• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسان شاید اس دنیا کی وہ سب سے متجسس مخلوق ہے، جو ہر وقت نہ صرف اپنے ماحول بلکہ اس وسیع کائنات کی ہر شے کو کھوجنے، اس کی حقیقت جاننے کی جستجو میں لگا رہتا ہے۔ یہی کھوج اسے آج چاند ستاروں اور کروڑوں نوری سالوں کے فاصلے پر واقع کہکشاؤں تک لے گئی ہے۔جو سوال ہمیشہ سے اس کے دماغ میں کلبلاتے رہے ہیں ان میں اول کائنات کے ان سربستہ رازوں کا حصول ہے جن میں سے کچھ سے پردہ اٹھایا جا چکا ہے اور بہت سو کی کھوج ابھی باقی ہے۔

ہزاروں سال سے جاری سائنسی تحقیق، سوال و جواب اور دریافتوں کا سلسلہ اپنی جگہ، مگر آج سے تقریباً چار سو سال پہلے یورپ میں جو سائنسی انقلاب برپا ہوا، اس کی وجہ سے ہزاروں سال پرانے نظریے اور مفروضے غلط قرار پائے، وقت کے بہتے دھارے کے ساتھ فزکس میں نت نئے اصول وضع کیے گئے، اور ایسے آلات وجود میں آئے جن سے کائنات کی اصلیت اور ابتدا کو کافی حد تک سمجھنے میں مدد ملی۔ انسان آج بھی نت نئے طریقوں سے اس کوشش میں ہے کہ کائنات کی ایک جامع اور واضح تصویر عیاں ہو جائے۔ بگ بینگ کا نام تو آپ نے سنا ہوگا۔

یہ انگریزی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی بڑے دھماکےکے ہیں۔ بگ بینگ دراصل وہ دھماکہ ہے، جس سے ہماری یہ کائنات وجود میں آئی ہے۔ اس نظریے کے مطابق کائنات کے وجود میں آنے سے پہلے تمام مادّہ ایک سوئی کے ہزارویں حصّے کے برابر نہایت خفیف جگہ میں قید تھا۔ اگر مادّے میں بہت زیادہ توانائی ہو، دنیا کے کسی بھی ذریعے سے حاصل کردہ توانائی سے زیادہ، تو کششِ ثقل یعنی گریویٹی چیزوں کو اپنی جانب کھینچنے کے بجائے ایک دوسرے سے دور دھکیلنے والی قّوت بن جاتی ہے۔چناں چہ سائنس کے مطابق یہی بگ بینگ کا وہ نکتہء آغاز تھا، جب تمام مادّہ ایک دھماکے جیسی صورتحال کے بعد انتہائی تیزی سے ایک دوسرے سے دور ہونے لگا اور خلاء میں پھیل گیا۔

اس وقت اس کی رفتار اس قدر زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ کائنات تیزی سے پھیلنے لگی۔ آپ میں سے اکثر لوگ یہ سوچیں گے کہ بھلا کائنات کی عمر کوئی کیسے بتا سکتا ہے؟ تو اِس کا جواب ہمیں ’’ہبل خلائی دوربین‘‘ نے دیا ہے۔ اس دوربین کی مدد سے لی گئی تصاویر میں ہمیں جو سب سے پرانی کہکشاں ملتی ہے، وہ زمین سے 13.4 ارب نوری سال دور واقع ہے۔ نوری سال دراصل وقت کا پیمانہ نہیں ہے بلکہ فاصلے کا پیمانہ ہے اور ایک نوری سال کا فاصلہ تقریباً 10 کھرب کلومیٹر کے برابر ہے۔ 

اس کے دھماکے سے مادّہ خلا میں پھیلا اور کائنا ت تیزی سے پھیلنے لگی 

یہ فاصلہ روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے۔ اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جہاں ایک نوری سال ہی 10 کھرب کلومیٹر کے برابر ہے تو 14 ارب نوری سال کتنے کلومیٹر کے برابر ہوں گے۔ اگر ہم پیمائش کر سکیں کہ کسی دور دراز ستارے یا کہکشاں سے روشنی ہم تک آنے میں کتنے سال لگے ہیں، تو ہم اس طرح قدیم سے قدیم تر کہکشاؤں کا پتہ لگا سکتے ہیں۔ اب تک ہم نے جس قدیم ترین کہکشاں کا مشاہدہ کیا ہے، وہ چوں کہ 13.4 ارب نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے، اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کائنات کی عمر اس کے آس پاس ہی بنتی ہے۔

چلیے کائنات کے وجود میں آنے کے بعد کے حالات پر واپس آتے ہیں۔14 ارب سال پہلے نہ یہ سورج تھا، نہ یہ ستارے، نہ یہ کہکشاں، نہ یہ نظارے، بلکہ صرف دھماکے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بڑے بڑے ہائیڈروجن گیس کے بادل تھے۔ خلاء میں موجود ان بادلوں کے جن حصوں میں ہائیڈروجن اور ہیلیئم کی مقدار زیادہ تھی، ان حصّوں میں گیسز سکڑنے لگیں اور سکڑتے سکڑتے کافی گرم اجسام کی شکل اختیار کرگئیں جنہیں ہم ’’ستارے‘‘ کہتے ہیں۔ 

مزید برآں ان ستاروں کے آس پاس جہاں گیسز کی مقدار کم تھی، وہاں بھی گیسز سکڑتی گئیں اور گرم (ستاروں سے کم گرم) اجسام بنے جو ستاروں سے چھوٹے تھے، اور کسی اپنے سے بڑے نزدیکی ستارے کی بہت زیادہ کشش کی وجہ سے اس (ستارے) کے گرد مدار میں چکر لگانے لگے۔ ان اجسام کو ہم سیارے کہتے ہیں۔ کئی ستارے آپس کی کشش کی وجہ سے جھرمٹ کی شکل اختیار کر گئے اور اس طرح کہکشائیں وجود میں آئیں۔ ہمارا سورج اور زمین جس کہکشاں میں ہے اس کا نام ’’ملکی وے‘‘ ہے۔ اس کا نام ملکی وے اس لیے رکھا گیا ہے، کیوں کہ اس کے بہت سے ستارے سفید نظر آتے ہیں، اس کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ’’دودھ کی نہر یا راستہ‘‘ ہو۔

جب زمین بنی تو اپنے محور اور سورج دونوں کے گرد بہت تیزی سے چکر لگا رہی تھی اور آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہوتی چلی گئی۔ زمین کی اپنی پیدائش کے وقت شکل بالکل ایسی تھی جیسے ہر جگہ آتش فشاں پھٹ رہے ہوں۔ لیکن جیسے ہی درجۂ حرارت کم ہونے لگا تو زندگی بھی جنم لیتی گئی۔ تب نہ کوئی انسان تھا نہ جانور یہاں تک کہ سب سے چھوٹے جاندار یعنی بیکٹیریا تک کا وجود نہ تھا۔

لیکن تب بھی زمین پر ان سب کو جنم دینے والے عناصر یعنی معدنیات موجود تھے، پھر کیمیائی ارتقاء کا آغاز ہوا ،جس میں ان معدنیات کے چھوٹے خلیے ملے اور مالیکیولز بنے اور پھر ان لاکھوں مالیکیولز کے ملنے سے ایسے خلیے وجود میں آئے جو خود سورج کی روشنی استعمال کر کے اپنی خوراک بنانے کے قابل تھے اور ان میں سے ہر ایک کا ایک بنیادی اصول تھا کہ مرنے سے قبل ہر خلیہ ایک سے دو ہو جاتا، اس طرح ان کی تعداد بڑھتی رہی۔ یہ بیکٹیریا ایسے جاندار تھے جنہیں زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی ضرورت نہیں تھی، البتہ یہ خود آکسیجن پیدا کرتے تھے۔ چوں کہ ان کی تعداد کافی زیادہ تھی اس لیے زمین پر فضا میں آکسیجن کی مقدار بڑھنا شروع ہوگئی۔ 

فضا میں آکسیجن کی مقدار جیسے جیسے زیادہ ہوتی چلی گئی، ویسے ویسے کیمیائی ارتقاء (یعنی مادّے سے خلیے بننے کا عمل) تھمتا گیا، یہی وجہ ہے کہ آج کوئی جاندار بے جان چیزوں سے نہیں بنتا۔ ارتقاء گھنٹوں، دنوں، یا سالوں پر محیط کوئی عمل نہیں ہے بلکہ یہ ایسی طویل زنجیر ہے، جس کی ایک ایک کڑی کے جڑنے میں صدیاں گزر جاتی ہیں۔ اب کیمیائی ارتقاء کے بعد حیاتیاتی ارتقاء یعنی چھوٹے جانداروں سے دوسرے بڑے جانداروں کے بننے کا عمل شروع ہوا۔ 

بیکٹیریا سے شروع ہونے والا ارتقائی عمل بہت سے خلیوں پر مشتمل جانداروں کی تشکیل کا سبب بنا، جن میں سب سے پہلے مچھلیاں پیدا ہوئیں، ان کے بعد یعنی خشکی اور تری دونوں میں رہنے والے جاندار (جن میں مینڈک بھی شامل ہے) بنے، پھر یعنی رینگنے والے جانور (جن میں چھپکلیاں، مگرمچھ وغیرہ شامل ہیں)، پھر پرندے، اور سب سے آخر میں ممالیہ جانور (بھیڑ، بکری، گائے، انسان وغیرہ شامل ہیں) بتدریج وجود میں آتے گئے۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
ٹیکنالوجی سے مزید