• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت سے مشروط مذاکرات کی پیشکش خوش آئند ہے، نذیر گیلانی

لندن ( پ ر)لندن میں قائم جموں و کشمیر کونسل برائے انسانی حقوق(جے کے سی ایچ آر) کے صدر ڈاکٹرسید نذیر گیلانی نے وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے بھارتی ہم منصب کو تنازع کشمیر کے حل سے متعلق مذاکرات کی پیش کش پر آزاد جموںو کشمیر کے سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کے تحفظات کی حمایت کرتے ہوئے کہاہے کہ مشروط مذاکرات کی پیشکش خوش آئند ہے۔ تاہم انہوں نے اپنے ردعمل میں پاکستان کی کشمیر پالیسی اور اقوام متحدہ میں اس کے کردار کی نگرانی کاان کا تجربہ بہت مایوس کن رہاہے۔سید نذیر گیلانی نے کہاکہ پاکستان نے 15جنوری 1948کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی ایک دستاویز میں دلیل دی تھی کہ ’’ریاست جموں وکشمیر کا ہندوستان سے الحاق کشمیریوں کی موت کے وارنٹ پر دستخطوں کے مترادف ہوگا‘‘،جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں اور پاکستان کے ساتھ کشمیریوں کا تعلق دستور پاکستان کی دفعہ 257کے مطابق مذاکرات کا نتیجہ ہیں۔ 5اگست 2019 کوبھارت کی طرف سے کئے گئے غیر قانونی اقدامات کے خلاف کوئی مناسب کارروائی کرنے میں پاکستان کی ناکامی نے بہت سے خدشات کو جنم دیا ہے۔ یہ عدم دلچسپی کشمیری حلقوں میں زیر بحث ہے اور اس پر پاکستان کا بڑا حصہ پریشان ہے۔سید نذیر گیلانی نے واضح کیاکہ وادی کشمیر میں کشمیریوں کی ایک نسل کا قتل خفیہ رابطوں کا شاخسانہ ہے کہ بھارت کو 5اگست 2019کے غیر قانونی اقدام کی جرات ہوئی۔انہوں نے کہاکہ ہم بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے جو لوگ کشمیر پر بھارت کے ساتھ کشمیر پر بات کرتے ہیں انہیں کشمیر سے متعلق معلومات حاصل نہیں اوروہ کشمیر کیس کے قانونی پہلووں کو سمجھنے سے عاری ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ کو بتایاجائے کہ جموں و کشمیر کے عوام کی وکالت کرنے کی پاکستان کی صلاحیت پر کشمیری عوام کے اعتماد کی ایک حد ہے اور ہم مزید ناکامیوں یا "بددیانتی "کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ڈاکٹر گیلانی نے کہاکہ گزشتہ سال5اکتوبر کو ہندوستانی وزیر داخلہ امیت شاہ نے جموں و کشمیر کے عوام کو دوبارہ براہ راست بات چیت کی پیشکش کی تھی۔ ہمیں ہندوستان سے بات کرنے کا حق حاصل ہے اور ہم بھارت سے بات کرنے کیلئے تنازع کشمیر کے پیچیدہ اور قانونی پہلووں سے متعلق دفتر خارجہ اور اسٹیبلشمنٹ کے کسی بھی افسر سے کہیں زیادہ باصلاحیت اور معتبر ہیں۔

یورپ سے سے مزید