیصد سالانہ ہوگئی اور بے روزگاری کی شرح جو1965 میں 10 فیصد تھی، وہ مزید کم ہوکر 1978 میں 3.6 فیصد رہ گئی۔ اس کے بعد کے 8 سالہ عرصے( 1985 - 1978)میں اعلیٰ ٹیکنالوجی مصنوعات کی تیاری کے شعبے میں مزید تیزی آئی، جس کی مثال اس حقیقت سے ملتی ہے کہ ہنر مند ملازمین کی کل ملازمتیں 11 فیصد سے بڑھ کر22 فیصد یعنی دگنی ہو گئیں۔ اس کی عکاسی ملازمین کی تنخواہوں سےبھی ہوتی ہے جو 1979 میں اوسطاً18400ڈالر سے بڑھ کر 1985 میں 27000 ڈالر سالانہ تک پہنچ گئیں۔برقیات ، انجینئرنگ کے سامان اور پیٹرو کیمیکل صنعتوں پر خصوصی توجہ دی گئی۔ اس وقت سنگاپور میں تقریباً 3000 متعدد غیرملکی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ قومی ترقیاتی منصوبوں میں تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کو سب سے زیادہ ترجیح دی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1987 میں تحقیقی اشاعتیں 3361سے بڑھ کر 1997 میں11302 ہو گئیں۔ معروف جامعات ابھر کر سامنے آئیں ، جیسا کہ سنگاپور کی قومی جامعہ ، جو اب دنیا کی بہترین 20 جامعات میں شامل ہے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں سنگاپور کی جی ڈی پی 12 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2010میں 251ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ اب یہ تقریباً 400 ارب ڈالر ہے جبکہ 2021 میں سنگاپورکی فی کس آمدنی 72991ڈالر تک پہنچ گئی تھی جو کو ئی معمولی کامیابی نہیں،اس کے بالمقابل ترقی یافتہ ممالک مثلاًجرمنی میں یہ 50802ڈالر، برطانیہ میں47334ڈالر ہے اور امریکہ میں 61280ڈالر فی کس ہے ۔

بہت سے لوگ ماضی کی فوجی آمریتوں کاصدارتی جمہوریتوں سے مقابلہ کرتےہیں۔ پاکستان میں کبھی صدارتی نظام جمہوریت نہیں رہا کیونکہ اس نظام کے تحت صدر کا انتخاب براہ راست قومی انتخابات کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ فرانس، امریکہ اور 77دیگر ممالک میں صدارتی نظام کی جمہوریتیں موجود ہیں۔ صدارتی نظام جمہوریت کے دو اہم فوائد ہیں۔ پہلا یہ کہ اسکے تین اہم ستونوں کے کاموں میں مکمل شفافیت ہوتی ہے:قانون، انتظامیہ اور عدلیہ، پارلیمانی نظام میں، وزیر اعظم حکمران جماعت کا سربراہ ہوتا ہے اور پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ انتظامی امور کی بھی دیکھ بھال کرتا ہے جس کے نتیجے میں کاموں میں الجھاؤ پیدا ہوتا ہے۔ صدارتی نظام جمہوریت کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ صدر مملکت ملک کے سب سے قابل ماہرین کو وفاقی وزراء کے طور پر تعینات کر سکتاہے اور پارلیمنٹ کا کردار قوانین کی تشکیل اور نگرانی تک محدودہو جاتاہے۔ اسکے نتیجے میں ماہرین فاقی وزراء کے طور پر موجود ہوتے ہیں جو نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کی اہمیت اور علمی معیشت میں منتقلی کے راستے کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔

موجودہ پارلیمانی نظام میں منتخب ہونے کے خواہشمند افراد کو الیکشن کے عمل کیلئے 20کروڑ یا اس سے زیادہ پیسے خرچ کرنا پڑتے ہیں تاکہ پارلیمنٹ کا حصہ بن سکیں اور پھر اس سے کئی گنا زیادہ مال بدعنوانیوں کے ذریعے کمائیں۔ اس سے پارلیمنٹ کی تشکیل بدعنوانوں، امیروں اور طاقتوروں تک محدود ہو جاتی ہے اور ماہرین تعلیم، سائنسدانوں، انجینئروں، کسانوں اور دیگر ماہرین کو بالکل موقع نہیںملتا کہ وہ ملک کیلئے کچھ کر سکیں۔ اس طرح بدعنوان سیاستدان اور جاگیردار نسل در نسل حکمرانی پر قبضہ کر لیتے ہیں۔

صدارتی نظام جمہوریت کے تحت تکنیکی ماہرین پر مشتمل ٹیم حکومت وقت کی ضرورت ہے۔اس کے لئے پختہ ارادے کے ساتھ ساتھ قوم کاایک نکتہ پر یکجا ہونا بہت ضروری ہے۔یہی وقت ہے نظام میں بنیادی تبدیلی کا، ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔

تازہ ترین