منشی پریم چند دیہاتی زندگی سے محبت کرنے والے انسان تھے،اگر چہ سادہ طبیعت اوربا اصول شخصیت کے مالک تھے ، لیکن ان کی روح ہر وقت بے چین سی رہتی تھی۔ وہ آزادی کے قائل تھے۔ غور و فکر کرنا اور حوصلہ مندی سے جینا،ان کی زندگی کا بنیادی نصب العین تھا۔ انسان دشمن عناصر کی سختی سے مخالفت کی، قوموں کے عروج و زوال کو سمجھا اور اس کے اثرات کو محسوس کیا۔ ذہنی اعتبار سے پریم چند ہمیشہ ارتقاء پذیر رہے، ہندوستان کے بدلتے ہوئے حالات نے انہیں جہاں ایک طرف دکھ دیا، وہیں پر اچھی امیدوں کی کرنیں بھی پیدا کیں۔
پریم چند کی طبیعت میں سادگی کا پہلو بہت نمایاں تھا، اور اس سادگی میں نہ صرف ایک درد مند دل پایا جاتا تھا، بلکہ وہ انسانی نفسیات کا شعور بھی رکھتے تھے۔ دیہاتی ماحول کے قریب رہنے اور اسے پر کھنے کی وجہ سے زندگی اور فطرت کے تقاضے سمجھتے تھے۔ زمانے کی تغیر پذیری کو ان کی نگاہوں نے بہت پہلے ہی بھانپ لیا تھا، اسی لیے انہوں نے کہانی کے سفر کو زمانے کے سفر کے ساتھ ساتھ چلایا اور سچائی کو ساری کائنات کا محور قرار دیا۔ان کے افسانے’’ کفن‘‘، ’’حج اکبر‘‘ اور ’’صرف ایک آواز‘‘ اسی سفر کی سچائی کو بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ روحانیت اور جذباتیت کو کبھی بھی حقیقت سے بالا تر کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اگرچہ ان کےبعض افسانوں میں کسی حد تک غیر فطری مظاہر نظر بھی آئے، لیکن پھر بھی سماجی دائرہ کار سے وہ کبھی باہر نہیں نکلے۔ زندگی کے ہر جز کو شائستگی سے بیان کرتے۔
تہذیب کا اثر فرد بہت تیزی سے قبول کرتا ہے، اس کی سوچ میں متواتر تبدیلیاں بھی رونما ہوتی رہتی ہیں ، کہیں پر احساس کی شدت تو کہیں پر جذ بے شامل ہوتے ہیں۔ مایوسی اور بے مقصدیت کا احساس ہونے لگتا ہے، معاشرتی تقاضوں اور تہذیبی زوال انسان کوانسانیت سے گرا دیتے ہیں۔ معاشرتی انحطاط فرد کو کس کرب سے گزارتا ہے، اس کی ایک جھلک ہمیں ’’تحریک‘‘،’’ادیب کی عزت‘‘ اور’’ہولی کی چھٹی‘‘ جیسے افسانوں میں نظر آتی ہے۔ پریم چند کی شخصیت نے زندگی کے ایک ایک جز کو تلاش کرنے کی کوشش کی، اب اس میں کہیں خوشگوار تو کہیں دُکھ اور اُداسی کے لمحات شامل تھے۔
اگرچہ قدامت پرست تھے لیکن ہندوستان میں پائی جانے والی تفریق کو دُکھ کی نگاہ سے دیکھتے تھے ،اس کا سبب یہ بتاتے تھے کہ زمینداروں نے اس تفریق کو خود پیدا کیا ہے۔ ان کے افسانوں میں پائے جانے والے کردار سادگی کی علامت ہیں، اور یہ سادگی ان کی شخصیت میں بھی نمایاں ہے۔ پریم چند نے اپنی زندگی میں کبھی کبھی تھکن کا اظہار کیا ہےلیکن اس کو اپنی شخصیت پر حاوی نہ ہونے دیا، اس کا واضح ثبوت ان کے وہ افسانے ہیں، جس میں انھوں نے ایک روشن اور درخشاں مستقبل کی تصویر پیش کی ہے۔
منشی پریم چند کی شخصیت کے بے شمار زاویے ہمارے سامنے اُجاگر ہوئے اور ہر زاویہ ایک نیا اور منفرد روپ اور ایک نیا نقطہ نظر لے کر سامنے آیا۔ اردو ادب کے حوالے سے خاص طور سے افسانوی دنیا میں پریم چند کی شخصیت ایک عظیم ورثہ ہے۔ ان کی فکری سوچ نے ان کی شخصیت پر بھی گہری چھاپ لگائی تھی، جہاں ایک طرف زندگی کی تلخیاں تھیں، وہیں دوسری جانب زندگی کی مٹھاس تھی، یہ سب کچھ انہیں رومانیت کے اس عنصر سے ملا جسے محبت کہتے ہیں، اسی محبت کو فطرت کا نام دے کر پاکیزگی کا جذبہ دیا۔ ان کی شخصیت کے بعض پہلوؤں میں جو دھندلاہٹ نظر آتی ہے، اس کی بنیادی وجہ ہندوستانی معاشرے میں پایا جانے والا عدم توازن تھا، جس نے ان کو مایوسی کی گرفت میں لے لیا اور اس کے اثرات کسی نہ کسی صورت ان کی شخصیت پر پڑے۔
معاشرتی اور سیاسی اُتار چڑھاؤ، زندگی کے تلخ و شیریں تجربات نے ان کی فکری اور شعوری سطح کو بلند کیا۔ ہندوستان کی دیہاتی زندگی سے متاثر تھے ، اپنے چاروں جانب پھیلی ہوئی نا انصافی، دکھ ، درد اور پھر ان کے اپنے مزاج میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی، عجز و انکساری کے جذبے نے ان کی ادبی حیثیت پر نمایاں اثرات مرتب کیئے۔ ان کے افسانوں میں جو رنگ سب سے نمایاں ہو کر سامنے آیا وہ ہندوستانی عوام کی بے بسی، لاچاری، بھوک و افلاس میں ڈوبی ہوئی چند چھوٹی چھوٹی خواہشات کا رنگ تھا۔ ان کے نزدیک اس کی ایک بنیادی وجہ ہندوستانی عوام کی غلامی بھی تھی، جو جسمانی کے ساتھ ساتھ فکری اور روحانی طور پر بھی تھی۔ پریم چند کی فکر مذہب اور قومیت کے دائروں سے باہر تھی۔
دراصل وہ انسان اور انسانی خیالات کو تخیل سے آزاد کروا کر اسے زمینی حقائق کی دنیا میں لانا چاہتے تھے۔ پریم چند نے کبھی بھی سچائی کو کسی بھی معاملے پر قربان نہیں کیا، انہوں نے اپنی تحریروں میں ایک قومی پہلو کا عنصر رکھا، اس سے ان کا ہر افسانہ ہندوستان کے ہر فرد کا افسانہ بن گیا۔ زندگی کے داخلی پہلوؤں پر نظر رکھنے والا پریم چند اپنے مخصوص تصورات کے باعث اردو افسانے میں عظیم المرتبت افسانہ نگار کا درجہ رکھتا ہے۔
ہندوستان میں پائے جانے والے معاشرتی و مذہبی تضادات اور پھر عوام کی مفلسی، بد حالی نے پریم چند کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا۔ان کی زبان بہت سادہ اور حقیقی زندگی سے بہت قریب ہے۔ انہوں نے اپنی تخلیقات میں جمالیاتی پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ ان کے افسانوں کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ان کا رنگ مقامی ہے ، ہندوستان کی زندگی کا رنگ، اور اس میں بھی دیہاتی پہلو بہت نمایاں ہے۔ فطرت کا اصل رنگ پریم چند کو دیہات میں ہی نظر آیا۔ زندگی کے معمولی واقعات کو دلکش پیرائے میں پیش کیا۔
پریم چند کا پہلا افسانوی مجموعہ’’سوز وطن‘‘ کا نام اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ان کے ذہن میں بیداری کی کون سی لہریں تھیں اور بیزاری کے کون سے عوامل پرورش پارہے تھے۔ افسانوں کے کردار انسانیت سے محبت کرتے ہوئے نظر آئیں گے، یہ پہلو اردو افسانوی دنیا میں ذرا کم ہی ہے۔ خیر و شر کو اپنے افسانوں کا موضوع ماحول کی مناسبت سے بہت خوبی سے بنایا، اور اس میں مذہب کا عمل دخل کچھ اس انداز سے کیا جو دوسرے ادیبوں میں اس زاویہ سے نہیں ملتا، یعنی ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہندو مذہب کے جذبات و احساسات کو اردو افسانوی دنیا میں زیادہ واضح اور وسیع مفہوم کے ساتھ پریم چند نے ہی پیش کیا۔
پریم چند کی ادبی حیثیت کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ افسانے کے جو خد وخال پریم چند نے متعین کیے، آج بھی ہم انہی اصولوں پر عمل پیرا ہیں۔ فطری صلاحیت سے دیکھنے کے عادی تھے ، اسی لیے بعض افسانوں میں جذبات کی شدت کا احساس ذرا زیادہ محسوس ہوتا ہے، ان کے اندر کا انسان ہمیشہ سکون کا متلاشی رہا۔ پریم چند کی تحریروں میں جو ارتقائی سفر بتدریج بلند ہو تا ہوا نظر آتا ہے، اس نے انہیں افسانوی دنیا میں ایک نمایاں مقام عطا کیا ہے۔
وہ حقیقتاً زمانہ شناس اور فکر و عمل کا مجموعہ تھے۔ اسی سوچ کو لے کر آگے بڑھے ،اس راستے میں انہوں نے مذہب، قومیت، سماجی فکر کو کبھی بھی محدود نہ رکھا، بلکہ ایک ایسی طبقاتی جدوجہد شروع کی جہاں صرف شعور کا عمل دخل رہ جاتا ہے،یہ شعوری عمل آج بھی ہمارے لیے ایک تجربہ ہے۔ بدلتے ہوئے ہندوستانی سماج میں جو تحریکیں اُٹھ رہی تھیں، اُن کی شدت اور اثرات سے وہ بخوبی واقف تھے ، اسی لیے ان کے افسانے ہمیں ان حالات کی عکاسی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جس طرح ہر دور میں حقیت نگاری کا تصور تبدیل ہوتا گیا، اِسی طرح پریم چند کے شعوری و فکری تصورات بھی بدلتے چلے گئے۔
پریم چند کے نزدیک ادب کو زندگی سے کسی صورت میں بھی الگ نہیں کر سکتے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ باطنی جذبات و احساسات کا بھی خیال رکھنا چاہئیے ، کیونکہ یہی عوامل کسی بھی معاشرے کی تشکیل میں اہم کر دار ادا کرتے ہیں۔ ہندوستانی معاشرے میں جس چیز سے طبقاتی کشمکش ایک نیا رخ اختیار کر رہی تھی۔ اُس کو دیکھتے ہوئے باشعور اور تعلیم یافتہ افراد کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ ان حقیقتوں سے منہ چرائیں، سب سے بڑھ کر ایسے سماج میں جذباتیت کی بالکل بھی گنجائش نہیں ہوتی، لہذا پریم چند،متوازن سوچ کے ساتھ آگے بڑھے، جب سماج دشمن عناصر نے عوام کو کبھی مذہب اور کبھی زبان کے حوالے سے باٹنے کی کوشش کی تو پریم چند نے ہندوستانی عوامل کی اس روح کو اپنے افسانوں میں پیش کیا، جہاں گرہوں میں بٹ جانے کے باوجود یہ اندر سے سب ایک تھے۔ ”دنیا کا سب سے انمول رتن“ سے شروع ہونے والا حقیقت پسندی کا سفر کفن“ پر اختتام ہو ا توایسے شعور تک جاپہنچا جو آج بھی ہمارے دور کا تجربہ ہے۔
پریم چند نے اپنے مخصوص طرزِ فکر میں چاہے اصلاحی افسانے لکھے یا نظریاتی، اپنے خاص رومانی طرز احساس کو ادبی زندگی کےزمانہ کو تبدیلی کی جانب گامزن رکھا، وطن پرستی کے جذبات عروج پر تھے، ان حالات میں یہ کیسے ممکن تھا کہ، ایک باشعور ، حساس اور باریک سے بار یک چیزوں پر نظر رکھنے والا شخص پریم چند اس سارے عمل کی تہہ میں موجود ان اجزاء پر غور و فکر نہ کرئے،جن کی وجہ سے بہت سے دلوں میں آگ بھڑک رہی تھی۔ سماج کی حقیقت نگاری سے جو نتائج بر آمد ہوتے ہیں، وہ اکثر افراد کو توڑ موڑ کر رکھ دیتے ہیں، اس کی بنیادی وجہ بر داشت کا کم ہو نا اور خود کو انا کے خول میں بند رکھنا بھی ہے۔
سماجی شعور کو سامنے رکھتے ہوئے پریم چند نے معاشرے میں موجود جن اجزاء کی اپنے افسانوں میں نشاندہی کی انہیں ہم ’’جہد مسلسل‘‘ کا نام دے سکتے ہیں، چونکہ ان کا ذہن ہمیشہ ارتقاء پذیر رہا، اس لیے جہاں اُن کے خیالات، واقعات کا ساتھ دے رہے تھے ، وہیں پر وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ ہندوستانی عوام کی روح کرب و اضطراب میں بری طرح مبتلا اور ایک بہتر زندگی کی جانب گامزن ہے اور یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب ’’جہد مسلسل ‘‘ کو اپنایا جائے اور اس کے لیے فرد انفرادی و اجتماعی طور پر اس کرب سے گزرنے کا پابند ہو جائے۔ انسان کی بے ضمیری اور بے حسی اور پھر اس کے ساتھ ساتھ غربت و افلاس ایک ایسا روپ دکھاتی ہے، کہ جہاں انسان انسانیت سےگر کر حیوانیت میں شامل ہو جاتا ہے، اور ایسی حیوانیت ہمارے چاروں جانب آج بھی موجود ہے۔
پریم چند کی زندگی نشیب و فراز کا مجموعہ رہی،وہ زندگی کے نشیب و فراز کی وجوہات ہندوستان کی سوندھی سوندھی زمین پر بسنے والے افراد کی زندگیوں میں محسوس کرتے تھے، اور ان میں بسی تلخی کا رنگ وہ اچھی طرح پہچانتے تھے۔ ان کے افسانوں میں موجود انسانی رویے ان حقائق پر زور دیتے ہیں ، جہاں ہم معاشرے کی ناہمواریوں کو شدت سے بآسانی محسوس کرتے ہیں، ایک ایسے انسان کا سفر نظر آتا ہے جو مسلسل اپنی بے چین روح کے ساتھ اس دنیا میں جیتا ہے۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔
تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی