• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اہل بیت عظام رضی اللہ عنہم کا مقام و مرتبہ

مولانا نعمان نعیم

گزشتہ دنوں قومی اسمبلی نے صحابہ کرامؓ و اہل بیت عظامؓ و امہات المومنینؓ کی توہین پر عمر قید کی سزا کا بل منظور کرلیا۔ دوران اجلاس جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے صحابہ کرامؓ و اہل بیت عظامؓ و امہات المومنینؓ کی توہین روکنے سے متعلق بل 2022ء پیش کیا جسے ارکان نے متفقہ طور پر منظور کیا۔نئے قانون کے تحت صحابہؓ و اہلبیتؓ عظام اور امہات المومنینؓ کی توہین پر کم سے کم سزا 10 سال جبکہ زیادہ سے زیادہ عمر قید ہوگی جب کہ پرانے قانون میں یہ سزا 3 سال تک تھی۔یہ ایک خوش آئند امر ہے۔

اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمﷺ کو تمام عالم کے انس وجن کے لیے مبعوث فرمایا۔ آپﷺ نے تعلیم و تربیت کا فریضہ پوری طرح انجام دیا۔ اللہ کی کتاب کے الفاظ کی تعلیم دی۔ اس کے معانی اوراحکام بتائے اور عملی طور پر بھی خود کرکے دکھایا۔ آپﷺ کی دعوت اور تعلیم و تبلیغ کا کام انجام دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکے صحابہؓ کو منتخب فرمایا۔ ان حضرات نے بہت ہی تکلیفیں اٹھائیں اور اسلام کے عقائد اور اصول وفروع کے پھیلانے اور پہنچانے میں جانوں کی بازی لگادی، جو دین انہیں ملا تھا ،اسے محفوظ رکھا اور آگے بڑھایا اور عالم میں پھیلایا۔ ساری اُمت پر ان حضرات کا احسان ہے کہ اُمت تک پورا دین پہنچادیا۔ یہ حضرات نبی اکرم ﷺکے صحیح نائب بنے۔ علم بھی سکھایا اور عمل کرکے بھی دکھایا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص کی قدر دانی فرمائی، ان کی محنتوں کو قبول فرمایا۔ قرآن مجید میں ان کی تعریف فرمائی اور ان سے راضی ہوجانے کی خوشخبری دی اور ان کے بلند درجات سے آگاہ فرمایا۔

صحابہ صحابی کی جمع ہے جس کے معنی ساتھی اور رفیق کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں صحابی اسے کہتے ہیں جس نے ایمان کی حالت میں نبی کریم ﷺ کی زیارت کی ہو یا آپ ﷺکی پاک صحبت کا شرف حاصل کیا ہو اور اسی حالت میں وہ دُنیا سے رخصت ہو گیا ہو۔صحابی رسول کو نبی کریم ﷺکا جو قربت کا جو شرف حاصل ہے، اس کا مقابلہ کوئی اور مسلمان ہرگز نہیں کر سکتا۔

صحابۂ کرام ؓسے محبت وعقیدت کے بغیر رسول اللہ ﷺسے سچی محبت نہیں ہوسکتی اور صحابہ کرامؓ کی پیروی کے بغیر آنحضور ﷺکی پیروی کا تصور محال ہے۔ کیونکہ صحابہ کرامؓ نے جس انداز میں زندگی گزاری، وہ عین اسلام اور اتباع سنت ہے اور ان کے ایمان کے کمال وجمال، عقیدہ کی پختگی، اعمال کی صحت و اچھائی اور صلاح وتقویٰ کی عمدگی کی سند خود رب العالمین نے انہیں عطا کی ہے اور معلم انسانیت ﷺ نے اپنے قولِ پاک سے اپنے جاں نثاروں کی تعریف وتوصیف اور ان کی پیروی کو ہدایت وسعادت قرار دیا ہے۔غرض حضرات صحابۂ کرامؓ کی جماعت اس پوری کائنات میں وہ خوش قسمت جماعت ہے جن کی تعلیم وتربیت اور تصفیہ وتزکیہ کے لیے سرورکائنات ﷺ کو معلم اور استاد واتالیق مقرر کیا گیا۔ اس انعام خداوندی پر وہ جتنا شکر کریں کم ہے، جتنا فخر کریں بجا ہے۔

آں حضرت ﷺ کی علمی وعملی میراث اور آسمانی امانت چونکہ ان حضرات کے سپرد کی جارہی تھی، اس لیے ضروری تھا یہ حضرات آئندہ نسلوں کے لیے قابل اعتماد ہوں، چناںچہ قرآن وحدیث میں جابجا ان کے فضائل مناقب بیان کیے گئے۔ وحی خداوندی نے ان کے تعدیل فرمائی، ان کا تزکیہ کیا، ان کے اخلاص وللہیت کی شہادت دی اور انہیں یہ رتبہ بلند ملا کہ انہیں رسالت محمدی ﷺکے عادل گواہوں کی حیثیت سے ساری دنیا کے سامنے پیش کیا۔ حضرات صحابہؓ کے ایمان کو ’’معیار حق‘‘ قرار دیتے ہوئے نہ صرف لوگوں کو اس کا نمونہ پیش کرنے کی دعوت دی گئی، بلکہ ان حضرات کے لیے ادب و احترام کی تعلیم دی گئی ہے۔اور خود کائنات کا پالن ہار ان کی تعریف وتوصیف بیان کرتا ہے، دنیاوی زندگی اور حیاتِ فانی ہی میں اپنی رضامندی اوران کی مغفرت کا اعلان کرتا ہے۔ 

اپنے خاص مقامِ رحمت جنت کی بشارت وخوش خبری سُناتا ہے، ارشادِ باری ہے: اللہ تعالیٰ ان سے خوش ہوگیا اور وہ اللہ سے۔(سورۃ البینہ/۸)یک موقع پر حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ایمان کی قبولیت کواور پھر ان کے ایمان کو معیار اور کسوٹی کا درجہ دیتے ہوئے ارشاد ہے: ایمان قبول کرو جیساکہ لوگوں نے ایمان قبول کیا۔(سورۃ البقرہ/۱۲) اور کبھی حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے باہمی ربط وتعلق اور محبت والفت کا نقشہ کھینچتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: وہ باہم نہایت مہربان اور شفقت کرنے والے ہیں۔ (سورۃ الفتح/۲۹)

حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے قلوب تقویٰ وطہارت میں نہایت مزکّٰی ومصفّٰی تھے، اسی کو قرآن یوں بیان کرتا ہے:وہی ہیں جن کے دلوں کو جانچ لیا ہے اللہ نے ادب کے واسطے۔ (سورۃ الحجرات/۵)

نبی پاکﷺ نے بھی ارشادات اور فرمودات میں حضراتِ صحابہؓ کے فضائل ومناقب اور ان کی ذاتِ قدسی صفات کی تعریف وتوصیف خوب خوب بیان فرمائی ہے۔ خلیفۂ ثانی فاروقِ اعظم حضرت عمرفاروقؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہؓ کا اعزاز واکرام کرو، کیوںکہ وہ تم سے بہتر ہیں ،پھر ان کے بعد والے، پھر ان کے بعد والے۔(سنن نسائی بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح/۵۵۴)دوسری روایت حضرت جابر ؓ سے ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: آگ اس شخص کو نہ چھوپائے گی جس نے مجھے دیکھا یا میرے صحابی کو دیکھا ہوگا۔(سنن ترمذی بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح/۵۵۴)حضرت ابوسعید خدری ؓسے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: تم لوگ میرے صحابہؓکو برا بھلا مت کہو! کیوںکہ (وہ تم سے بہت افضل ہیں) اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا راہِ خدا میں خرچ کرے گا، تب بھی وہ ان کے ایک مُد یا نصف مُد کو نہیں پہنچ پائے گا۔(متفق علیہ بحوالہ مشکاۃ المصابیح/۵۵۳)

حضورخاتم النبیین ﷺ نے فرمایا:میرے صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں،پس ان میں سے جس کی اقتداء کرو،ہدایت پاؤ گے۔( مشکوٰۃ المصابیح،جلد 3باب مناقب صحابہؓ)حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: میری امت میں سب سے بہتر لوگ میرے زمانے کے لوگ پھر ان کے بعد والے پھر ان کے بعد والے ہیں۔(متفق علیہ بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح/۵۵۳)آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:میرے صحابہ ؓکے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ انہیں میرے بعد ہدف ملامت نا بنا لینا۔ پس جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا ۔( صحیح ترمذی جلد2 ، صفحہ 226 )

صحابۂ کرامؓ عین دین کی بنیاد ہیں، دین کے اول پھیلانے والے ہیں، انہوں نے حضور اقدسﷺ سے دین حاصل کیا اور ہم لوگوں تک پہنچایا، یہ وہ مبارک جماعت ہے، جسے اللہ جل شانہ نے اپنے نبی پاکﷺ کی مصاحبت کے لیے چنا اور اس بات کی مستحق ہے کہ اس مبارک جماعت کو نمونہ بناکر اس کا اتباع کیا جائے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓفرمایا کرتے تھے جسے دین کی راہ اختیار کرنی ہے تو ان کی راہ اختیار کرے جو اس دنیا سے گزر چکے ہیں اور وہ حضرت محمدﷺ کے صحابہ ہیں جو اس امت کا افضل ترین طبقہ ہے ،قلوب ان کے پاک تھے، علم ان کا گہرا تھا، تکلف اور بناؤٹ ان کے اندر نہیں تھی،اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبی ﷺکی صحبت اور دین کی اشاعت کے لیے چنا تھا، اس لیے ان کی فضیلت کو پہچانو ،ان کے نقش قدم پر چلو اور طاقت بھر ان کے اخلاق اور ان کی سیرتوں کو مضبوط پکڑو ،اس لیے کے وہی ہدایت کے راستے ہیں۔ان کی زندگیوں کا مطالعہ ایمانی کیفیت کو بڑھاتا ہے، زندگی کے اصول سکھاتا ہے،عقائد ،عبادات ،معاشرت اورمعاملات انسان کے درست ہوتے ہیں، سنت اور بدعت کی پہچان ہوتی ہے۔ 

اس زمانے کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ صحابہ کرام ؓکی مقدس زندگی کو دنیا کے سامنے اس طرح پیش کیا جائے جس سے لوگوں میں شوق عمل پیدا ہو اور اس مثال کو پیش نظر رکھ کر لوگ خود بخود اپنے عقائد واعمال کی طرف مائل ہوں۔ نبی کریم ﷺکی پاک زندگی کو پہچاننے کے لیے حضرات صحابہؓ ہی کی زندگی معیار ہوسکتی ہے کیونکہ یہی وہ مقدس جماعت ہے جس نے براہ راست حضور اکرمﷺ سے استفادہ کیا اور آپﷺ کی نبوت کی روشنی بغیر کسی پردےاور بغیر کسی واسطے کے صحابہ کرامؓ پر پڑی ،ان میں جو ایمان کی حرارت اور نورانی کیفیت تھی ،وہ بعد والوں کو میسر آنا ممکن نہ تھی، اس لیے قرآن کریم نے صحابہ کرامؓ کی پوری جماعت کی تقدیس وتعریف فرمائی ہے اور جماعت صحابہ کو مجموعی طور پر فرمایا : اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔

کائنات کی سب سے افضل ہستی، سید البشر اور امام الانبیاء ﷺکے گھرانے والوں کو اہل بیتؓ کہا جاتا ہے ۔اس نسب اور خاندان سے ہونا دنیا کا سب سے بڑا اعزاز واکرام ہے۔اللہ رب العزت کا شکر ہے کہ جس نے ہمیں حضور نبی اکرم ﷺ کی امت میں شامل فرمایا اور اپنی بندگی، عبادت اور طاعت کے ساتھ ساتھ حضور نبی اکرم ﷺ کی غلامی اور آپ ﷺ کی محبت کے رشتے میں منسلک کیا۔ آپﷺ کی محبت کے باب میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے کچھ مظاہر بنائے ہیں اور اہل بیت اطہارؓ اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کی محبت کو اہم ترین مظاہرِ ایمان اور مظاہرِ محبتِ رسول ﷺ میں شامل فرمایا ہے۔حضور علیہ السلام نے اپنی قرابت اور اپنی اہل بیتؓ کی محبت کو ہمارے اوپر فرض و واجب قرار دیا ہے۔

حضرت سعد بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حسنؓ و حسینؓمیری دنیا کے دو پھول ہیں ۔ (کنزالعمال)حضرت سلمان فار سیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، سیدنا حضرت حسنؓ ;اور سیدنا حضرت حسینؓ میرے بیٹے ہیں اور جس نے مجھے محبوب رکھا، اس نے اللہ کو محبوب رکھا اور جس نے اللہ کو محبوب رکھا، اللہ پاک نے اسے جنت میں داخل کیا اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا، اس نے اللہ سے بغض رکھا اور جس نے اللہ پاک سے بغض رکھا، اللہ پاک اسے دوزخ میں داخل کرے گا ۔ (زرقانی)روایت کے مطابق ایک موقع پر رسول اللہﷺ نماز پڑھ رہے تھے تو سیدنا حضرت حسنؓ و سیدنا حضرت حسینؓ آئے اور جب آپ ﷺ سجدے میں گئے تو دونوں آپ ﷺ کی پُشت مبارک پر سوار ہوگئے ،لوگوں نے چاہا کہ منع کردیں ،جب آپ ﷺ نے سلام پھیرا تو فرمایا کہ دونوں میرے بیٹے ہیں، جس نے ان دونوں کو محبوب رکھا، اس نے مجھے محبوب رکھا ۔(اسد الغابہ)

حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ میں آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ نے حضرت حسنؓ و حضرت حسین ؓ کو اپنی پشت مبارک پر بٹھایا ہوا تھا اور آپ ﷺ دونوں ہاتھوں اور دونوں گھٹنوں پر چل رہے تھے۔ میں نے کہا ،سواری کتنی اچھی ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا سوار کتنے اچھے ہیں۔ (کنزالعمال)سبحان اللہ، وہ نبی مکرم رسول معظم شفیع اعظم خاتم النبیین رحمۃ للعالمین ﷺ جن کے لئے یہ ساری کائنات بنی ،جن کے لئے دن اور رات کانظام وجود میں آیا، معراج جن کا سفر کہلایا ،سدرہ المنتہیٰ جن کی راہ گزر ٹھہری، عرش عظیم جن کے لئے فرش بنا، دیدار الٰہی جن کا اعزاز ٹھہرا، وہ نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام اپنی مبارک پشت پر دونوں شہزادوں کو سوار کیے ہوئے ہیں اور ساتھ فرما رہے ہیں کہ اگر سواری عمدہ ہے تو سوار کتنے اچھے ہیں۔ حضرات حسنین کریمین ؓکے لئے اس سے بڑھ کر اعزاز کی بات کیا ہو سکتی ہے؟ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ ایک بار حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت فاطمہ ؓسے فرمایا ،کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم جنت کی عورتوں کی سردار ہو اور تمہارے بیٹے جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ (کنزالعمال)

حضرت یحییٰ بن مُرّہ ؓسے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا، حسینؓ مجھ سے اور میں حسین ؓ سے ہوں اور جو حسین ؓ کو محبوب رکھتا ہے ،وہ اللہ پاک کو محبو ب رکھتا ہے ۔ (ترمذی)امیر المو منین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ حسنؓ سر سے سینے تک نبی کریم ﷺ سے مشابہہ تھے اور حسین ؓ سینے سے قدموں تک آپ ﷺ کے ساتھ مشابہت رکھتے تھے ۔ (ترمذی)رسول کریم ﷺ ان دونوں شہزادوں سے بے حد محبت فرماتے ، یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے ان دونوں شہزادوں کے لئے ایک بار دعا فرماتے ہوئے اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا، اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان دونوں سے محبت فرما ۔(ابن ماجہ)

حضرت حسین ؓ اور دیگر اہل بیتؓ و صحابۂ کرامؓکی محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور کیوں نہ ہو،ان ہی حضرات کے ذریعے دین ہم تک پہنچا ۔آج جو ہم مسلمان کہلاتے ہیں ،یہ محض اللہ رب العزت کا فضل حضور نبی کریم ﷺ کی دعاؤں کی برکت اور ان قدسی صفات حضرات کی محنت کا نتیجہ ہے، لہٰذا ہم پر لازم ہوتا ہے کہ اپنی دعاؤ ں کے اندر ایمان کی عظیم نعمت پر جہاں خدا کا شکر ادا کریں اور آپ ﷺ پر درود و سلام بھیجیں، وہیں ان حضرات کے لئے درجات کی بلندی کی دعا بھی کریں، ہم ان کے احسانات کا بدلہ تو نہیں چکا سکتے، لیکن اس رب کے حضور ان حضرات کے لئے دعا تو کر سکتے ہیں جو ایک نیکی کا اجردس سے شروع کرتاہے اور پھر اس کی کوئی انتہا نہیں ہے، اللہ تعالیٰ حضرات اہل بیتؓ و صحابۂ کرام ؓ اجمعین پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)