مولانا نعمان نعیم
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ سرکارِ دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’مجھ پر جس شخص نے اپنی دوستی اور مال سے سب سے زیادہ احسان کیے ہیں، وہ ابو بکرؓ ہیں، اگر میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو خلیل بناتا تو ابوبکرؓ کو بناتا‘‘۔ سرکارِ دو عالم ﷺ نے آپ کو امام ہونے کا حکم فرمایا اور باقی تمام مقتدی تھے۔
جب اسلام کا آفتاب طلوع ہوا، حضرت ابوبکرؓ بغرض تجارت یمن کے سفر پر تھے، واپس لوٹے ہی تھے کہ اہل مکہ نےآپ کے گرد گھیرا ڈال دیا اور کہا کہ محمد بن عبداللہ نے دعویٰ کیاہے کہ وہ اللہ کے پیغمبر ہیں، اور ان پر حضرت جبرائیل ؑوحی لے کر آتے ہیں، اس لیے لوگ بے چینی سے آپ کا انتظار کررہے ہیں، اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
حضرت ابوبکر ؓ، رسول اللہﷺ کے جاں نثار، تجارتی سفروں کے رفیق اور آپ کی پاکیزہ سیرت واخلاق کے عینی شاہد تھے، اپنی ایمانی بصیرت ،دور اندیشی، ومعاملہ فہمی اور اصابت رائے کی قوت سے حقیقت تک پہنچ گئے، درِ رسالت پر پہنچے، وحی و نبوت سے متعلق آپ ﷺکی زبان سے سنا اور حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔
بعض روایتوں میں یہ بھی آتا ہے کہ نبوت ملنے کے بعد حضورﷺ آپ کے گھر تشریف لے گئے، اور اسلام کی دعوت پیش کی، جسےحضرت ابوبکر ؓنے بلا چوں و چرا قبول کرلیا، اسی لیے حضور اکرمﷺ فرمایا کرتے: میں نےجس پر بھی اسلام پیش کیا، اس میں کچھ نہ کچھ تردّد کا اظہار ضرور پایا، سوائے ابوبکر ؓ کے ،انہوں نے بلاچوں وچرا اسلام قبول کرلیا۔
آپ نےابتدا سے انتہا تک ایسی ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا کہ کبھی تو صدیقیت کے خطاب سے نوازاگیا، تو کبھی عتیق من النار کا اعزاز بخشا گیا۔ امام ترمذی نے حضرت عائشہؓ سے ایک روایت نقل کی ہے، جس میں حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک روز حضرت ابوبکرؓ، حضورﷺ کے پاس آئے، تو حضور ﷺنے فرمایا: تم اللہ کی جانب سے جہنم کی آگ سے آزاد ہو، چناںچہ اسی دن سے آپ کا نام عتیق پڑگیا۔ واقعۂ معراج کی اطلاع جب قریش مکہ کو ہوئی تو وہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس پہنچے۔
حضرت ابوبکرؓ نے صرف اتنا معلوم کیا کہ کیا واقعی آپﷺ نے یہی بات کہی ہے ،تو سب نے بیک زبان کہا کہ ہاں، تو حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ اگر محمد ﷺ یہ کہتے ہیں تو بالکل سچ کہتے ہیں، جب رسول اللہﷺ کو یہ معلوم ہوا تو زبانِ رسالت سے آپ کےلیے صدیق کا لقب عطا فرمایا۔ اس کے بعدآپ نے اپنی زندگی کا اصل مشن ہی تبلیغ اسلام کو بنالیا، خواہ اس سلسلے میں کتنا ہی ستایاجاتا، لیکن آپ تھے کہ اسلام کی تبلیغ کے لیے ہر قربانی پیش کررہے تھے۔
ایک مرتبہ حضور ﷺ بیت اللہ میں نماز پڑھ رہے تھے، اتنے میں عقبہ بن ابی معیط آگیا اور آپﷺ کی گردن مبارک میں چادر کا گھیراڈال کر بل دینے لگا، حضرت ابوبکرؓ کو جب معلوم ہوا تو دوڑے ہوئےآئے، عقبہ کو پکڑ کر دھکا دیا،اور کہا کہ لوگو! کیا تم انہیں اس لیے قتل کرنا چاہتے ہو کہ یہ فرماتے ہیں کہ اللہ ایک ہے۔(بخاری: ۱/۵۲۰)
ایک اور موقع پر حضرت ابوبکرؓ نے صحن حرم میں جہاں قریش کا مجمع تھا،ا علانیہ تبلیغ شروع کی، مشرکینِ مکہ نے حضرت ابوبکرؓ کو پکڑ لیا، اور بے تحاشا مارنا شروع کیا، جب قبیلہ تیم کو معلوم ہوا تو آکر چھڑایا، گھر لے گئے، جب ہوش آیا تو سب سے پہلے حضورﷺ کی خیریت معلوم کی، اور اس وقت تک چین نہیں آیا، جب تک کہ خود آکر حضور ﷺ سے دار ارقم میں ملاقات نہ کرلی۔(البدایہ والنہایہ:۳/۳۰)
آپ کی کوششیں رائیگاں نہیں گئیں، رفتہ رفتہ اسلام پھیلنے لگا، اورایسے لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہونے لگے جو بعد میں چل کر ستون اسلام ثابت ہوئے، ان سب میں آپ کی بے لوث تبلیغ کا اثر تھا، ان سعید روحوں میں جنہوں نے آپ کی وجہ سے اسلام قبول کیا، ان میں ممتاز حضرات یہ ہیں:(۱) خلیفۂ ثالث حضرت عثمان غنیؓ (۲) حضرت عمر ؓ کے بعد حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ (۳) حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ (۴) حضرت زبیر بن عوامؓ (۵) فاتح قادسیہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ (۶) فاتح شام حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ۔(تاریخ طبری: ۲/۴۷۶، البدایہ والنہایہ:۳/۳۰)یہ سارے حضرات عشرۂ مبشرہؓ میں سے ہیں۔ یہ حضرات ،حضرت ابوبکر ؓ کی شبانہ روز محنت کے نتیجے میں اسلام لائے۔روایتوں میں آتاہے کہ قبول اسلام کے وقت حضرت ابوبکرؓ چالیس ہزار درہم کے مالک تھے، یہ تمام درہم آپ نے اسلام کی راہ میں خرچ کیے۔
دس نبوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اورجناب ابوطالب کے انتقال کی وجہ سے ”عام الحزن“ کے نام سے تاریخ کی کتابوں میں جانا جاتا ہے۔ پھر مزید طائف کے سفر میں ناروا سلوک کیاگیا۔ آخر کار حضور اکرمﷺ کو ہجرت کا حکم مل گیا، اس دوران غارِ ثور میں قیام فرمایا، حضرت ابوبکرؓ غار کے دہانے پر پہنچے، رسول اللہﷺ کو تھوڑی دیر کے لیے وہیں روک دیا، خود اندر تشریف لے گئے، غار کو خوب اچھی طرح صاف کیا، کچھ سوراخ تھے، جس سے زہریلے جانوروغیرہ کا خطرہ تھا، انہیں اپنی چادر پھاڑ کر بند کیا، پھر حضورﷺ اندر تشریف لے گئے۔
آپﷺ زانوئے صدیقی پر سر رکھ کر سوگئے۔ اتنے میں ایک سوراخ نظر آیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنا انگوٹھا اس پر رکھ دیا، ایک روایت کے مطابق کسی زہریلے سانپ نے آپ کو ڈس لیا، تکلیف کی شدت بڑھتی جارہی تھی، لیکن اس وقت سب سے عظیم ہستی آپ کے زانوپر سررکھے ہوئی تھی، آپ نے تمام تر تکلیف کے باوجود حرکت بھی نہ کی، آخر درد کی شدت سے آنسو بہہ نکلے اور آپﷺ کے رخ انور پر اس کے بعض حصے گرے، جس سے آ پ ﷺکی آنکھ کھل گئی، حضرت ابوبکرؓ کو آبدیدہ دیکھ کر وجہ دریافت کی۔ حضرت ابوبکرؓ نے ساری تفصیل بتائی، تو حضورﷺ نے اپنا لعاب دہن سانپ کے ڈسے ہوئے مقام پر لگادیا، جس سے تکلیف جاتی رہی۔
ایک مرتبہ کفار غار ثور کے دہانے تک آگئے، آپ نے اس تشویش کا اظہار حضورﷺ سے کیا، آپﷺ نے فرمایا ، ابوبکر: ’’لاتحزن انّ اللہ معنا‘‘ غم کی حاجت نہیں ہے، اللہ کی معیت ہمارے لیے کافی ہے۔ یہ سننا تھا کہ حضرت ابوبکرؓ پر گویا سکینت نازل ہوگئی۔ قرآن پاک نے اس واقعے کو ”ثانی اثنین“ کے لفظ سے ذکر کیاہے، اس طرح حضرت ابوبکر ؓکو دو میں کا دوسرا کہہ کر جاودانی عظمت و شرف سے سرفراز کیا گیا۔ اس آیت کو شب و روز کے مختلف لمحات میں کروڑوں مسلمان تلاوت کرتے ہیں، اور وہیں پر’’ انّ اللہ معنا‘‘ کا حوالہ بھی پڑھتے ہیں۔ غارثور کے اس واقعے، اور رفاقت و جذبہٴ جاں نثاری کو ”یارِغار“ کے لقب سے جانا جاتا ہے، جس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ انتہائی جاں نثار اور مشکل وقت میں کام آنے والا رفیق۔
آپ حضوراکرمﷺ کے ہم دم و جاں نثار رہے، اور حضورﷺ کی توجہ جن اہم مسائل پر ہوتی، ان میں آپ برابر شریک رہے، بلکہ آپ ہی معتمد خاص اور وزیر خاص تھے، ترمذی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ، میرے دو وزیر آسمان والوں میں سے ہیں اور وہ جبرائیلؑ و میکائیلؑ ہیں اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہیں اور وہ ابوبکرؓ وعمرؓ ہیں۔
مختلف معرکوں میں آپ دشمن کے خلاف صف آرا رہے،اور جرأت وشجاعت کی تاریخ رقم کی ۔اللہ پاک نے غزوئہ بدر کے ذریعے اسلام کو وہ عظمت وشوکت دی کہ پھر کفر سر نہ اٹھا سکا۔ اس غزوے میں بے جگری سے صحابہؓ کی قلیل تعداد نے جنگ لڑی ، اسیران قریش کی تعداد ۷۰ تھی۔ آخرمیں حضرت ابوبکرؓ کے مشورے پر فیصلہ ہوا کہ جو پڑھنا لکھنا جانتے ہیں، وہ دس ناخواندہ مسلمانوں کو تعلیم دے کر رہا ہوسکتے ہیں، اور جو خود ناخواندہ ہیں ،وہ فدیہ دے کر رہائی حاصل کریں۔(البدایہ والنہایہ:۳/۲۹۷)غزوئہ اُحد وحنین میں ظاہری طور پر مسلمانوں کو اپنی غلطی یا عجلت پسندی کی وجہ سے وقتی ہزیمت ہوئی، ان دونوں معرکوں میں ہم حضرت ابوبکرؓ کو اس طرح پاتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ذات مقدس سے چمٹے ہوئے ہیں کہ مبادا کفار کی یلغار سے رسول خدا ﷺکو زک نہ پہنچے۔
حج فرض ہوا تو حضور ﷺنے امیر حج کے لیے حضرت ابوبکرصدیق ؓ کا انتخاب کیا اورآپ کو امیر حج بناکر مکہ روانہ کیا۔ مسلمانوں نے آپ کی امارت میں آزادانہ طور پر مناسک حج ادا کیے۔ دس ہجری میں اعلان عام ہوا کہ رسول اللہ ﷺ بنفس نفیس حج کے لیے تشریف لے جارہے ہیں، اس تاریخ ساز موقع پر ایک لاکھ سے زائدصحابہ ؓ کا مجمع مکہ میں جمع ہوا۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ آخری حج تھا، اس لیے اسےحجۃ الوداع کہا جاتا ہے۔
حضورﷺ نے اس موقع پر کئی وقیع خطبے دیے، جن میں دین کے تمام اہم اصولوں کو واضح طور پر بیان کیا، اس دوران آیت’’ الیوم اَکْمَلْتُ لکم دینکُم واتممتُ علیکُم نعمتی ورضیتُ لکُم الاسلام دیناً، نازل ہوئی ،حضورﷺ نے لوگوں کو اس آیت کی خوش خبری سنائی، سب خوش تھے، لیکن حضرت ابوبکرؓ رو رہے تھے، صحابہؓ کو تعجب تھا کہ یہ تو ایسا موقع نہیں، لیکن آپ صدیقیت کے مقام پر فائز تھے۔
سمجھ رہے تھے کہ دین کی تکمیل کے بعد اب رسول ﷺ کے اس دار فانی سے رخصت کا وقت آپہنچا ہے۔ اب اللہ آپﷺ کو اپنے پاس بلانے والا ہے۔جب دین کی تکمیل ہوگئی، تو نبی اکرمﷺ کا فریضۂ نبوت گویا پورا ہوچکا ہے،کچھ اشارہ غیبی سے بھی اس طرف متنبہ کردیا گیا، اس لیے آپﷺ نے بھی ساری تیاریاں مکمل کرلیں، سفر حج سے واپسی پر طبیعت ناساز ہوگئی، ابتدائی دنوں میں آپﷺ خود تشریف لاتے اور نماز پڑھاتے، لیکن جب نقاہت زیادہ ہوگئی، تو حضرت ابوبکرؓ کو حکم دیا کہ وہ نماز پڑھائیں، ہر چند کہ حضرت ابوبکرؓرقیق القلب تھے،آپ کے لیے رسول اللہﷺ کی موجودگی میں امامت کے لیے کھڑا ہونا دشوار تھا، لیکن رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ ابوبکرؓ نماز پڑھائیں، اس طرح آپ ﷺکی حیات طیبہ میں ہی رحلت سے قبل نمازوں کی امامت حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمائی۔
حضوراکرمﷺ نے دوران مرض ایک روز افاقہ محسوس کیا تو مسجد تشریف لائے، اور منبر پر تشریف رکھ کر فرمانے لگے کہ اللہ پاک نے ایک بندے کو اختیار دیا کہ وہ چاہے تو دنیا کو اختیار کرے یا پھر آخرت کو ترجیح دے، چناںچہ اس بندئہ خدانے آخرت کو ترجیح دی۔ یہ سن کر مجمع میں سے حضرت ابوبکر ؓکی آنکھوں سے زاروقطار آنسو بہنے لگے، حضورﷺ نے فرمایا: ابوبکر! صبر سے کام لو، پھر فرمایا : سب دریچے بند کردئیے جائیں، صرف ابوبکرؓ کا دریچہ کھلا رہے، پھر حضرت ابوبکرؓ کے احسانات حضور ﷺنے گنوائے۔ جن سے آپ کی عظمت و صداقت اور بلندمقام کا پتا چلتا ہے۔