رابطہ۔۔۔ مریم فیصل جب قانون بنانے والے ہی قانون کی پاسداری نہ کریں تب ملک کا آوے کا آوہ بگڑے گا ہی،کیا یہ مثال ہم ترقی یافتہ ملک پر بھی لاگو کر سکتے ہیں جہاں نظام چلتا ہی اس اہم نکتے پر ہو کہ سب سے پہلے قانون بنانے والا قانون پر سختی سے عمل پیرا ہوتبھی تو وہ عام عوام سے بھی قانون پر عمل کروا سکے گا ، کر تو سکتے ہیں لیکن یہ ذہین میں رکھ کر کہ ترقی یافتہ ملک میں ایسی بری مثالیں خال خال ہی بنتی ہیں لیکن برطانیہ میں ایسی مثالیں پچھلے کچھ وقت سے ذرا جلدی جلدی بن رہی ہیں، وہ بھی حکمراں جماعت ٹوری پارٹی کے دور میں، پہلے بورس جانسن نے قانون کی پروا نہ کرنے کی نئی مثالیں قائم کیں اور خاص طور پر کورونا وبا کے دور میں پارٹیاں کر کے غضب ہی ڈھا دیا تھا جو نہ ہی برطانوی عوام کو بھایا اور اپوزیشن کو تو ذرا گوارہ نہ ہوا کہ ملک کا وزیر اعظم قانون کے خلاف جائے اور اسے پھر بھی اقتدار کی کرسی پر بیٹھے رہنے دیا جائے، اس لئے بورس جانسن رخصت ہوگئے تو ثابت یہ ہوا کہ قانون کی خلاف ورزی کرناکم سے کم ترقی یافتہ ممالک میں تو نہیں چل سکتا لیکن بات یہ ہے کہ قانون بنانے والے ہوتے تو انسان ہی ہیں اور غلطی کرنا آخر انسانوں کا ہی شیوا ہے ۔انسان ہے تو غلطی بھی ہوگی اسی لئے یہاں بھی کچھ انسانوں سے جو بڑے عوامی عہدوں پر فائز ہیں ،غلطیاں ہوئے جارہی ہیں اور اس فہرست میں ایک اور نام شامل ہوگیا ہے وزیر اعظم رشی سونک کا جو اپنے سابقہ باس بورس جانسن کی تقلید کرتے ہوئے قانون کی خلاف ورزی کرتے پائے گئے ہیں ۔رشی سوناک ایک عوامی پیغام کی ویڈیو بناتے ہوئے بغیر سیٹ بیلٹ کے گاڑی میں برا جمان پائے گئے جو کہ برطانیہ میں ایک آفنس (offence ) ہے جس کی خلاف ورزی پر پینلٹی بھگتنی پڑتی ہے اور اب جب کہ یہ ثابت بھی ہوگیا ہے کہ برطانیہ کے وزیر اعظم نے سیٹ بیلٹ نہیں لگائی تھی تو ان پر پینلٹی بھی لگا دی گئی ہے جو اگر ان کے حالیہ اثاثوں کو دیکھتے ہوئے کہا جائے تو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے لیکن بہرحال پینلٹی تو پینلٹی ہے جو برطانیہ میں ہر رتبے کے فرد کو جھیلنی پڑتی ہے اس لئے رشی سوناک کو بھی بھرنی ہی ہے ، اب نکتہ یہ ہے کہ کیا اس وقت جب برطانیہ میں جلدی جلدی وزیر اعظموں کی رخصت ہوتی رہی ہے اور ابھی جب کہ ملک کو مستحکم لیڈر شپ کی ضرورت ہے، ایسے میں رشی سوناک کی اس غلطی کو نظر انداز کردیا جائے یا پھر اسے بھی بڑھاوا دے کر معاملات کو اس نہج پر لایا جائے کہ یہ سوال اٹھنے لگے کہ یہ وزیر اعظم بھی الیکشن سے رخصت کئے جا سکتے ہیں، بات تو یہ بھی ہے کہ یہ رشی سوناک کی پہلی غلطی نہیں اس سے پہلے بھی وہ اپنے سابقہ باس کے ساتھ لاک ڈاؤن میں برتھ ڈے پارٹی کرنے کی پاداش میں جرمانہ بھگت چکے ہیں اور اب یہ وزیر اعظم بننے کے بعد ان کی دوسری غلطی ہے تو اس دوسری غلطی کو نظر انداز کرنا برطانیہ جیسی جمہوریت میں اتنا آسان بھی نہیں، اس لئے ممکن ہے کہ یہ سب غلطیاں برطانیہ کے عام انتخابات میں ٹوری پارٹی کے اکاؤنٹ میں ضرور گنی جائیں اور یہی چھوٹی چھوٹی غلطیاں یہ فیصلہ کریں کہ اگلی بار بھی اقتدار اسی پارٹی کو ملے گا یا نہیں۔