روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن ایران میں درجنوں کھیلوں کے اسٹارز کو حکومت مخالف مظاہروں میں گرفتار کرکے لمبی جیلوں کی سزائوں کے علاوہ سزائے موت تک دی جانے لگی ہے، حکومت انہیں نشان عبرت بناکر پیش کررہی ہے، ایران میں حکومت کے جبر اور مذہب کے نام پر فسطائیت نافذ کرنے اور خواتین کی آزادی پر انتہائی غیر انسانی پابندیاں لگانے پر حکومت مخالف اٹھنے والے احتجاج اور مظاہروں کو کچلنے کیلئے ایرانی حکومت نے ظلم کی مثالیں قائم کرنا شروع کردی ہیں ، یہ احتجاج چند ماہ پہلے اخلاقیات پولیس کے ظلم کا شکار ہونے والی صحافی مہیسہ امینی کی شہادت کے بعد اٹھے ہیں جو اب انسانی حقوق کی آزای کی تحریک بن چکے ہیں، ایران کے مرد اور خواتین اکثریت سے ان مظاہروں اور احتجاج کو سپورٹ کررہے ہیں بلکہ حکومتی ظلم کے آگے ڈٹ کر کھڑے ہوکر جانوں کے نذرانے بھی دے رہے ہیں، اب تک520احتجاجی جام شہادت نوش کرچکے ہیں، ایمنسٹی انٹر نیشنل کی یوکے میں مقیم ایرانی ورکر کے مطابق ایرانی انتہا پسند اور مذہبی جنونی حکومت کا کھلاڑیوں پر حملہ کوئی اچھنبے کی بات اس لیے نہیں ہے کیونکہ اس قسم کے دیوانگی میں مبتلا حکمرانوں سے ایسی ہی توقع کی جاسکتی ہے جو اپنے حقوق اور آزادی کی آواز اٹھانے والوں کو گولیوں سے بھون رہی ہے یا تختہ دار پر لٹکا رہی ہے، خصوصی طور پر اسپورٹس اسٹارز کو جو ان مظاہرین کی حمایت میں آواز اٹھاتے ہیں انہیں کڑی سزائیں دی جارہی ہیں جس کا مقصد دھاک بٹھانا ہے، حال ہی میں چند روز قبل محمد مہدی کرامی کو اسی جرم میں سزائے موت دے کر عمل درآمد کردیا گیا جوکہ کراٹے کا چیمپئن تھے،اس کے ہمراہ نامور فٹ بالر عامر نصر آزازی کو اسی حمایت کی پاداش میں 16سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ ہیومن رائٹس ورکرز کے مطابق گزشتہ چند سال میں مظاہروں کے دوران ایران میں36 کھلاڑیوں کو گرفتار کیا گیا، وہ ان مظاہرین کے سپورٹر یا شریک تھے جن گرفتار مظاہرین کو سزا دی ہے انہیں نہ تو دفاع کا موقع دیا جاتا ہے نہ ہی انصاف کے دیگر تقاضے پورے کئے جاتے ہیں، خاندان کو ڈرا دھمکاکے خاموش رہنے کا حکم دیا جاتا ہے، اس لیے وہاں گمشدہ افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، ان میں سیکڑوں کو گمشدگی کے دوران ہی جان سے مار دیا گیا ہے یا پھر کہیں قید کوٹھڑیوں میں ڈال کر رکھا گیا ہے، اسی طرح ایک کوہ پیما مرجان جنگجائو دو ماہ سے لاپتہ ہے، ایران کی ایک نامور شطرنج کھلاڑی سارہ خادم کو شطرنج کے ایک مقابلے میں بغیر اسکارف کے حصہ لینے پر اس کے گھر چھاپے مارے گئے جس کی وجہ سے اسے خاندان والوں نے ایران واپس آنے سے روک دیا، اب وہ اسپین میں ہی پناہ پر ٹھہر گئی ہے، اب صورت حال یہ ہے کہ ایران میں مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے مابین کئی جگہوں پر براہ راست مقابلے اور اسلحے کا کھلا استعمال شروع ہوچکا ہے، دونوں ایک دوسرے کے نشانے پر آمنے سامنے آکھڑے ہیں، تاحال ریاستی ادارے مظاہروں کو سختی سے کچلنے کا اعلان کررہے ہیں، عام لوگوں کا خیال ہے کہ ایران اس حالت جنگ میں پُرتشدد انقلاب کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے اور ملائیت کو خیرباد کہنے جارہا ہے، یاد رہے1979ء کے انقلاب ایران کے بعد جس کی قیادت خود آیت اللہ خمینی کررہے تھے، اب 45 برس بعد ایران پھر سے مختلف انقلابی صورت حال سے دوچار ہے، اس بار انقلاب کی قیادت کسی ملاں کے ہاتھ میں نہیں ہے، بلکہ ملائیت اور لبرل ازم آمنے سامنے ہیں، ملائیت جس طرح عورت کے بارے میں تنگ نظری کے دفاع میں بندوق اٹھائے ہوئے ہے، آزادی کی متوالی عوام اسے مسترد کرنے اور ایران سے نکال باہر کرنے کی ٹھانے بیٹھےہیں،ساتھ ہی ساتھ ایران کی معاشی حالت بھی بے حد ابتر ہوچکی ہے، افراط زر48فیصد تک جا پہنچا ہے، انڈے، گوشت تعیش بن چکے ہیں جس کی بڑی وجہ اس سیاسی عدم استحکام کے ساتھبد عنوانی ہے، 2018ء میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران پر جو پابندیاں عائد کی گئی تھیں اس کے بعد ایران کو اپنے تیل کے گاہگ تلاش کرنے میں خاصی مشکل کا سامنا ہے، تیل ایرانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتا ہے، اس سب کچھ کے باوجود ایرانی ملا اس سیاسی ابھار کو کنٹرول میں لانےکیلئے کسی قسم کی نرمی کرنے کو تیار نہیں جب کہ عام عوام میں اس وقت ایک ہی بحث ہے کہ موجودہ حکومت کو برطرف کرکے جمہوری حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ ابھی ایرانی عوام کا راستہ طویل اور منزل دور ہے۔