• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

بادامی باغ ریلوے اسٹیشن کبھی بہت آباد تھا یہاں بے شمار ریل گاڑیوں کی آمدورفت تھی یہ تاریخی ریلوے اسٹیشن آپ کو کبھی آج سے پچاس،ساٹھ برس قبل دور سے نظر آ جاتا تھا، یہیں پر لاری اڈہ بھی ہے پھر آہستہ آہستہ اس تاریخی اسٹیشن پر جب ٹرینوں کی آمدورفت کم ہوئی تو لوگوں نے اس کی اربوں روپے کی زمین پر قبضہ کرنا شروع کر دیااور یہ ریلوے اسٹیشن اب سمٹ کر بس ایک تاریخی عمارت تک محدود رہ گیا ہے اگرچہ اس اسٹیشن پر نصب پرانے آلات آج بھی کام کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ جدید مشینری بھی لگائی گئی ہے، ٹکٹ گھر ویران ہو چکا ہے، اب یہاں سے کوئی ٹکٹ نہیں خریدتا اور مسافر ٹرین بھی کوئی نہیں رکتی ۔ہم نے کبھی اس ریلوے اسٹیشن کی بہت سیر کی ہے کتنا خوبصورت ریلوے اسٹیشن تھا جیسے ولایت کے کسی ہل اسٹیشن یا گائوں کا خوبصورت ریلوے اسٹیشن ہو یقین کریں آج اس ریلوے اسٹیشن کو بہت تلاش کرکے جانا پڑتا ہے ۔

ریلوے اسٹیشن کے باہر مختلف دکانداروں اور کاروبار کرنے والوں نے قبضہ کر لیا ہے اس کے کین روم پر بھی لوگوں نے قبضہ کر لیا ہے آج بھی اس اسٹیشن پر بتی روم اور گودام کا کمرہ موجود ہے کاٹنا تبدیل کرنے والا کمرہ کین روم کب کا ٹوٹ چکا ہے ہمیں یاد ہے کہ جب ہم کبھی منٹو پارک سیر کرنے جاتے تھے اور مینار پاکستان بھی ابھی تعمیر نہیں ہوا تھا تو بادامی باغ ریلوے اسٹیشن اور یہاں سے گزرنے والی گاڑیاں نظر آیا کرتی تھیں کبھی جوانی میں ہم یہاں پہلوانوں کے اکھاڑے میں باقاعدگی کے ساتھ بیڈمنٹن کھیلا کرتے تھے اور دوسری طرف پہلوان کشتیاں اور کسرت کر رہے ہوتے تھے ،یہ چار دیواری میں ایک احاطہ تھا ذرا پرے ایک بٹ صاحب اپنے HUTمیں رہتے تھے وہیں انہوں نے اپنا باڈی بلڈنگ یعنی تن سازی کا کلب بنایا ہواتھا پتہ نہیں بٹ صاحب کا کوئی گھر بار تھا یا نہیں کیونکہ وہ وہیں دن رات رہتے تھے خود ہی کچھ پکا کر کھا لیتےتھے کچھ عرصہ ہم نے بھی وہاں پر تن سازی کی تھی۔ منٹو پارک کے ایک طرف پتنگ باز پیچ لڑا رہے ہوتےتھے، کیا خوبصورت زمانہ تھا قریب ہی ایک سرکاری تیراکی کا تالاب تھا جس کا پانی ہم نے کبھی نیلا،گرین نہیں دیکھا تھا بلکہ میلا پانی ہوتا تھا۔ پورے گرائونڈ میںبچے اور نوجوان کہیں کرکٹ، کہیں فٹ بال اور کہیں ہاکی وغیرہ کھیل رہے ہوتے تھے دوسری طرف بادامی باغ اسٹیشن خصوصاً جب اسٹیم انجن دھواں چھوڑتا ہوا گزرتا تھا کیا خوبصورت سماں ہوتا تھا ہم تو کئی لمحے تک اس خوبصورت منظر میں کھوئے رہتے تھے ۔

اس لاہور کے حسن،ثقافت اور تہذیب کو تو ہمارے سیاست دانوں، قبضہ مافیا،بیوروکریسی ، پلازہ مافیا اور لاہور سے باہر آنے والوں نے تباہ وبرباد کر دیا ہے، اب سننے میں آیا ہے کہ لاہور کے سارے گرین ایریا کو برائون ایریاکرنے کی اجازت حاکمان وقت نےدے دی ہےچنانچہ رہی سہی کسر اب پوری ہو جائے گی۔ بادامی باغ، منٹو پارک، بڈھا راوی دریا، سرگنگا رام کی سمادھی والی جگہ راوی روڈ سے دریائے راوی کے کنارے تک بہت ہریالی تھی۔ عزیز قارئین ہم آپ کو سچ بتاتے ہیں کہ راوی کے کنارے ہم نے جنگل اور گیدڑوں کو دیکھا ہے اب بھی ہم برکی نہر کے پاس رہتے ہیں وہاں رات کو گیدڑوں کی آوازیں آتی ہیں اور کچھ عرصہ قبل ہم نے خود ڈی ایچ اے فیز 7میں کانٹوں والی سیہ،کچھوے ،نیولے اور سانپ بے شمار دیکھے ہیں۔ نیولے تو آج بھی ادھر ادھر پھرتے ہیں ایک وقت آئے گا کہ لاہور میں کوئی جنگلی حیات ،آبی حیات اور پرندے تک نظر نہیں آئیں گے، یہ بے حس لوگوں کا اینٹ پتھر اور اونچے پلازوں کا ایک ایسا شہر ہو گا جس کی خوبصورتی اور باغات کے تذکرے قصۂ پارینہ بن جائیں گے۔

بادامی باغ کو دو وجوہات کی بنا پر بادامی باغ کہا جاتا ہے۔ رنجیت سنگھ نے اپنے دور حکومت میں اس باغ کو آباد کیا تھا جو سر حاکمان نے تباہ وبرباد کر دیا تھا یہاں پر نارنگی، امرود،سنگترہ، چکوترہ، ناشپاتی، جامن، آم، آڑو کے علاوہ باداموں کے بے شمار درخت لگوائے تھے، دوسری وجہ یہ ہے کہ شاید مزار مستی دروازہ ،خضری دروازہ موجودہ نام شیرانوالہ دروازہ کے درمیان مقبرہ گل بادام کا تھا جو سر حاکمان لاہور نے اجاڑ دیا۔بہرحال ہمیں اس بحث میں نہیں پڑنا اس علاقے کی وجہ تسمیہ کوئی بھی ہو بادامی باغ کا علاقہ کبھی بڑا سرسبز، کھلا اور خوبصورت تھا اس جگہ پر گوروں نے لاہور کا پہلا واٹر پمپنگ اسٹیشن نصب کیا تھا جو آج کل تباہ حال ہے اس پر پھر بات کریں گے۔پچھلے ہفتے ہم نے اپنے کالم میں ڈاک خانے کے حوالے سے کچھ ذکر کیا تھا جب دوسرے ممالک سے لاہور کے اس پہلے ڈاکخانے میں خطوط،پارسل آتے تو پوسٹ آفس کی چھت پر نصب گھنٹہ بجایا جاتا تھا اور اس کی آواز پورے لاہور میں سنی جاتی تھی کتنی خوبصورت روایات کا شہر تھا پوسٹ آفس کا یہ گھنٹہ ہفتے میں دو بار بجایا جاتا تھا پہلی مرتبہ جب ڈاک دوسرے ممالک سے آتی تھی اور دوسری مرتبہ بیرون ممالک ڈاک روانہ کرنےسے ایک گھنٹہ پہلے بجایا جاتا تاکہ لوگ اپنے خطوط اور پارسل وغیرہ لے کر پہنچ جائیں۔ اس زمانے میں زیادہ تر خطوط،پارسل ولایت سے آتے تھے اور ولایت ہی بھیجے جاتے تھے، دوسرے ممالک کی ڈاک کم ہوتی تھی البتہ اندرون برصغیر خط، پوسٹ کارڈ ،منی آرڈر اور پارسل بہت بھیجے جاتے تھے ٹیلی فون تو کسی کسی کے گھر ہوتا تھا لاہور ہی کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ یہاں سے ایک خاتون پائلٹ ہوائی جہاز پر لاہور سے کراچی ڈاک لے کر جاتی تھی اور یہ ہوائی جہاز والٹن ایئر پورٹ سے اڑان بھرا کرتا تھا بڑی بہادر خاتون تھی جس نے ہوائی جہاز اڑانے کی باقاعدہ تربیت حاصل کی تھی اور اکیلی لاہور سے کراچی قیام پاکستان سے قبل ڈاک لے کر جایا کرتی تھی اس کی بھی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ (جاری ہے )

تازہ ترین